شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 103

آر پار کے بازی گروں کا کھیل

آر پار کے بازی گروں کا کھیل

تحریر:شاہد ندیم احمد
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اورکشمکش کی ایک طویل داستان ہے، ہمارے جمہوری مزاج میں تحمل، برداشت اور رواداری کی کوئی بھی قابل ذکر اور قابل تقلید مثال نظر نہیں آتی، اپوزیشن جماعتوں نے جب بھی احتجاج کا راستہ اختیارکیا اور حکومت گھر بھیجنے کی تحریکیں چلائیں تو نقصان جمہوریت کا ہی ہوا ہے، ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی گیا ہے، سیاسی قیادت ادارک کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ آپس کی لڑائی میں فائدہ غیر سیاسی قوتوں کاہو گا ،اس لیے آر پار کی بازی کا گنائونا کھیل کھیلنے کی بجائے صلح کی بات کرنی چاہئے ،مگرجب ہر طرف لڑائی ہی لڑائی ہو نے لگے اور اسمبلی میں بھی فضا سازگار نہ رہے تو پھر صلح کی بات کہاں اور کیسے ہو سکتی ہے۔
پی ڈی ایم ایوان کے اندر اور باہرسیاسی تلخی کے ماحول میں بھی لانگ مارچ کرنے جارہی ہے،اس کا مطلب ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت ،استعفوں کی بات کہیں پیچھے رہ گئی اورایک دوسرے پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئی حکمت عملی وضح کرلی گئی ہے ،حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں مذید تصادم کے اندیشے قوی تر ہوتے دکھائی دیتے ہیں، اس تنا ظر میں ملک کی سیاسی قیادت سے سوال بنتا ہے کہ آیا سیاست اسی طرز عمل کا نام ہے جو سب نے اپنا رکھا ہے؟کیا عوام اس بات سے بے خبر ہیں کہ کون کیا چاہتا ہے؟جن ایشوز پر اپوزیشن سراپا احتجاج ہے

کیا ایوانوں میں زیر بحث نہیں آ نے چاہئیں اور کیا ایسے احتجاجوں سے منتخب حکومت رخصت کرنے کی تمنا جمہوری اور آئینی ہے؟یقیناً نہیں، یاد رہے کہ سیاست بند گلی میں داخل ہونے کا نام نہیں، ڈائیلاگ سے مسائل حل کرنے کا نام ہے۔یہ امرواضح ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک دم تورنے لگی ہے ،اس تحریک میں نیا جوش جذبہ پیدا کرنے کیلئے لا نگ مارچ کا فیصلہ کیا گیا ہے ،اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی ،بے روز گاری کے ستائے عوام لا نگ مارچ کا حصہ بنیں گے ،جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں،عوام جہاں مہنگائی

،بے روز گاری سے تنگ ہیں ،وہیں آزمائے ہوں کو دوبارہ آزمانے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں ،عوام اپنے مسائل کا تداک چاہتے ہیں ،عوام چاہتے ہیں کہ منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرتے ہوئے عوامی مسائل کو تر جیحی بنیادوں پر حل کرے ،اگر موجودہ حکومت نے بھی عوام کے درینہ مسائل حل نہ کیے تودوبارہ موقع نہیں دیا جائے گا۔تحریک انصاف حکومت عوامی مسائل کے تدارک کی خواہاںہے لیکن اپوزیشن آئینی طریقے کی بجائے غیر آئینی طریقے سے حکومت کو گھر بھیجنے پر بضد ہے، اپوزیشن کچھ مقتدر قوتوں کی پشت پناہی کے باعث خوش فہمی کا شکار ہے کہ حکومت گرانے میں کا میاب ہو جائیں گے،جبکہ حکومت لانگ مارچ ،دھرنے کا تجربہ رکھتے ہوئے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر اعصاب مضبوط ہوں

تو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود بھی دھرنا کامیاب نہیں ہوسکتا، لہذا اپوزیشن کا لانگ مارچ، قافلوں کے دو تین یوم میں اسلام آباد پہنچ کر ایک بڑا جلسہ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکیںگے، حکومت گھر جائے گی نہ مرکز یا صوبوں میں کوئی تبدیلی آئے گی،البتہ اپوزیشن بھائو تائو لگوانے میں کسی حد تک کا میاب ہو سکتی ہے۔
یہ پاکستانی سیاست بھی عجب ہے، یہاں جو دکھتا ہے، وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے، وہ دکھتا نہیں ہے،ایک طرف پی ڈی ایم کے مشترکہ فیصلے ہورہے ہیںتو دوسری جانب طاقتور حلقوں سے مک مکا یا ڈیل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں،جبکہ عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے یقین دلایا جارہا ہے کہ پس پردہ کوئی رابطے نہیں ہیں،شیخ رشید درست کہتے ہیں کہ سب کے رابطے ہیں اور سیاست میں رابطے بند نہیںہوتے ہیں،یہ انہیں رابطوں کا نتیجہ ہے

کہ نئے سافٹ وئیرانسٹال ہونے پر روئیوں میں تبدیلی کے ساتھ سہو لتیں بھی ملنے لگی ہیں ،یہاں ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کو ہاتھ میں لے کر اپنا بھاؤ تاؤ کرنے پر تیار ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی فوری طور پر اپنے مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے بھاؤ تاؤ کررہی ہیں،اس حوالے سے کہیں پر کچھ نہ کچھ انڈراسٹینڈنگ ہوچکی ہے،اس کا اشارہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے مسلم لیگ( ن ) اورپیپلزپارٹی پرہتھ ہولا رکھنے کی پالیسی سے نظر آنے بھی لگاہے۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ ملک میں جمہوریت کے سب ہی دعویدار ہیں،مگرجمہوری روایات اپنانے کیلئے تیار نہیں ہیں، گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران اپوزیشن اور حزب اقتدار نے پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کے لئے کوئی لائق تحسین کام نہیں کیا ہے۔ پارلیمنٹ کو مقدس ایوان کہنے والے‘ اس کی بالادستی کی بات کرنے والے اور اسے جمہوری نظام کا مرکز تسلیم کرنے والے مسلسل اسی ایوان کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں، ایسا لگنے لگا ہے

کہ سیاسی خاندانوں کے مفاد میں جو قانون اور ادارہ مزاحم ہو گا، اس کو بے توقیر کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا،اپوزیشن جب تک جمہوریت اور آئین کی حتمی بالادستی کیلئے اپنے اہداف واضح نہیں کرے گی ،ناکام و نامراد ہوتی رہے گی اور طاقت کے اصل کھلاڑی اقتدار پر مسلسل قابض رہیں گے ،بہتر راستہ یہی ہے کہ ایوانوں کی بالا دستی قائم کر تے ہوئے انہیں مضبوط بنانے کی سعی کی جائے، وگرنہ جو ایوان کے اندر اور باہر آر پار کی بازی کا گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے ، اس کے نتائج کسی کے لیے بھی خوش کن نہیںہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں