“سیاست میں یو ٹرن”
،اکرم عامر سرگودھا
عوام میں بے چینی اورافراتفری کی سی کیفیت ہے،اور قوم کا ہر طبقہ احتجاج ،احتجاج،کرتا دکھائی دے رہاہے،اپوزیشن ملک کے کپتان عمران خان اور اس کی کابینہ کے کھلاڑیوں پر خوب برس رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ وہ سلیکٹڈ،دھاندلی زدہ ہونے کے ساتھ ہر بات پر یوٹرن لینے کے ماہر ہیں، اپوزیشن آئے روز احتجاج ،جلسے، جلوس،اور ریلیاں،نکال کر اپنے ردعمل کا اسی طرح اظہار کررہی ہے جس طرح 2014 کے شروع سے 2018 کی پہلی سہ ماہی تک کپتان مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف کرتے رہے ہیں، اپوزیشن کی یوٹرن لینے کی بات کچھ اس طرح بھی درست لگنے لگی ہے کہ کپتان نے نوجوانوں کیلئے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور بے گھر افراد کیلئے پچاس لاکھ گھر بنانے کا کہہ کریوٹرن لے لیا ہے،
یہی نہیں کپتان نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو باور کرایا تھاکہ وہ اقتدارمیں آئے تو نہ صرف ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے بلکہ ملک کیلئے مزید قرضہ نہیں لیں گے اور پہلے سے لئے گئے قرضے اتار کر ملک اور عوام کو قرض کے بوجھ سے نجات دلائیں گے، کپتان نے اقتدار سے پہلے سرکاری ملازمین، زمینداروں، تاجروں، صنعتکاروں سمیت ہر طبقہ کے لئے طرح طرح کے اعلانات کئے تھے یہی وجہ ہے کہ عوام نے پی ٹی آئی جو 2013 کے انتخابات میں چوتھی پوزیشن پر تھی کو2018 کے انتخابات میں عددی برتری دلائی تو پی ٹی آئی اقتدار میں آئی،
اب کپتان کی حکومت کا نصف دورانیہ گزرنے کو ہے، نہ تو پچاس لاکھ گھر بنانے کے منصوبے پر عمل شروع ہوا،اور نہ ہی پڑھی لکھی نوجوان نسل کے لئے ایک کروڑ نوکریاں، کپتان کشکول لئے ملک ملک قرضہ کی بھیک مانگتے نظر آ رہے ہیں اور عوام کے تاثر دیا جا رہا ہے کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا،جبکہ مہنگی بجلی اور گیس کے بحران کے باعث ملک میں صنعت کا پہیہ جام ہوچکاہے،کھاد بیج مہنگا ہونے سے زمیندار طبقہ پس کررہ گیا ہے،تاجر طبقہ ٹیکسوں کی بھرمار تلے دب چکا ہے،ملک میں اعلیٰ بیوروکریسی سے درجہ چہارم تک کے ملازمین سب سراپا احتجاج نظر آر ہے ہیں،کروڑوں نوکریاں دینے کا ببانگ دہل اعلان کرنے والی حکومت نے الٹا پاکستان سٹیل مل،
پاکستان ریڈیو، سمیت کئی اداروں سے ہزاروں کنٹریکٹ ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کردیا ہے۔دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز،اساتذہ،لیڈی ہیلتھ ورکر سمیت دیگر محکمہ جات کے کنٹریکٹ ملازمین آئے روز اسلام آباد میں احتجاج کرکے حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں ملازمتوں پر مستقل کیاجائے، ملک بھر کے محکمہ جات کے کلیریکل سٹاف کی تنظیم (ایپکا) نے تو چارٹر آف ڈیمانڈ منظور نہ ہونے کی صورت میں احتجاج اور دھرنا دینے کا اعلان کر دیا ہے ، جبکہ ریڈیو پاکستان اور سٹیل مل سمیت دیگر اداروں کے برطرف کئے گئے ملازمین حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں
کہ انہیں بحال کیا جائے، کپتان اور اس کے کھلاڑی ماضی کی حکومتوں کی طرح ہر احتجاجی طبقے کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں کہ وہ اطمینان رکھیں، مشکل دن گزر چکے ہیں اب ملک میں ترقی کی گاڑی تیزی سے رواں دواں ہے، جلد پوری قوم کے مسائل حل ہو جائیں گے اور پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا، بے روز گاری کا خاتمہ ہوگا، اور کوئی غریب، غریب نہیں رہے گا، اس طرح کپتان اور اس کے کھلاڑی گاہے بگاہے یوٹرن لے کر حکومت کی گاڑی کو رواں دواں رکھے ہوئے وقت گزار رہے ہیں۔کپتان اور اس کی ٹیم حکومت گرانے کے لئے کوشاں اپوزیشن کا بھی ہر مقام پر نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو کاری ضرب لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی،
حکومت اپنے مخالفین کے پرانے کھاتے کھول کر ان کا حساب و احتساب خوب کر رہی ہے، دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بار بار یوٹرن لینے پر مجبور ہیں،ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب اپوزیشن نے اپنے ارکان اسمبلیوں کے استعفے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے دینے کے ساتھ سینٹ اور ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے اور 31 جنوری تک کپتان کی حکومت کے استعفے نہ دینے کی صورت میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا بڑا اعلان کیا تھا، جس پر عوام بالخصوص جیالے اور متوالے کہنے لگے تھے
کہ کپتان کی حکومت گئی کہ گئی۔ مگر ایسا تو نہ ہوسکا اپوزیشن کو بھی کپتان کی طرح اپنے ہر اعلان پر یوٹرن لینا پڑا۔ پہلے اپوزیشن میں شامل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرکے اوراب سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرکے یوٹرن لیا ہے، چونکہ اپوزیشن میں دراڑ پڑ چکی ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جو کہ ماضی میں ایک دوسرے کی حریف تھیں، اور پی ٹی آئی کی حکومت بننے پر با امر مجبوری اتحادی بنیں ہیں اب بھی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کررہیں، جس کی مثال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپوزیشن جماعتوں
کے استعفے اکٹھے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے دینے کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کردی، پھر ضمنی اور سنیٹ الیکشن کے بائیکاٹ کا شور اٹھا تو بلاول بھٹو نے اس کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اعلانیہ کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک میں ہونے والے کسی بھی الیکشن خواہ وہ ضمنی ہوں یا سینٹ میں بھرپور حصہ لے گی، اور حکومت کے لئے کوئی بھی میدان کھلا نہیں چھوڑے گی، جس پر مسلم لیگ ن کو بھی یوٹرن لینا پڑا اور مریم نواز شریف نے بھی اعلان کیاکہ ان کی جماعت ضمنی الیکشن کے ساتھ سینٹ الیکشن میں حصہ لے گی۔
پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے اب بڑھک ماری ہے کہ وہ اپوزیشن سے مل کر سندھ کو چھوڑ کردیگر صوبوں کے وزراء اعلی،قومی وصوبائی اسمبلیوں کے
سپیکرز،ڈپٹی سپیکرز کے خلاف ایوان میں عدم اعتماد لائیں گے۔ جس پر مسلم لیگ ن نے بلاول بھٹو کو باور کرایا ہے کہ وہ یہ تجویز پی ڈی ایم کے مشترکہ اجلاس میں لائیں تو غور کریں گے ساتھ یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ(بلاول بھٹو) ان ایوانوں میں عدم اعتماد لانے کے لئے ارکان قومی و صوبائی اسمبلیز کی اکثریت ثابت کریں، اسطرح مسلم لیگ ن کی قیادت نے بلاول کی عدم اعتماد کی تحریک لانے کی رائے کو دبے لفظوں میں رد کردیا ہے سیاسی زرائع کہتے ہیں کہ بلاول کو عدم اعتماد کی تحریک کے بیانیہ پر یوٹرن لینا پڑے گا کیونکہ بلاول بشمول اپوزیشن جماعتیں بظاہر اس پوزیشن میں نہیں کہ وفاق یا ان صوبوں جن میں پی ٹی آئی یا اس کی اتحادی حکومت ہے، میں عدم اعتماد لاسکیں، کیونکہ اپوزیشن کی
بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن میں واضح فارورڈ بلاک بن چکا ہے، اس طرح پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کے لئے بھی مشکلات بڑھتی نظر آرہی ہیں کیونکہ ان کے دیرینہ جید اور نمایاں ساتھیوں نے مولانا کے خلاف اعلان بغاوت کررکھاہے اور مولانا شیرانی کی سربراہی میں جمعیت علمائے اسلام الگ سے وجود میں آکر روز بروز مستحکم ہورہی ہے، جبکہ کپتان اور اس کے کھلاڑی اپوزیشن کی دی گئی ڈیڈ لائن تک استعفیٰ دیتے نظر نہیں آرہے، اس صورت میںپی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے اعلان کے مطابق فروری کے پہلے ہفتہ میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، جو موجودہ صورت حال میں ان کے لئے مشکل نظر آرہا ہے، اپوزیشن اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کر پا رہیں کیونکہ ماضی میں دونوں کی قیادت ایک دوسرے کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنا چکی ہے اور جیالوں اور متوالوں میں بھی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے، موجودہ سیاسی اتحاد کے باوجود دونوں جماعتوں کے کارکنوں کی اکثریت ایک دوسرے کو قبول نہیں کررہی، جس کا نتیجہ ان جماعتوں کی قیادت نے حالیہ احتجاجی تحریک کے دوران مختلف شہروں میں ہونے والے جلسوں، ریلیوں میں بھی دیکھ لیا جن میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے کارکن نمایاں دیکھنے میں آئے اور اکثر جلسوں کے سٹیجوں پر بھی وہ (مولانا کے سپاہی) ہی چھائے رہے، سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے (عورت کی حکمرانی )یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو کی
حکومت کو غیر شرعی قرار دیا تھا، اور اب پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمان سے وہ بدلہ چکانے جارہی ہے اور قوی امکان ہے کہ پیپلز پارٹی لانگ مارچ میں شرکت نہیں کرے گی؟ اس طرح پی ڈی ایم سربراہ کو لانگ مارچ پر بھی یوٹرن لینا پڑسکتا ہے، یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ حکومت میں شامل پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم ،اور اپوزیشن میں شامل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اور ان کی اتحادی دیگر جماعتوں کے قائدین ماضی میں کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے بارے سخت الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں، لیکن بے رحم سیاست مفادات کے لئے کی جاتی ہے، اس لئے حکومت اور اپوزیشن کے ان قائدین میں جز وقتی اتحاد ہوئے، جوں ہی جس جماعت کے قائدین کو اپنا مفاد نظر آیا وہ قلابازی مار کر دوسری منڈیر پر جابیٹھے گی، تاہم سردست حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی کھیل جاری ہے اور دونوں آپس میں خوب گتھم گتھا ہیں آنے والے وقت میں کون کس کو ناک آؤٹ کرتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔