صحرائے کے ریگزاروں کا ایک انمول نگینہ 124

تھل ادب کا ایک روشن ستارہ

تھل ادب کا ایک روشن ستارہ

شہزادافق
ضلع لیہ صوبہ پنجاب کا ایک پسماندہ ترین ضلع ہے۔جس کی تاریخ کا اگر ذکر کیا جائے، تو ضلع لیہ پانچ لاکھ سال کی تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہےتاریخ کی ورق گردانی نے یہ عیاںہوتا ہے۔ کہ نہ صرف پاکستان بل کہ پورے ساؤتھ ایشاء میں انسانوں کی جو قدیم ترین نسل آباد ہے،وہ لیہ اور اس کے گردنواع کی ہے۔اگر یحیی امجد کی کتاب” تاریخ پاکستان” جس کا جو قدیم تاریخ کا باب ہے اس میں بھی یہ حوالہ جات موجودہیں،اور”عرض پاکستان ”رشید اخترندوی کی کتاب میں بھی ان قبائل کا ذکر موجود ہے۔یہاں پر موجود کچھ قبائل جو دریائے سندھ کے کنارے آبادہیں

ان کی تاریخ بھی دریائے سندھ کے ساتھ اتنی ہی پرانی ہے۔اوردریائے سندھ لاکھوں سال کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ اب بات کی جائے ادب کی تو کسی نقاد نے کیا خوب کہا تھا کہ ”ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔” ادب کی تاریخ انسان کے لبوں سے ادا ہونے والے پہلے لفظ سے شروع ہو جاتی ہے لیکن ہر علاقے اور شہر کی اپنی تہذیب، ثقافت اور تاریخ ہوتی ہے۔ لیہ جسے شہر دانش، یا ادب کا ایتھنز کہا گیا ہے, اس کا ادب ہی نہیں تاریخ بھی اپنا مقام رکھتی ہے۔ لیہ کے ادبی پس منظر کا جائزہ لیں تو یہ علم و ادب میں بھی لکھنو کا گمان ہوتا ہے۔ لیہ وہ صرف ہے جس کی کوکھ سے ایسے ایسے چمک دار لعل و گوہر نمودار ہوے, جن کی چمک آج بھی برصغیر کے ادب کو روشن کئے ہوئے ہے۔ بر صغیر پاک و ہند کے نامور ادیب،

دانشور، شاعر، ماہرتعلیم، مورخ جن کی تخلیقات کو ملک اور بیرون ملک ہر جگہ تسلیم کیاگیا ہے، ان کا تعلق بھی سر زمین لیہ سے تھا جن میں لالہ پنج بھان اثر، بندر ناتھ جیت، اشوداس پنڈت، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، مندر پر تاب چاند، فرمان پٹالوی، ذاکر جگرانوی، راجہعبداللہ نیاز(ماہر تعلیم) رب نواز شکستہ، ماسٹر عبدالرحمن مونس، شارق انبالوی، سنبل قریشی، ڈاکٹر مہر عبدالحق سمرا، مولوی غلام جیلانی فرمان، محمد شریف منتظر،

غافل کرنالی مرحوم، ڈاکٹر قیصر عباس مرحوم، فضل الحق رضوی مرحوم، طاہرہ امان مرحومہ ،چودھری نزیر مرحوم، غلام حسن ثمر مرحوم، جعفر الزمان مرحوم، باقر الزمان مرحوم، نادر قیصرانی مرحوم، عدیم صراطی مرحوم، اظہر ترکھان مرحوم، نسیم لیہ مرحوم، کیف شکوری مرحوم۔ جو باہر سے آئے، ان میں حضرت ارمان عثمانی (مرحوم)مصطفی زیدی مرحوم، حسن رضا گردیزی مرحوم، تحسین فرانی تھے۔ ان کے علاوہ اب ڈاکٹر خیال امرو ہوی، واصف قریشی، فقیر الہی بخش سرائی، اظہر زیدی، پروفیسر شفقت بزدار، پروفیسر جعفر بلوچ، شعیب جاذب، پروفیسر شہباز نقوی، عثمان خان، لطیف فتح پوری، منور اقبال بلوچ، ڈاکٹر اشولعل فقیر، موسی کلیم، امداد طوسی، ڈاکٹر فیاض قادری، امان اللہ کاظم، جمعہ خان عاصی،

خالد زبیری، شوکت لائق، رفیق خاور تھلوچی، سجاد صابر، سید ذاکر حسین ذاکر، نزیر احمد عنبر، ماسٹر بھٹہ، نواز صدیقی، محمد حسین قنبر، ثمر مشتاق، جسارت خیالی، عارف دستی، منظور حسین، رفیق ہمراز، مشکور سلیم اختر ندیم، آپا نسیم فردوس صاحبہ، فرح تحسین بخاری، افضل صفی، جمشید ساحل، سجاد انجم بلوچ، مظہر یاسر، شاکر کاشف، ڈاکٹر افتخار بیگ، ڈاکٹر گل عباس، صادق حسنی، پروفیسر مزمل حسین، طاہر مسعود مہار، وقار بخاری، ریاض راہی، شمشاد سرائی، اشرف درپن، کاشف مجید، کرامت کاظمی، عبدالرحمن مانی، روبینہ نقوی، ذکی تنہا، وقار بخاری ،، شمشاد سرائی، اشرف درپن،، خاشف مجید، کرامت کاظمی، عبدالرحمن مانی، روبینہ نقوی، ذکی تنہا، احسن بٹ، مبشر بیگ، عظیم تائب، ناصرملک ،

عبدالقدوس ساجد، ریاض قیصر، انیس سہیل ملغانی، راول بلوچ، منشی منظور، چودھری مبشر، ایم بی راشد، عباس واصفی، عنبر شوق، ساجد سواگی، قمر سرائی، سعید اختر سعید، گفتار خیالی، نعمان اشتیاق، مختار حسین مختار،محمدصابرعطاء تھہیم،مقبول شہزاد ،محمدبوٹاشاکر، شفقت عابداور مرتضی افسوس ودیگر اس وقت علم و ادب کی آبیاری فرما رہے ہیں۔مگر ان میں ایک ایساادبی ستارہ بھی موجود ہے جس نے پاکستان اوربین الاقوامی سطح اپنا ایک مقام حاصل کیا ،ان کا تعلق بھی سرزمین لیہ سے ہے۔وہ تھل ادب کا ایک روشن ستارہ ہے۔جس کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں ان کی ادبی خدمات اس قدر قابل فخر ہے ،اورقبل قدر ہے کہ ان کے نام کودبی حلقوں میں ایک عظیم رائٹر کے طورپر یادکیا جاتا ہے۔
جو ایک بہترین کالم نگار، ناول نگار،تجزیہ نگار،افسانہ نگار اور ایک شاعرہ بھی ہیں ۔ان کا شمار لیہ اورکوٹ ادوکے بہترین لکھاریوں میں ہوتا ہے ۔ان کانام پروفیسر صفیہ انور صفی ہے۔ جن کا تعلق صوبہ پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع لیہ سے ہے ۔اور ان کی پیدائش8 فروری 1975کو ضلع لیہ میںہوئی۔کسی کو کیا تھی کہ یہ بچی ایک دن اپنے ماں باپ اور علاقہ کے لئے باعث فخر بنے گی ۔یہ کون جانتا تھا یہ ایک دن لیہ کی شان اور پہچان بنے گی ۔ انہوںنے اپنی ابتدائی تعلیم آبائی شہر لیہ سے حاصل کی اوپھرمیٹرک تک کی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول لیہ سے حاصل کی ،پھر انٹرمیڈیٹ اور بی اے تک کی تعلیم گورنمنٹ کالج برائے خواتین لیہ سے مکمل کی ،اورایم اے اردو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے مکمل کی اورساتھ ساتھ بی

ایڈکی ڈگری بھی مکمل کرلی۔صفیہ انورصفی صاحبہ کی پہلی تعیناتی لکس کالج میں بطور لیکچرار ہوئی۔اورساتھ ساتھ ادبی ذوق بھی پروان چڑھتارہا ،اورپھرایک دن کی اردو شاعری کیاپہلامجموعہ ”مجھے تتلیوں سے پیار ہے” جنوری 2016میں شائع ہوا۔جس کو بے حد خوبصورتی ،سنجیدگی اور احسن طریقہ سے ترتیب دیا گیا ہے ،کہ اگرحمد پڑھیں تو سبحان اللہ ، اگر نعت پڑھیں تو حرف حرف اپنے ساتھ خوشبو سے مہک رہا ہے ۔ صفیہ انورصفی صاحبہ کا مطالعہ اس قدر وسیع ہے کہ ان کا کلام تاریخ کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔صفی حاحبہ کتنی حساس دل ہیں ،ان کی ایک غزل کے دواشعارسے اندازہ کرلیجئے:

ماں تیرے قدمو ں کے نشان ہم چھوڑ آئے ہیں
مت پوچھ کیا ہوا ،جنت سے منہ موڑ آئے ہیں

صبح کے اجالوں اوررتجگوں میں وہ تیرا ذکر
ناطہ تو اس جہاں سے اب توڑ آئے ہیں

ان کی شاعری میں ہرصفحات پر ایک پیغام موجود ہے کہیں اولاد کے نام تو کہیںمعاشرے کے مکینوں کے نام یہ کتاب اپنے اندر بہت راز چھپائے ہوئے ،پروفیسرصفیہ انورصفی صاحبہ کس قدر حساس دل کی مالک ہیں اور انسانیت سے کس قدر انس کرتی ہیں ان کی کتاب سے سب عیاں ہوگیا ہے۔اورپھر2018میںان کا پہلاناول ”روداد-زیست” اگست میں شائع ہوا۔اور یہ ناول صفیہ انور صفی صاحبہ کوتھل کی پہلی خاتون ناول
نگارہونے کے اعزاز سے منسلک کرگیا، اورساتھ ساتھ یہ ناول اہلیان تھل کے لئے باعث فخر بن گیا۔اس ناول کو اگرادبی حیثیت سے دیکھا جائے، تو یہ ناول ایک بہترین معیاری ناول ہے۔زندگی کے حقیقی کرداروں کو اس قدر ڈھال کرپیش کیا کر قاری حقیقت سے حقیقت تک کی مسافت طے کرتا ہے

۔یہ ناول ایک جاندار ناول ہے۔ سیکھنے کے لئے اس ناول میں بہت کچھ پوشیدہ ہے۔اگر ان کی نجی زندگی کودیکھا جائے تو صفی صاحبہ کو خالق کائنات نے چاربیٹوں اورایک بیٹے سے نوازا ہے۔جن میںمشعال فاطمہ،منہال فاطمہ ،درعیناں، درلائبہ اور آیان حسن ہیں۔صفیہ انور صفی صاحبہ نے اسلامی،ادبی سماجی،تعلیمی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر بہت سی تحریریں لکھی ہیں جوپاکستان اوربین الاقوامی مختلف اخبارات،اوررسالوں میںاشاعت ہوتی رہتی ہیں۔اہلیان لیہ کے لئے یہ باعث فخر با ت ہے ۔صفیہ انور صفی صاحبہ نے اپنی قابلیت اوراپنے بل بوتے پر بے شمار ایوارڈزسے حاصل کیے ہیں

۔پروفیسر انور صفی صاحبہ نے معروف ومشہورشاعرہ پروین شاکرسے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا۔اور ان کے اساتذہ کرام ،اور والدین نے ان کی ہرموقع پر حوصلہ افزائی کی۔ان کی محنت اوردن رات کی ادبی کاوشوں میںان کے مقاصد کالج میں پرنسپل کا درجہ حاصل کرنا ہے۔ان کو ان کی ادب خدمات پرملنے والے اعزازت اور امتیاز:
•تھل میں پہلی ناول نگار خاتون کا امتیاز ملا۔
پہلا ”الفنوس علمی ادبی •ایوارڈ”فور ناول ”روداد-زیست”
•پہلی شاعرہ ضلع کوٹ ادو پنجاب پاکستان
•ادب کا مجموعی طور پر پہلا ناول
•شاعری کی کتاب اور ناول جو کے غازی یونیورسٹی میں ایم۔فل کے تھیسس میں شامل کیاگیاہے ۔پروفیسر انور صفی صاحبہ مستقبل میں اردو ادب پر مزید کام کرنے کے لیے خواہشمند ہیں ۔اورہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں اللہ پاک ان کی ہر نیک خواہشات کو پائے تکمیل تک پہنچائے ۔آمین
بانی وسربراہ انٹرنیشنل رائٹرزفورم پاکستان ،ایڈیٹرانچیف ماہنامہ افکارافق انٹرنیشنل شہزادافق

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں