میر ؔسے معظمہؔ تک کاسفر
تحریر : شہزادافق
کسی بھی علاقہ کی کی پہچان اس علاقہ کے ادباء سے ہی ہوتی ہے ۔جہاد قلم میں ان کا کردار ہمیشہ سنہری الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔اور تاریخ کی اگر ورق گردانی کی جائے، تو یہ بات ایک اٹل حقیقت کی طرح عیاں ہو جاتی ہے، کہ ادباء مرنے کے بعد بھی زندوں قوموں کے دل میں زندہ رہتے ہیں۔ جو قوم اپنے ادباء کو فراموش کردیتی ہے تاریخ اس قوم کوفراموش کردیتی ہے۔ادباء نے ہمیشہ جہاد قلم سے اپنا فرض اداکیا ،اور اپنی قوم و ملت میں شعور بیدارکرنے میںاہم کردار ادا کیا ہے۔ اور جہاد قلم سے انہیں ان کے حقوق سے آشناکیا۔ اگرتاریخ پاکستان کا مطالعہ کیے جائے، تو اہل قلم سے بڑھ کر شاید کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔ادیب خود توچراغ کی مانند جلتا ہے، مگر قوم وملت کو شعور کا اجالابخشتا ہے۔
ڈی جی خان (سرائیکی خطہ) کے ادبا ء کی اگر بات کی جائے تو ان میں شہید محسن نقوی،سعید احمد راشد، احسان نقوی،حسین گوہر،شاہان نقوی، فرحت عباس شاہ،معظمہ نقوی، غیورنقوی، فرید قیصر،احمدخان طارق عشرت لغاری،ماسٹراعجاز ڈیروی، جاوید احسن پٹھان،منصوراصغرچنگوانی،ڈاکٹرممتاز حسین جوئیہ،غلام فرید سراجانی،غلام رسول ڈڈا مرحوم،ذکااللہ انجم ملغانی، نواز جاوید،رشیدخان جتوئی،سید زمردحسین شاہ مرحوم، غلام اکبر بزدار، منظورحسین مشکور،ساقی سیمونی، فرخ عدیل،فضل گیلانی نجمہ شاہین کھوسہ،ایمان قیصرانی، حسن علوی،رامز ہاشمی، شبیرناقد صباحت عروج،عدنان محسن اوباسط علی باسل سمیت ان گنت ادبی ستارے موجود ہیں۔ان میں ایک نام معظمہ نقوی کا آتا ہے۔
جن کو کسی بھی تعارف کی ضرورت نہیں۔ان کے تعارف کے لیے ان کا نام ہی کافی ہے۔ معظمہ نقوی کا تعلق ایک عظیم گھرانے سے ہے۔جن کی ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔معظمہ نقوی کاتعلق ضلع ڈی جی خان سے ہے اگر ان کی نجی زندگی کے بارے دیکھا جائے، تو انہوں نے ابتدائی تعلیم سکول نمبر 1 ڈی جی خان،چھٹی سے لیکر میٹرک تک ہائی سکول ملا قائد شاہ۔انٹرسے گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین ڈی جی خان اور ایم اے کی تعلیم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے مکمل کی ، ان کا ادب سے بہت گہرا تعلق ہے۔ان کے کالم تحریریں اور کتابوں پر تبصرے آئے روز پڑھنے کو ملتے ہیں۔کسی نہ کسی ادیب کی کتاب پران کا تبصرہ لازم پڑھنے کو ملتاہے۔اور ان تحریروںاور
تبصروںمیں مجھ جیسے ایک عام انسان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ان کی ہر تحریروں جاندار اور دلکش ہوتی ہے الفاظ کا چناؤ اور تسلسل اس قدر خوبصورت انداز میں ہوتا ہے کہ قلم کی تاثیر پڑھنے والوں پراپنے اثرات لازم چھوڑتی ہے۔ادب سے وابستگی اور والہانہ عشق کا ثبوت انتخاب سے ان کی ایک کتاب کی”کف دست” کے نام سے2019 اشاعت ہوئی ،یہ کتاب ایک ادبی گلدستہ ہے جس میں رنگ پرنگے پھول سجے ہیں ان کی خوشبو سے ادب کی دنیا مہک جاتی ہے۔اس کتاب کی اشاعت کے مقاصد سے اہل قلم کے لیے ایک ہی پیغام ملتا ہے ”دیارعشق میں اپنا مقام پیدا کر”اگر ادبی ذوق کی بات کی جائے تو معظمہ نقوی صاحبہ کی جد میں مسرت موہانی،جون ایلیاء ،ناصرکاظمی اور شفقت کاظمی کا
نامسرفہرست آتا ہے اور سب سے حیرت اور خوشی کی بات یہ ہے کہ معظمہ نقوی صاحبہ کو شفقت کاظمی کی نواسی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔اور شفقت کاظمی صاحب کا نام ادبی حلقوں میں نہایت ادب اوراحترام سے لیا جاتا ہے۔ معظمہ نقوی صاحبہ کو ادب سے لگاؤ بچپن سے ہی تھا وہ ہرجگہ شعر لکھاکرتی تھی۔اور سب سے زیادہ جس شعر کو لکھا اور متاثر ہوئی۔عمراتنی تو عطاء کر میرے فن کو خالق میرادشمن بھی میرے مرنے کی خبر کو ترسےمحسن نقوی شہید
اس شعرنے معظمہ نقوی صاحبہ کو ادب سے متعارف کرایا اوریہ سلسلہ ”کف دست” کی صورت میں ہم تک پہنچاکف دست لکھنے کے مقاصد میں کتاب سے دوستی،رغبت اورادب سے والہانہ عشق اور جنون کا نتیجہ ہے جہاد قلم کے ذریعے یہ ادبی کاوش ”کف دست”کا گلدستہ ہم تک پہنچا ہے۔اس کتاب میں پاکستان کے نامور معروف اور عظیم لوگوں کا کلام شامل ہے جن میںمیرتقی میرؔ،مرزااسداللہ غالبؔ،حکیم مومن خان مومنؔ،بہادرشاہ ظفرؔ،مولانا حسرت موہانی،ڈاکٹرعلامہ محمداقبالؔ،ساحرؔلدھیانوی،قتیلؔ شفائی،ابن انشائؔ،احسان دانشؔ،ناصرکاظمیؔ،فیض احمدفیض ؔ،احمدندیم قاسمیؔ،احمدفرازؔ،محسن نقوی ؔ،پروین شاکر ؔ،خالدشریفؔ،ڈاکٹرحسن رضویؔ ،ساغرصدیقیؔ،سیف الدین سیفؔ،بشیربدرـؔ
،افتخارعارفؔ،مصطفیؔ زیدی،امجداسلام امجدؔ،عدیم ہاشمیؔ،عرش صدیقیؔ،صابرظفرؔ،سعیدواثقؔ، شاہدہؔحسن،نوشی گیلانیؔ،فاخرہبتولؔ،ناصرعدیلــؔ،نجیبؔاحمد،جمالؔاحسانی،کشور ؔناہید،حسن ؔنثار،اعتبارؔساجد،علیؔارمان،سلیم کوثرؔ،احمدضیائؔ،
باقیؔاحمدپوری،ناصرؔزیدی،سلیمؔاحمد،عبیداللہ علیمہؔ،یعقوب ؔانجم،نذیراحمدعارف صدیقیـؔ،نجم الثاقبؔ،فائزہ ندیم فزائؔ،فرحتؔ عباس شاہ،
منان قدیرمنانؔ،سعدؔاللہ شاہ،اخترؔملک،وصیؔ شاہ،خارویؔ،محبوبؔربانی،ارشدملکؔ،جاویدؔگل گشکوری،سرورؔارمان،ابرارؔالحق، ڈاکٹرابرارؔعمر،ڈاکٹرشاہینؔ ڈیروی،فائق ِترابی کا کلام شامل ہے ، معظمہ نقوی صاحبہ کی یہ ایک بہت بڑی کاوش ہے ، اس قدر دلچسپ اور ادبی ذوق رکھنے والوں کے لئے تو یہ ایک انمول تحفہ ہے ۔معظمہ نقوی صاحبہ کا انتخاب” کف دست”قابل فخر اورناقابل فراموش کارنامہ ہے ان کی اس کاوش کو جتنا سراہا جائے اتنا ہی کم ہے ۔معظمہ نقوی صاحبہ جیسے عظیم ارادوں کے مالک اورادب سے اتنا لگاؤرکھنے والے عظیم انسانوں کی وجہ سے آج ادب زندہ ہے۔
تیری آنکھوں کا جب اشارہ ملا
مری کشتیوں کو کنارہ ملا
وہ ایک شخص ہم سے جدا ہوگیا
وہ ایک شخص جوسب سے پیارا ملا
مری روح تک وہ اتر ساگیا
میری زندگی کوسہارا ملا
مری ہرخواہش اس پر قربان ہے
خوشی یہ ،مجھے غم تمہارا ملا
ملنے کے سبھی راستے بند ہیں
وہ نقویؔ۔۔! نہ مجھ کو دوبارہ ملا
معظمہ نقوی صاحبہ کے ڈھیرساری دعائیں اس طرح ادبی خدمات میں اپنا فرض ادا کرتی رہیں اورجہاد قلم میںپختہ وکامل یقین کیساتھ
جڑی رہیں ہماری نیک تمنائیں آپ کیساتھ ہیں۔انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان ،بانی وسربراہ شہزادافق