معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک بڑی وجہ؟ 233

معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک بڑی وجہ؟

معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک بڑی وجہ؟

تحریر :محمدکاشف اکبر
کسی بھی معاشرے میں جرائم کے بڑھنے کے بہت سے محرکات ہوتے ہیں جن میں تعلیم وتربیت کی کمی،والدین کی عدم توجہ، بری صحبت،بے روزگاری اور عدل وانصاف کی کمی سمیت دیگرکئی عوامل ہوسکتے ہیں مگر اس مضمون میں ایک اہم نقطہ سے نقاب اُٹھانے کی کوشش کروںگا جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں یا شاید ہم نے کبھی اس نقطہ نظر سے سوچا ہی نہیںیا پھر حقیقت جان کر بھی اس کو نظر انداز کررہے ہیںجو ایک فرد،خاندان یا معاشرے کی تباہی کا سبب بن رہا ہے ۔ایک دفعہ راقم کے حلقہ انتخاب کی سیاسی قدآور شخصیت کے ساتھ علاقے کی سیاست اور معاشرے کے مسائل پر ہلکی پھلکی گفت وشنید ہورہی تھی کہ بات جرائم اور سفارش کی جانب بڑھ گئی تو اس سیاسی شخصیت نے کہا

کہ ہم کوتو اکثرسفارش کے فون آتے رہتے ہیں مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنے والی فون کال پر ہمیں بھی حیرت ہوتی ہے اور ہم پریشان ہوجاتے ہیں جس پر راقم نے ان سے استفسار کیا کہ کسی ایسی فون کال کے بارے میں ہمیں بھی بتادیں جو آپ کو اب تک یاد ہو تو انھوں نے کہا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ مجھے ایک علاقے کی معتبر شخصیت نے رات 11بجے فون کیا اور کہا کہ آپ تھانے میں ایس ایچ او کو فون کریں اس نے فلاں کے بیٹے کو چوری کے جرم میںگرفتار کر لیا ہے آپ فون کر کے چھڑوادیں تو جواباًمیں نے کہا کہ پولیس کو تفتیش کرنے دیں اگر اس نے چوری نہیں کی توپولیس خود ہی اس کو صبح تک چھوڑ دے گی ۔مگر وہ نہ مانے اور کہا کہ اس کا والد اور دیگر رشتہ دار میرے گھر بیٹھے ہوئے ہیں وہ اس کی بے گناہی کی ضمانت دے رہے ہیں لہذا آپ تھانے فون کریں مگر ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ میں خود ایس ایچ او کو فون کر لیتا مگر معاملہ چوری کا ہے اس لئے مجھے شرم آتی ہے تو جواباً میں نے کچھ کہنے کے لئے ابھی منہ کھولا ہی تھا

کہ انھوں نے آگے سے کہا آپ کے لئے تو یہ معمول کا کام ہوگا ! خیر ناچارگی میں میں نے تھانے فون کیا اور ایس ایچ او کو اُسے چھوڑنے کا کہا اور بہانہ یہ بنایا کہ ہم معاملہ خود دیکھ لیں گے لڑکے کو چھوڑ دو ۔ وہ چور نہیں ہوسکتا ! پھر ساتھ ہی موصوف مسکرا کر بولے کہ میرے اتنا کہنے کے بعد ایس ایچ او بڑے پُر سکون لہجے میں بولا کہ اس نے اقبال ِ جرم کر لیاہے اور ہم تو برآمدگی کرانے کے لئے جارہے ہیں جس پر میں نے صرف اوکے کہا اور فون بند کر دیا پھر اس فون کرنے والے کو فون کیا اور کہا کہ جس کو آپ بے گناہ اور معصوم کہہ رہے تھے اس نے چوری قبول کر لی ہے اور تھوڑی دیر تک برآمدگی بھی ہوجائے گی جس پر انھوں نے محض چلو کوئی بات نہیںکہا جس پر میں نے کہا کہ مجھے تو ایس ایچ او کے

سامنے شرمندہ کروادیا آگے سے جناب گویا ہوئے کہ آپ تو لیڈر ہیں آپ کے لئے معاشرے کے گندے چہروں ،چوروں ڈاکوئوں کی سفارش تو معمولی بات ہے جس پر میں انھیں کچھ نہ کہہ سکا چونکہ انھوں نے مسکراتے مسکراتے بہت کڑوا سچ کہہ دیا تھا کیونکہ ہم لیڈروں کو اکثر وہ کام بھی کرنے پڑتے ہیں جو کسی صورت مناسب نہیں ہوتے ۔ اس کے بعد کا فی دیر تک خاموشی رہی ۔البتہ راقم یہ سچاواقعہ سننے کے بعد گہرے خیالوں میں کھو گیا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا واقعی ہمارے معاشرے میں جرائم کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ سیاسی لیڈران و کھڑپینچ بھی ہیں ؟

جو مجرم کو محض تعلق ، رشتہ داری یا پھر ووٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے سزا سے بلکہ قانون کے ہاتھوں میں پہنچنے سے پہلے ہی بچا لیتے ہیں ۔ جس طرح ایک وکیل چند ٹکوں کی خاطر بڑے سے بڑے مجرم کو سزا ہونے سے بچا لیتا ہے ایک جھوٹا گواہ اپنا اور بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتا ہوتا کہ وہ پیٹ روٹی سے نہیں بلکہ آگ سے بھر رہا ہے گواہ سے راقم کو ایک اور واقعہ یاد آگیا ہے مگر مضمون کو طوالت سے بچاتے اور اختصار کرتے ہوئے یہ واقعہ پھر کبھی سہی ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مملکت خداداد میں نظام اسلام کا نفاذ کرے اور قوم کو ایسے لیڈر عطا فرمائے جو ووٹ ، تعلق ، رشتہ داری کو مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ حقیقی معنو ںمیں عدل وانصاف کرنے والے ہوں جو جرائم کے ہونے کی وجہ بننے کے بجائے خاتمے کی وجہ بنیں ۔ آمین٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں