نظامِ فلکی(سورج، چاند اور ستاروں) کے حقائق 242

نظامِ فلکی(سورج، چاند اور ستاروں) کے حقائق

نظامِ فلکی(سورج، چاند اور ستاروں) کے حقائق

اللہ تعالیٰ زمین وآسمان ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کے خالق ہیں جس طرح انس و جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اسی طرح باقی مخلوقات کو بھی کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ہر مخلوق اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ان مخلوقات میں سورج چاند اور ستارے بھی شامل ہیں۔ اس مضمون میں سورج، چاند اور ستاروں کے حقائق کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے اور فن کہانت، فن نجوم، فن رمل، فن جفر، فن قیافہ شناسی، فن تاثیرِ احجار،بدفالی، جنتری اور برجوں کی دنیاجیسی چند معاشرتی جہالتوں کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔
ستاروں سے بارش مانگنا:حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کی ایک برائی یہ بھی ذکر فرمائی:وَالاِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُومِ لوگ ستاروں کی گردش اور ان کے اپنی اپنی منازل میں طلوع و غروب کی وجہ سے بارشوں وغیرہ کے برسنے کا اعتقاد رکھیں گے۔ستاروں کے پرستار:
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر رات کو بارش ہوئی اور صبح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز فجر پڑھائی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف رخ مبارک پھیر لیا اور پوچھا:کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ کے رب نے کیا فرمایا؟ ہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے صبح کی تو مجھ پر ایمان رکھتے تھے اور ستاروں کے منکر تھے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی تو ایسے کہنے والا شخص میرا منکر جبکہ ستاروں پر اعتقاد رکھنے والا ہے۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث:846)
نظامِ فلکی … قُدرتِ الہیّہ کا مظہر اور تابع ہے:
مفہوم آیت: اور سورج، چاند اور ستارے سب کے سب اس(اللہ)کے حکم سے(ایک مقرر، منظم اور منضبط نظام کے)تابع بنا دیے گئے ہیں۔ (سورۃ الاعراف، رقم الآیۃ:54)سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں:حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوںمیں سے دو بڑی نشانیاں ہیں۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1063)سورج…روشنی کا ذریعہ:
مفہوم آیت: اللہ وہی ذات ہے جس نے سورج کو روشنی کا ذریعہ اور منبع بنایا۔(سورۃ یونس، رقم الآیۃ: 5)
سورج…اپنے مقرر کردہ راستے پر:
مفہوم آیت: اور سورج اپنے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے جو راستہ غالب علم والے (اللہ تعالیٰ)کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔ (سورۃ یس، رقم الایۃ: 38)
سورج کا زیر ِعرش سجدہ ریز ہونا:
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ میں سورج کیغروب کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ابوذر!کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس بات کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب غروب ہونے کے لیے اپنے مقام کی طرف چلا جاتا ہے تو زیر عرش اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4802)
فائدہ: سورج کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا ہر طلوع وغروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے اور یہ اس کی اجازت کا تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کا تابع فرمان ہونا ہی اس کا سجدہ قرار دیا گیا ہے۔
شمسی تقویم:
مفہوم آیت: ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا۔رات کی نشانی کو ہم نے بے نور اور دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل(روزی کو بآسانی)تلاش کر سکو تاکہ تم سالوں کی گنتی اور(مہینوں کا ) حساب معلوم کر سکو۔(سورۃ بنی اسرائیل، رقم الآیۃ:12)
شمسی حساب:
مفہوم آیت: سورج اور چاند(اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلکی) حسابات کے مطابق ہیں۔(سورۃ الرحمٰن، رقم الآیۃ: 5)
فائدہ: سورج کے ذریعے بعض نمازوں کے مستحب، مسنون اور مکروہ اوقات، روزے کے سحر وافطار کا حساب کتاب بھی لگایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سمتِ قبلہ متعین کرنے میں بھی سورج کو مدار بنایا جاتا ہے۔
سورج…حرارت کا ذریعہ:
مفہوم آیت: اور ہم نے سورج کو روشنی اور حرارت کا مرکز بنایا۔ (سورۃ النبائ، رقم الآیۃ: 13)
سورج کو گرہن لگنا:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گرہن ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں نے نظریہ بنالیا ہے سورج و چاند کو گرہن اس لیے لگتا ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی موت واقع ہوئی ہے حالانکہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے سورج اور چاند کو گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانیاں ہیں۔(السنن الکبریٰ للنسائی،رقم الحدیث: 1883)
سورج و چاند کا سفر قیامت تک جاری رہے گا:
مفہوم آیت: اور اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو(اپنے حکم کا )تابع بنادیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک (اپنے محور میں)متعینہ وقت(قیامت)تک چلتا رہے گا۔(سورۃ زمر، رقم الآیۃ: 5)
سورج بے نور ہو کر لپیٹ دیا جائے گا:
مفہوم آیت: جب سورج(بے نور ہو جائے گا اور اس کو)لپیٹ دیا جائے گا۔(سورۃ التکویر، رقم الآیۃ: 1)
چاند کی شرعی حیثیت:
مفہوم آیت: اے میرے پیغمبر!لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ فرما دیں کہ یہ لوگوں(کے مختلف عبادات و معاملات) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لیے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:189)
چاند پر بعض اَحکامِ شریعت کا مدار:
اللہ تعالیٰ نے حج کے علاوہ بھی بعض شرعی احکامات کا مدار چاند پر رکھا ہے۔ جیسے:
اَحکامِ عاشورائ(نویں اوردسویں یا پھر دسویں اورگیارہویں محرم کاروزہ رکھنا اور دسویں محرم کو اپنے اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنا)شبِ براء َت(پندرھویں شعبان)رمضان کے روزے ،لیلۃ القدر (رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں)،لیلۃ الجائزۃ(شبِ عید)،یومِ عرفہ(نویں ذوالحج) کا روزہ،عیدین (عید الفطر، عیدالاضحیٰ) تکبیراتِ تشریق(9ذوالحج نماز فجر تا 13 ذوالحج نماز عصر) ،قربانی(دس، گیارہ اور بارہ ذوالحج)،ایامِ بیض کے روزے (ہر قمری ماہ کے تین دن: 15،14،13 )،روزہ توڑنے کا کفارہ(مسلسل بلا تعطل دو قمری ماہ کے روزے)،زکوٰۃ (ایک قمری سال)،اشہر حُرم (تقدس و حرمت والے چار مہینے رجب،ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم )،مدتِ رَضاعت(دو قمری سال)،وہ طلاق یافتہ جو حاملہ نہ ہو،حیض بھی نہ آتا ہو اس کی عدت (تین قمری ماہ )،وہ غیر حاملہ خاتون جس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت( چار ماہ دس دن )
نوٹ: عدت اگر کسی قمری مہینے کی یکم کو شروع ہوتی ہے تو پھر اس کا حساب مہینوں سے لگایا جائے گا ورنہ پھر گنتی کو پورا کیا جائے گا۔ جو مطلقہ مذکورہ کے لیے 90 دن جبکہ دوسری عورت جس کا خاوند فوت ہو جائے اس کے لیے 130 کی گنتی کو پورا کیا جائے گا۔
ستارے آسمان کے لیے باعث زینت:
مفہوم آیت: بے شک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی خوبصورتی سے مزین کیا۔ (سورۃ الصافات، رقم الآیۃ: 6)
ستاروں کے تین بنیادی مقاصد:
حضرت قتادہ رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو تین بنیادی مقاصد کے لیے تخلیق فرمایا ہے:آسمان کی خوبصورتی کے لیے،سرکش شیاطین کو مار بھگانے کے لیے اور راستے معلوم کرنے کے لیے۔ جو شخص ان تین مقاصد کے علاوہ ستاروں کے بارے میں ان سے ہٹ کر نظریہ رکھے تو وہ اس بارے میں غلطی پر ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے ایک حصے کو اس میں ضائع کر دیا ہے اور ان باتو ں میں بھٹکتا رہا جس کا اس کو کچھ بھی علم نہیں۔(صحیح البخاری، باب فی النجوم)
ستارے سرکش شیاطین کو مارے جاتے ہیں:
مفہوم آیت: (ان ستاروں کو )ہر سرکش شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بنایا۔وہ اوپر کے جہان کی باتیں نہیں سن سکتے اور ان پر ہر طرف (جس طرف سے بھی جانے کی کوشش کرتے ہیں)سے مار پڑتی ہے، انہیں دھکے دیے جاتے ہیں اور ان کو آخرت میں دائمی عذاب ہوگا۔ ہاں اگر کوئی شیطان اوپر کے جہان کی کوئی بات سن بھی لے توایک دہکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ کر بھسم کر دیتا ہے۔(سورۃ الصافات، رقم الآیۃ: 7تا 10)
ستاروں کو دیکھ کر راستہ( سمت)معلوم کرنا:
مفہوم آیت: اور راستوں کی پہچان کے لیے بہت سی علامات بنائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راستے سمت معلوم کرتے ہیں۔ (سورۃ النحل، رقم الآیۃ:16)
بداعتقادی پر مبنی چند معاشرتی جہالتیں:
معاشرے میں چند ایسی جہالتیں رائج ہیں جو سراسر ایمان کی کمزوری اور بداعتقادی پر مبنی ہیں۔ ان سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
علمِ کہانت/ عِرَافَۃ:
حضرت معاویہ بن الحکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہم جاہلیت(قبل از اسلام)کے زمانے میں کیاکرتے تھے۔ ایک یہ بھی ہے کہ ہم کاہنوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 4133)
کاہنوں کی باتوں کی حقیقت:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بعض اوقات کاہن ایسی باتیں بتاتے ہیں جو درست ثابت ہو جاتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ درست بات جنوں کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ کاہن کے کانوں میں ڈالتے ہیں اور وہ کاہن اس میں سو(بکثرت)جھوٹ ملا لیتے ہیں۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 4134)
فائدہ: سرکش جنات جن لوگوں کوفرشتوں سے سنی ہوئی بعض باتیں بتلاتے ہیں انہیں’’کاہن‘‘ کہا جاتا ہے۔جس کا یہی پیشہ ہو کہ جنات سے سنی ہوئی باتوں کو لوگوں میں غیب دانی کے دعویٰ کے ساتھ پیش کرے اسے ’’کہانت‘‘ کہتے ہیں۔
عَرَّاف(نجومی)کے پاس جانے والے کی نماز قبول نہیں:
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بعض ازواج مطہرات کے حوالے سے نقل کرتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عراف)نجومی(کے پاس آیا تاکہ اس سے اپنے حالات معلوم کرے تو ایسے بندے کی نماز چالیس دنوں تک قبول نہیں ہوتی۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 4137)
کاہن کے پاس جانے والے کا شرعی حکم:
کاہن کے پاس جانااور اس کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتقاد رکھنا حرام ہے۔ البتہ کاہن کے پاس محض اس لیے جانا کہ اس کا مکر و فریب، اس کی گمراہی اور اس کے طریقہ واردات کی مکمل معلومات حاصل کر کے لوگوں کو اس سے گمراہی سے مطلع کرے تو اس کی گنجائش ہے۔ لیکن یہ کام صرف وہ لوگ کریں جو مضبوط اعتقاد رکھتے ہوں۔ ضُعف الاعتقادی کے شکار بے چارے عوام اس غرض کے لیے بھی کاہن کے پاس نہ جائیں کہیں یہ خود ہی ان کے فریب کا شکار نہ ہو جائیں۔
بدفالی:
حضرت معاویہ بن الحکم سُلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم بدفالی بھی لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدفالی محض تمہارے دل کا ایک وسوسہ ہے تم اس کے پیچھے نہ پڑو۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 4133)
بدفالی کا حکم:
بدفالی لینا جائز نہیں ہے۔
فائدہ: نیک فالی کی شریعت میں اجازت ہے۔
قرآنی فال:
بعض لوگ قرآن کریم سے فال نکالتے ہیں اور طریقہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ قرآن کریم کا کوئی بھی صفحہ کھولتے ہیں اور سب سے پہلے لفظ کا ترجمہ سے اپنے کام کے کرنییا نہ کرنے، صحیح یا غلط ،جائز یا ناجائز ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔
قرآنی فال کا حکم:
قرآن کریم کواس مقصد میں استعمال کرنا اور اس طریقے کو انسانی زندگی کے واقعات و حالات میں معتبر ماننا خود قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔
نوٹ: آج کل قرآن کریم کے بعض ناشرین قرآنی فالنامہ کے نام سے قرآن کریم کے ابتدائی یاآخری صفحات میں چند اشارات، فال نکالنے اور فال سمجھنے کا طریقہ بھی شائع کر رہے ہیں۔ ان کا یہ اقدام کسی صورت جائز نہیں۔
علم رمل:
ایک صفحے وغیرہ پر چند خانوں کا ایک زائچہ بنا یا جاتا ہے جس کے ذریعے مستقبل میں آنے والے حالات و واقعات کے متعلق پیشن گوئیاں کی جاتی ہیں اور رَمَّال(علم رمل کے ماہرین)اس بارے غیب دانی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
علم رمل کا حکم :
مذکورہ تعریف کے مطابق علم رمل حرام ہے۔
علم جفر:
مطابق چاند کی 28 منزلوں کے مطابق عربی زبان کے حروف تہجی میں ہر ہر حرف کو ایک ایک منزل کے لیے مقرر کیا گیا اور پھر ہر حرف کی تاثیر متعین کی گئی ہے اور اسے انسانی قسمت پر اثر انداز مانا گیا ہے۔
علم جفر کا حکم:
اس علم کے نتائج کو قطعی ماننا اوراس پر اعتقاد رکھناحرام ہے۔
دست شناس / پامسٹ:
ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ کر خوشی و غمی، شادی، موت، اولاد، نوکری، ملازمت، کاروبار وغیرہ کی اطلاع دی جاتی ہے۔
دست شناسی کا حکم:
اس علم کے نتائج کو قطعی ماننا اوراس پر اعتقاد رکھناحرام ہے۔
پتھر پہننا:
بعض لوگ پتھروں میں ایسی تاثیر مانتے ہیں کہ انسانی زندگی میں خوشی غمی، دکھ سکھ وغیرہ میں اسے ذاتی طور پر موثر مانتے ہیں۔
پتھر پہننے کا حکم:
مذکورہ اعتقاد کے مطابق پتھر پہننا حرام ہے۔
جنتری:
بعض لوگ ایسی مخصوص جنتریوں سے بھی اپنے حالات و واقعات کی آگاہی کی کوشش کرتے ہیں جن میں ستاروں اور برجوں کی مدد سے سال کے اندر ہونے والے اہم اہم واقعات اور حادثات کے متعلق پیشن گوئیاں درج ہوتی ہیں۔ پھر ان پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
جنتری کا حکم:
جنتری میں درج باتوں کو قطعی ماننا اور اس پر اعتقاد رکھناحرام ہے۔
برجوں کی دنیا:
بعض لوگ تاریخ پیدائش یا نام کے پہلے حرف کو درج ذیل بارہ برجوں میں سے کسی سے ملاتے ہیں اور اسی کے مطابق حالات و واقعات کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ حمل،ثور،جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی،دلو، حوت،اس کو مختلف ناموں سے رواج دیا جاتا ہے ۔ مثلا آپ کا دن کیسے گزرے گا ؟ آپ کا ہفتہ کیسے گزرے گا ؟ ستارے کیا کہتے ہیں ؟ وغیرہ
برجوں سے وابستہ مذکورہ نظریے کا حکم :
اس علم کے نتائج کا قطعی ماننا اور ان پر اعتقاد رکھنا حرام ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل کرنے اور توہمات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں