پردیسی بھائیوں کے دکھ 220

پردیسی بھائیوں کے دکھ

پردیسی بھائیوں کے دکھ

صبیحہ خاتون شکرگڑھ
یہ اکثر صبح ناشتہ بہی نہیں کرتے کہ کہیں گاڑی ہی چہوٹ نہ جائے ناشتہ نظر انداز کرکے کہتے ہیں ” کام کی جگہ پہ پہنچ کر کچھ کہا لیں گے” جب کام کی جگہ پہ پہنچ جاتے ہیں تو کام کے دباو کی وجہ سے ناشتہ کرنا پہر بہول جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں چلو دوپہر لنچ ٹائم ہی کچھ کہالیں گے۔۔۔لنچ ٹائم میں بہی اکثر یہ بچارے پردیسی مزدور بہوکے رہ جاتے ہیں کہ اکثر کام کے لوڈ کی وجہ سے اوور ٹائم کا لالچ بیچ میں آجاتا ہے کہ اس بار چلو گہر کچھ ہزار زیادہ چلے جائے گے۔ گہر کے معاملات اور خوش اسلوبی سے طے پالے گے۔بریک کے ٹایم یہ مزدور جن پہ آپکو ناز ہوتا ہے کہ وہ دبئی، شارجہ، بحرین,سعودیہ، قطر، کویت،ملیشیا اور دنیا کے کسی کونے میں ہی کیوں نہ ہو جن پہ آپکو فخر ہوتا ہے کہ میرا بہائی تو بیرون ملک ہوتا ہے،
بریک ٹائم یہ کوئی کارٹن کا پیس اٹہا کر کوئی پلاسٹ کچہرے کے ڈیر سے اٹہا کر اسکو جہاڑ کر وہی بچہاتے ہوئے سو جاتے ہیں۔کچہرے کے ڈیر میں پڑا گندہ بدبودار پلاسٹ یا کارٹن کا پیسجی ہاں۔۔۔!!! وہ خود گہتوں پہ سوتے ہیں اور آپ کو گدوں پہ سلاتے ہیں۔صبح 5 بجے سے لیکر رات شام 7 بجے تک مسلسل خون و پسینے کا ایک ایک قطرہ بہایا جاتا ہے ریال, درہم, دینار کے لئےجلا دینے والی گرمی دماغ کو ابال کر رکھ دیتی ہے۔ پینے کو گرم پانی،
گرم ترین ہوا جیسے کہ تندور سے اٹہی ہو،
صحراوں میں گرد و غبار کے خوفناک ترین طوفان،58ویں چھت کے سکفولڈنگ پہ کہڑے زندگی اور موت کی یہ جنگ صرف دینار اور آپکی خوشیوں کے لئے پردیس میں ہر دن ہر صبح ہر وقت ہر سیکنڈ لڑی جاتی ہے۔پردیس میں ایک پردیسی پہ کیا گزرتی ہے آپ اسکا اندازہ بہی نہیں لگا سکتے۔نہایت طاقتور جسمانی وجود کے مالک کو ایک معمولی دبلا پتلا انسان بنا کسی بات کے سو سو باتیں سنا دیتا ہے۔پردیس میں رہنے والا کوئی ایک ایسا مزدور نہیں جو کسی فکر کسی غم کسی پریشانی سے آزاد ہو۔

کبھی اقامے کی فکر،کبھی کفالے کی بہاگ دوڑ،کبھی کفیل کی ٹینشن،کبھی جوازات کے مسائل،کبھی کمپنی کی مصیبتیں،کبھی تبادلے کی تشویشیں،کبھی تنخواہ وقت پہ نہ آنا،کبھی کام ہونے نہ ہونے کی تکالیف،کبھی سالن نہ بنانے پہ لڑائی جہگڑے،کبھی روم رینٹ کی فکر،کبھی روم سے نکالنے کی دہمکیاں اور کبھی آپ سب کی فرمائیشیں۔۔۔!!!یہ جو پردیسی ہیں نا۔۔۔!!!یہ ایک ایک حلالہ (سعودی, بخرینی, قطری, کویتی, دوبء پیسہ) بچاتے ہیں۔
انکا بہت من کرتا ہے کہ کچھ اچہا سا کہا لے کچھ اچہا سا پی لے۔بے حد من کرتا ہے کہ کبھی KFC برگر کنگ البیک کباب کہائے یا ریڈ بل پی لے،لیکن گہر کا خیال آتے ہی جیب اجازت نہیں دیتا،
تو یہ بیچارے واپس ہوجاتے ہیں۔انہوں نے ایک ایک روپے بچا کر اپنے لئے بہی کچھ بچت کی ہوتی ہے کہ زندگی کا کیا بہروسہ۔۔۔۔یہ سارا وقت اسی بچت کو دیکھ کر مزدوری کرتے ہیں کہ چلو اس ماہ گہر بہیجنے اور خرچہ نکال کر میرے پاس چالیس پچاس روپے بچ رہے ہیں۔
یہ اسی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ایک ایک روپے جوڑ کر جب کچھ آس بن جاتا ہے تو پاکستان آنے کی تیاری کرتے ہیں۔ٹکٹ کی معلومات کرتے ہیں ہیڈا آفس بات کرتے ہیں۔پتہ چل جاتا ہے کہ صاحب کی چہٹی برابر ہونے والی ہے،
پہر وہ اپنا پروگرام بناتا ہے کہ کب جانا ہے
کہ اچانک گہر سے کسی فرمائش آجاتی ہے کہ اسکو فلاں کام کے لئے اتنے پیسے چاہیےتب ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف گہر والوں کی خواہشات،کس کو منتخب کرے۔تب وہ سوچتا ہے کہ چلو کوئی مسئلہ نہیں میں ایک سال اور لگا دیتا ہوں۔” اچہا جی میں پیسے بہیج دوں گا” ایک سال کی ہی تو بات ہے میں اگلے سال واپس آجاتا ہوں چہٹی پہ…”اور وہ اپنی وہی بچت شام کو گہر روانہ کردیتا ہے۔

یہ جو پردیسی ہوتے ہیں نا۔۔۔!!!یہ آپکے لئے روز موت کا سامنا کرتے ہیں،پل پل جی کر مرتے ہیں۔اکثر رات کو کمبل میں رو بہی لیتے ہیں۔
کہ دکھ درد کس کو سنائے۔یہی سوچ کرکہ چلو میں تکلیف ہوں پیچہے گہر والے تو سکہی ہیں نا میری وجہ سے،اپنے پردیسوں کو بے جا فرمائیشیں کرکے تنگ نہ کریں۔ان کے اعصاب پہلے ہی پریشانیوں کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں۔ان سے کوئی شے مانگنی ہو بے حد قیمتی شے کی ڈیمانڈ بلکل نہ کریں۔ایک گیلکسی سیون ایج کی قیمت ایک مزدور کی تین ماہ کی تنخواہ ہے۔یہ تین ماہ کی تنخواہ وہ سورج کے سامنے کہڑے ہوکر اپنا چمڑا اور خون جلا کر وصول کرتے ہیں۔آپ کی ایسی فضول کی فرمائیشیں انکو مزید پریشان کردیتی ہیںان کو مزید سوچوں میں ڈال دیتی ہیں۔
صبیحہ خاتون شکرگڑھ پردیسی بھائیوں کے دکھ یہ اکثر صبح ناشتہ بہی نہیں کرتے کہ کہیں گاڑی ہی چہوٹ نہ جائے ناشتہ نظر انداز کرکے کہتے ہیں ” کام کی جگہ پہ پہنچ کر کچھ کہا لیں گے” جب کام کی جگہ پہ پہنچ جاتے ہیں تو کام کے دباو کی وجہ سے ناشتہ کرنا پہر بہول جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں چلو دوپہر لنچ ٹائم ہی کچھ کہالیں گے۔۔۔لنچ ٹائم میں بہی اکثر یہ بچارے پردیسی مزدور بہوکے رہ جاتے ہیں کہ اکثر کام کے لوڈ کی وجہ سے اوور ٹائم کا لالچ بیچ میں آجاتا ہے کہ اس بار چلو گہر کچھ ہزار زیادہ چلے جائے گے۔ گہر کے معاملات اور خوش اسلوبی سے طے پالے گے۔
بریک کے ٹایم یہ مزدور جن پہ آپکو ناز ہوتا ہے کہ وہ دبئی، شارجہ، بحرین,سعودیہ، قطر، کویت،ملیشیا اور دنیا کے کسی کونے میں ہی کیوں نہ ہو جن پہ آپکو فخر ہوتا ہے کہ میرا بہائی تو بیرون ملک ہوتا ہےبریک ٹائم یہ کوئی کارٹن کا پیس اٹہا کر کوئی پلاسٹ کچہرے کے ڈیر سے اٹہا کر اسکو جہاڑ کر وہی بچہاتے ہوئے سو جاتے ہیں۔کچہرے کے ڈیر میں پڑا گندہ بدبودار پلاسٹ یا کارٹن کا پیسجی ہاں۔۔۔!!! وہ خود گہتوں پہ سوتے ہیں اور آپ کو گدوں پہ سلاتے ہیں۔صبح 5 بجے سے لیکر رات شام 7 بجے تک مسلسل خون و پسینے کا ایک ایک قطرہ بہایا جاتا ہے ریال, درہم, دینار کے لئے
جلا دینے والی گرمی دماغ کو ابال کر رکھ دیتی ہے۔ پینے کو گرم پانی، گرم ترین ہوا جیسے کہ تندور سے اٹہی ہو،صحراوں میں گرد و غبار کے خوفناک ترین طوفان، 58ویں چھت کے سکفولڈنگ پہ کہڑے زندگی اور موت کی یہ جنگ صرف دینار اور آپکی خوشیوں کے لئے پردیس میں ہر دن ہر صبح ہر وقت ہر سیکنڈ لڑی جاتی ہے۔پردیس میں ایک پردیسی پہ کیا گزرتی ہے آپ اسکا اندازہ بہی نہیں لگا سکتے۔نہایت طاقتور جسمانی وجود کے مالک کو ایک معمولی دبلا پتلا انسان بنا کسی بات کے سو سو باتیں سنا دیتا ہے۔پردیس میں رہنے والا کوئی ایک ایسا مزدور نہیں جو کسی فکر کسی غم کسی پریشانی سے آزاد ہو۔کبھی اقامے کی فکر،کبھی کفالے کی بہاگ دوڑ،
کبھی کفیل کی ٹینشن،کبھی جوازات کے مسائل،کبھی کمپنی کی مصیبتیں، کبھی تبادلے کی تشویشیں،کبھی تنخواہ وقت پہ نہ آنا،کبھی کام ہونے نہ ہونے کی تکالیف،کبھی سالن نہ بنانے پہ لڑائی جہگڑے،کبھی روم رینٹ کی فکر،کبھی روم سے نکالنے کی دہمکیاں اور کبھی آپ سب کی فرمائیشیں۔یہ جو پردیسی ہیں نا یہ ایک ایک حلالہ (سعودی, بخرینی, قطری, کویتی, دوبء پیسہ) بچاتے ہیں۔انکا بہت من کرتا ہے کہ کچھ اچہا سا کہا لے کچھ اچہا سا پی لے۔بے حد من کرتا ہے کہ کبھی KFC برگر کنگ البیک کباب کہائے یا ریڈ بل پی لے،
لیکن گہر کا خیال آتے ہی جیب اجازت نہیں دیتا،تو یہ بیچارے واپس ہوجاتے ہیں۔انہوں نے ایک ایک روپے بچا کر اپنے لئے بہی کچھ بچت کی ہوتی ہے کہ زندگی کا کیا بہروسہ۔ یہ سارا وقت اسی بچت کو دیکھ کر مزدوری کرتے ہیں کہ چلو اس ماہ گہر بہیجنے اور خرچہ نکال کر میرے پاس چالیس پچاس روپے بچ رہے ہیں۔
یہ اسی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ایک ایک روپے جوڑ کر جب کچھ آس بن جاتا ہے تو پاکستان آنے کی تیاری کرتے ہیں۔ٹکٹ کی معلومات کرتے ہیں ہیڈا آفس بات کرتے ہیں۔پتہ چل جاتا ہے کہ صاحب کی چہٹی برابر ہونے والی ہے،پہر وہ اپنا پروگرام بناتا ہے کہ کب جانا ہےکہ اچانک گہر سے کسی فرمائش آجاتی ہے کہ اسکو فلاں کام کے لئے اتنے پیسے چاہیےتب ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف گہر والوں کی خواہشات،کس کو منتخب کرے۔
تب وہ سوچتا ہے کہ چلو کوئی مسئلہ نہیں میں ایک سال اور لگا دیتا ہوں’ اچہا جی میں پیسے بہیج دوں گا” ایک سال کی ہی تو بات ہے میں اگلے سال واپس آجاتا ہوں چہٹی پہ.اور وہ اپنی وہی بچت شام کو گہر روانہ کردیتا ہے۔یہ جو پردیسی ہوتے ہیں نایہ آپکے لئے روز موت کا سامنا کرتے ہیں، پل پل جی کر مرتے ہیں۔
اکثر رات کو کمبل میں رو بہی لیتے ہیں۔ کہ دکھ درد کس کو سنائے۔یہی سوچ کر کہ چلو میں تکلیف ہوں پیچہے گہر والے تو سکہی ہیں نا میری وجہ سے،اپنے پردیسوں کو بے جا فرمائیشیں کرکے تنگ نہ کریں۔ان کے اعصاب پہلے ہی پریشانیوں کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں۔ان سے کوئی شے مانگنی ہو بے حد قیمتی شے کی ڈیمانڈ بلکل نہ کریں۔ایک گیلکسی سیون ایج کی قیمت ایک مزدور کی تین ماہ کی تنخواہ ہے۔ یہ تین ماہ کی تنخواہ وہ سورج کے سامنے کہڑے ہوکر اپنا چمڑا اور خون جلا کر وصول کرتے ہیں۔
آپ کی ایسی فضول کی فرمائیشیں انکو مزید پریشان کردیتی ہیں
ان کو مزید سوچوں میں ڈال دیتی ہیں۔اور آپکو بحرین, دب?ی، قطر، سعودیہ اور ملیشیا میں سورج کے تپش کی طاقت کا اندازہ نہیں، وہ انسان کو کوئلہ بنا دیتی ہے۔پردیسیوں کے ددکھ.خدا ہر بہن کے بھائی کو سلامت رکھے اور بھائیوں کی زندگی ہمشہ خوشیوں سے بھری رہی اور بھایئوں کاسایہ بہنوں پہ رہتی دینا تک رکھنا
آمین۔اور آپکو بحرین, دب?ی، قطر، سعودیہ اور ملیشیا میں سورج کے تپش کی طاقت کا اندازہ نہیں، وہ انسان کو کوئلہ بنا دیتی ہے۔پردیسیوں کے ددکھ.خدا ہر بہن کے بھائی کو سلامت رکھے اور بھائیوں کی زندگی ہمشہ خوشیوں سے بھری رہی اور بھایئوں کاسایہ بہنوں پہ رہتی دینا تک رکھنا
آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں