صحرائے کے ریگزاروں کا ایک انمول نگینہ 224

میانوالی ادب کا ایک روشن ستارہ

میانوالی ادب کا ایک روشن ستارہ

تحریر شہزادافق
میانوالی صوبہ پنجاب (سرائیکی وسیب)کاایک ضلع ہے،اوراس کامرکزی شہربھی میانوالی ہے،اور میانوالی کی آبادی تقریبا 10,56,620ہوگی یا پھر ا س وقت تجاور کرچکی ہو۔ضلع میانوالی میں عمومی طور پر سرائیکی ،اردو ،پنجابی وغیرہ بولی جاتی ہے۔اس کا رقبہ 5840مربع کلو میٹر ہے۔میانوالی سطح سمندر سے اوسط بلندی 210میٹر(668.98فٹ )ہے۔ضلع میانوالی کی تین تحصلیں ہیں جن میں عیسی خیل ،پپلاںاورتحصیل میانوالی شامل ہیں۔میانوالی کی سرزمین بہادر، دلیر ،نڈر لوگوں کی زمین ہے۔یہاں پر ہوائی اڈہ بھی موجود ہیںاوریہاں کے بہادر لوگوں کی کثیر تعداد افواج پاکستان میں شمولیت اختیار کرتی ہے۔ یہاں کے لوگ محب وطن لوگ ہیں۔میانوالی کی سرزمین ادبی لحاظ سے بڑی زرخیز ہے

اس سرزمین سے اہل قلم کی بہت بڑی تعداد وابسطہ ہے ۔پاکستان کا نام روشن کرنے والے ان گنت روشن ستاروںکاتعلق میانوالی سے ہے۔میانوالی ادب میں ان عظیم ہستیوں کانام آتا ہے جن کے فن نے پاکستان کو دنیا بھر میں عزت بخشی ۔ضلع میانوالی کی مشہور ا دبی ،سماجی وسیاسی شخصیات کااگرذکرکیاجائے ،توان میں مولانا کوثر نیازی(سابق وفاقی وزیر)خواجہ خورشید انور (فلمساڑ،رائٹر)،ملک امیر محمدخان نواب آف کالا باغ (سابق گورنر مغربی پاکستان) ،شیرفگن نیازی (سابق وزیرقانون)،طارق نیازی (اولمپنگ گولڈ میڈلسٹ)مصباح الحق ،شاداب خان کرکٹ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ عمران خان نیازی ،بانی شوکت خانم ،نمل یونیوسٹی اوروزیراعظم پاکستان کاتعلق کابھی تعلق میانوالی کی سرزمین سے ہے

اورادبی فن سے مالامال عطاء اللہ خان عیسی خیلوی صدارتی ایوارڈ یافتہ موسیقار،گلوکار لالہ جی،شفااللہ خان روکھڑی،ذیشان روکھڑی،شرافت علی،یاسرخان موسی خیلوی،عطاء محمدخان داؤد خیلوی،امیرنوازپائی خیل،عمران خان پائی خیل،ایوب نیازی ،سلیم بسمل اپنی آواز سے دنیا کو متاثر کرنے والے فن کاروں کے نام اس کے علاوہ اپنی قلم کی خوشبو سے ادب کورونق بخشنے والے قلمی خدمات سے ادب کاالم بلند کرنے والے عظیم دانشور، شاعرتلوک چند جگن ناتھ آزاد،نصیرشاہ ،بابافاروق روکھڑی (مرحوم) محمدمحمود احمد (مرحوم)فیروزشاہ ،کوثرنیازی،اجمل نیازی،منور علی ملک ،گلزاربخاری،مظہرنیازی ،منصورآفاق ،افضل عاجز،اکرام زاہد،سلیم شہزاد، صابربھریوں ،قیصرشاہ،سخی خان،

نذیریاد،ضیاء قریشی،بے چین فاروق آبادی،امان اللہ خان،محترمہ بلقیس صاحبہ درد،ظہیراحمدخان مہاروی،سیدنسیم بخاری،شاکرخان،عرشم نیازی،خالدندیم شانی، مسرور جا وید، مریداقبال انصاری ،محمد رضوان او ر اقبال شاہ سمیت دیگر لوگ ہیں جن کی ادبی خدمات قابل فخر،قابل دید اور قابل تعریف ہے ،ادبی خدمات اور جہاد قلم میں ایک نام ایسا بھی موجود ہے جومیا نوالی ادب کا ایک روشن ستارہ ہے جس کا نام صائم جی ہے۔صائم جی کااصل نام عطاء محمد ولد شیر محمد ہے ،جہاد قلم میں ان کی معروفیت صائم جی کے نام سے ہے ۔صائم جی نے ابتدائی تعلیم سے لے کرمیڑک تک کی تعلیم موسی خیل سے حاصل کی،اور پھر D.COMکامرس کالج میانوالی سے ، اور بیچلر کی ڈگری علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے مکمل کی ۔صائم جی کی کتاب ”بہرکیف” 2020ء میں اشاعت ہوئی مگر صائم جی کاادب سے لگاؤآٹھویں جماعت سے تھا ۔اسکول میں ادبی سرگرمیوں صائم جی بڑھ چڑھ کر حصے لیتے اور داد وصول کرتے، اوراپنے اساتذہ کرام کے نزدیک ایک خاص اہمیت کے حامل تھے۔
اسی شوق نے وقت کے ساتھ ساتھ صائم جی کو لفظوں سے کھیلنا سکھا دیا،ہرانسان کو ادب میں کسی رہنما کی ضرورت ہوتی جو اسے اس قابل بنائے کہ وہ اپنے حقیقی مقام تک پہنچ پائے ۔صائم جی کو بھی ادبی منزل تک پہنچنے کے لئے کسی رہنماکی ضرورت تھی۔ جو اسے اس منزل تک پہنچنے میں معاونت کرے اور ان کے اندر چھپی ان صلاحیتوں کو پرکھے اور انہیں نکھارنے میں اپنا کردار دا کرے ۔صائم جی اس مسافت اپنا رہنماایک ایسی شخصیت کوچناجن کوادبی حلقوں میں کسی پہچان کرانے کی ضرورت نہیں ۔اس شخیصت کانام ادبی دنیا میں احترام سے لیا جاتا ہے ،

جن کی ادبی خدمات پاکستانی قوم کے لئے فخر کی بات ہے۔صائم جی نے بابا ئے تھل فاروق روکھڑی صاحب(مرحوم)،(صدارتی ایوارڈیافتہ) کواپنی ادبی رہنما ئی کیلئے چنا اورانکی دست شفقت سے آج ایک ایسے مقام پر ہیں کہ ادبی حلقوں میں اپنا ایک نمایا مقام رکھتے ہیں۔ان کی کتاب ”بہرکیف” کی کی بات کی جائے ،تو اس کتاب میں صائم جی نے سادگی ،شائستگی سے لفظوں کو اس طرح پرویا اوراپنا انداں بیاں اس قدرخوبصورتی سے ادا کیا ،کہ پڑھنے والوںپرسحرطاری ہوجائے ،اللہ پاک نے ہر اس خوبی سے نواز ا ،جو ایک اہل قلم ،شاعر میں ہونا ضروری اور لازم سمجھا جاتا ہے۔صائم جی نے اپنی ادبی کاوش ”بہرکیف”سے اپنی حلاحیتوں کو منوایاہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے حرف حرف دل میں گھرکر جاتاہے۔ صائم جی کا تخیل حقیقت سے اس قدر قربت میں ہے ۔کہ ہرشعر کو رونق بخش رہا ہے ۔
زیست کا ساز ہی مصیبت ہے
یعنی یہ راز یہی مصیبت ہے

کیسے انجام پہ نظر رکھوں
میرا آغاز ہی مصیبت ہے
حقیقت تو ہے کہ صائم جی ایک ارفع خیالات کے مالک ہیں۔اپنے عمدہ خیالات کی معراج سے اپنے الفاظ کو جادوبخشا ہے۔ان کے خیالات کو رب کائنات نے وہ کمال(اوج ) بخشا ہے۔ان کی کتاب میںموجودحمد،نعت اور غزل اس قدر سادہ وآسان الفاظ میں پیش کیا ہے ۔کہ ہرعام وخاص اسے باآسانی سے تخیل ِ صائم جی کو سمجھ سکتا ہے ۔
نظرمیں سورج اچھالتا ہے
وہی خدا جو اجالتا ہے

علیم رب ہے خبیر رب ہے
میری غزل کو خیالتا ہے
صائم جی کی شاعری میں فکر، دانش کے ہرجز کا عکس نظر آتا ہے۔صائم جی فن لطیف سے مالا مال شاعر ہیں۔خداداد صلاحیتوں سے ان کی شاعری میںدلکشی کے قرینے نظرافروز جھلکتے ہیں۔ان کی حمد میں واحدانیت ،اورایمان کامل کی مہک ہے ۔ان کی نعت پڑھتے ایک عجب سا
سحر طاری ہوجاتاہے۔تاریخ کربلا کی جس طرح منظر کشی کی ہے،وہ درد ناک نظارے آنکھوں کے سامنے حقیقت کا روپ دھارے عیاں ہوجاتے ہوں جیسے دل صدمات سے، خون کے آنسورونے لگ جاتا ہو۔
اسلام زندہ باد سہارے حسین ؓ کے
چھوٹے بڑے نثار ہمارے حسینؓ کے

جب تک رہے گا دہر ،یہ ایمان ہے مرا
صائم رہیں گے چرچے ہمارے حسینؓ کے
حقیقت تو یہ ہے ”بہرکیف”پڑھنے سے یوں محسوس ہوتاہے کہ یہ سارے الفاظ ہماری کہانی سے منسلک ہیں۔محبت ،عشق ،جدائی ،وفا ،حقیقت ،معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کا مطالعہ کیا گیا ہو زندگی کے نشیب وفرازکی مکمل داستان ہے اس میں ۔اورسنجیدگی کے دائرہ کار میں علمی بصیرت سے یہ کتاب لکھی گئی ہے۔جس کے حرف حرف سے ادبی خوشبومہک رہی ہے۔المختصر صائم جی ،میانوالی اد ب کا ایک روشن ستارہ ہے۔۔
(انٹرنیشنل رائٹرزفورم پاکستان ،بانی وسربراہ،شہزادافق)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں