بچہ چور لفنگے کیا قابل معافی ہیں؟ 239

2019 عام انتخاب رزلٹ کیا منسوخ یا رد کر مودی جی کو گھر نہیں بھیجا جاسکتا ہے؟

2019 عام انتخاب رزلٹ کیا منسوخ یا رد کر مودی جی کو گھر نہیں بھیجا جاسکتا ہے؟

نقاش نائطی
بھارتیہ میڈیا کے جانے مانے پترکار میڈیا کرمی شری کرن تھاپر صاحب کا سپریم کورٹ کے مشہور وکیل شری پرشانت بھوشن صاحب سے، ارنب گوسوامی واٹس آپ چیٹ لیک موضوع پر خاص انٹرویو دوران یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ 2019 عام انتخابات سے پہلے، دیش کی تمام تر مین آسٹریا میڈیا کے انتخابی سروے نتائج میں، بحیثیت پرائم منسٹر، مسٹرمودی جی کی ذاتی مقبولیت باوجود، 2019 عام انتخاب، جے پی کے جیت نہ پانے کے اشاروں کے بیچ، 14 فروی 2019 بی ایس ایف ملٹری کانوائے پلوامہ دہشت گردانہ حملہ تناظر میں، پاکستانی سرحد کے اندر بالاکوٹ میں بھارتیہ ایر فورس کا سرجیکل اسرائیک، دراصل بھارتیہ سو کروڑ ووٹروں میں دیش بھگتی کےجذبات بھڑکا، 2019 عام انتخاب جیتنے کی ایک کوشش کے طور دیکھا جانا چاہئیے
خصوصا گجرات چیف منسٹر رہتے مسٹر مودی جی اور ان کے ریاستی گجرات سرکار ہوم منسٹر رہے شری امیت شاہ کی جوڑی کا 2002 گجرات ریاستی عام انتخاب سے قبل گودھرا ریل کانٹ میں ایودھیہ سے کارسیوا کر لوٹ رہے رام مندر کارسیوکوں کو ریل ڈبہ کے اندر سے آگ لگا، انیک رام سیوکوں کو زندہ جلا مارتے ہوئے، اس گودھرا کانٹ کا بے بنیاد الزام، گجراتی مسلمانوں کے سر ڈالتے ہوئے، گجرات آر ایس ایس، بی جے پی سنگھ سرکار کا، حکومتی مشینری کا غلط استعمال کر، مسلم کش فساد برپا کرنا، اور تین ایک ہزار گجراتی مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہوئے،

مسلم نساء کی سرراہ آبروریزی کراتے ہوئے، بھارت بھر کے ہندو ووٹروں میں، مسلم مخالف ویر سمراٹ کالقب پاتےہوئے، اس وقت 2002 نہ صرف گجرات انتخابات اکثریت سے جیتنا، بلکہ اس گودھرا واقعہ پر آج 18 لمبے سال گزرنے کے باوجود، ھندو ویر سمراٹ مودی جی ایمیچ کے چلتے، گجرات بی جے پی کو ابھی تک کسی بھی سیاسی پارٹی کے شکست نہ دے پانے کے تناظر میں، اور اسی مسلم مخالف ویر سمراٹ کے ہیولے کا 2014 عام انتخاب جیت کر بھارت کا پرائم منسٹر بننے کے بعد بھی، پرائم منسٹر مودی جی کا بھارت دیش کو ترقی پذیری کی طرف گامزن کرنے کے بجائے، اپنی ناعاقبت اندیشانہ نوٹ بندی، نفاذ جی ایس ٹی اور اب کورونا قہر چند گھنٹہ تک فرصت نہ دئیے، دیش بھر نافذ کرفیو نما ،

مہینوں کے لاک ڈاؤن سے، دیش کی معشیت کو برباد کرتے اپنے فیصلوں سے، اور بھارت دیش کو تباہ و برباد کرتی اپنی معشیتی پالیسیز سے، دیش واسیوں کی نظرین ہٹا، ان میں اپنے پرانے 2002 والے مسلم مخالف ویر سمراٹ کے ہیولے کو زندہ رکھنے کے لئے، اب تک ان چھ ساڑھےچھ سالہ سنگھی دور حکومت میں، 56″ چوڑے سینے والے، پرائم منسٹر مودی جی نے، اکلوتی مسلم اکثریتی کشمیر کو، آزادی ھند سے قبل ضمانتا” دیش کے دستور العمل میں آرٹیکل 37 جگہ دئیے، تمام تر مراعات و اختیارات سے محروم کئے، اسی لاکھ آبادی والے مسلم اکثریتی ریاست کشمیر ہی کو، انٹرنیٹ و عالمی میڈیا کے بشمول تمام تر جدت پسند سہولیات سے محروم رکھ، آٹھ لاکھ تربیت یافتہ ہتھیار بند بھارتیہ افواج کی

نگرانی میں، عالم کی سب سے بڑی جیل میں منتقل کیا ہے، بلکہ دیش کے دستورالعمل میں دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 کروڑ مسلمانوں کو اس آزاد بھارت میں، اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ، عزت واحترام سے جینے کی آزادی دئیے، دستور الھند میں جگہ دئیے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کرتے ہوئے، پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل پر، ٹرپل طلاق قانون پاس کروا، اور دیش ہی کے دستورالعمل میں مساوات شہری حقوق کی شقوں پر کاری ضرب کرتے، سی اے اے، آین پی آر اور این آرسی قانون پاس کرواتے ہوئے اپنے آپ کومسلم مخالف ھندو ویر سمراٹ ہی کے طور پیش کرنے کی 56″ چوڑے سینے والے مہان مودی جی نے کوشش کی ہے

ایسے میں گودھرا کانٹ اپنے ہی رام مندر کارسیوکوں کو زندہ جلوا، گجرات ریاستی انتخاب جیتنے کا الزام اپنے ماتھے پر سجائے سابقہ 18 سال سے گجرات پر حکومت کرنے والی مودی امیت شاہ جوڑی کو،جن پر گجرات ریاستی سرکار کی، اسٹیٹ حکومتی نگرانی میں، سہراب الدین اور عشرت جہاں، فرضی اینکونٹر مارنے کے الزامات عدالتی تحقیق میں سچ ثابت ہوچکے ہوں اور جن پر ان فرضی اینکونٹر پر عدالتی تحقیق کررہے، بھارت دیش کے سپریم کورٹ جج جسٹس ہری کرشن لویا کو قتل کرنے یا کروانے کا الزام ہو، اس مودی امیت شاہ کی جوڑی کا اب بھارت دیش کے سب سے اہم عہدوں پر قابض رہتے،

تمام تر احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، تین درجاتی سیکیورٹی والے پرندہ تک پر مار نہ سکنے والے ہائی سیکیورٹی زون پلوامہ کشمیر میں، 80 گاڑیوں والے دنیا کے بڑے ملٹری کانوائے پر،2019 عام انتخاب سے عین قبل دہشت گردانہ حملہ کروا 40 بہادر دیش کی افواج کی آہوتی دیتے پس منظر میں، 26 فروری لئے جانے والے بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک کی حساس ملٹری خبر کو، اپنے بکاؤ بھونپو میڈیا سربراہ ارنب گوسوامی کو، بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک سے تین روز قبل حساس خبر لیک کروا اپنے بھونپو میڈیا کی ٹی آرپی بڑھوانے میں استعمال کرنا،

کیا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ سو کروڑ دیش کے ووٹروں کی حب الوطنی کو بھڑکا کر 2019 عام انتخاب جیتنے کے لئے بالاکوٹ سرجیکل استرائیک کا ڈرامہ رچا گیا تھا جس کے نتیجہ میں 27 فروری پاکستانی افواج کے بھارتیہ سرحدوں کے اندر رچائے جوابی سرجیکل اسٹرائیک میں دیش کادفاع کرتے ہوئے، دیش کے جو فائٹر جیٹ دشمن پاکستان کے ہاتھوں مار گرائے گئے تھے، اور دیش کی ایرفورس کا فائٹر پائلٹ ابھینندن دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہوئے،

دفاعی اعتبار سے دیش کو سبکی و شرمندگی اٹھانے کا موجب بنا تھا۔ اگر یہ سب کچھ جو ہوا وہیں پر ختم ہونے کے بجائے دونوں ایٹمی قوت ھند و پاک میں جنگ گر چھڑگئی ہوتی تو اس مفروضہ ایٹمی جنگ میں مرنے والے لاکھوں فوجی و سول اموات کا ذمہ دار کون ہوتا؟ ایک ان پڑھ چائے والے نے 2019 عام انتخاب جیتنے کے لئے دونوں ھند و پاک 160 کروڑ دیش واسیوں کی زندگیوں کو جو خطرے میں ڈالا تھا، اس کے لئے اب ارنب گو سوامی واٹس آپ لیک، حقیقت سامنے آنے کے بعد، کیا 2019 عام انتخاب رد کرواتے ہوئے مودی جی کو لائق سزا تصور نہیں کیا جانا چاہئیے؟

26 فروری 2019 بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک کی انتہائی رازدارنہ خبر، پرائم منسٹر ہاؤس سے دیش کے بھونپو میڈیا تک لیک کیا جانا اور ارنب گوسوامی کا کسی اور کو اتنی اہم رازادانہ فوجی راز کا اظہار کرنا اور اس بات چیت کا واٹس ایپ چیٹ لیک ہونا، ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بالاکوٹ سرجیکل استرائیک سے تین دن چھوزرئیے، اگر کچھ گھنٹوں پہلے پڑوسی دشمن افواج کو اس خبر کی بھنک لگ جاتی تو پاکستانی سرحدوں کے اندر بالکوٹ ایر اسٹرائک کرنے گئے، تمام تر بھارتیہ ایر فورس بمبار جیٹ دشمن افواج کے ہاتھوں مارگرائے جاتے تو، آج عالمی دفاعی اعتبار سے بھارتیہ ایرفورس کی کیا عزت باقی رہ جاتی؟

ارنب گوسوامی واٹس آپ چیٹ لیک سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 14 فروری 2019 پلوامہ ملٹری کانوائے دہشت گرد حملہ موقع پر اور نیشنل میڈیا کرمیوں کے پہنچنے سے 20 منٹ پہلے ارنب گوسوامی کا موقع پر پہنچنا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ پلوامہ بی ایس ایف ملٹری کانوائے دہشت گردانہ حملہ کی خبر بھی پہلے سے ارنب گوسومی کو تھی اسی لئے 40 ویر بھارتیہ فوجیوں کے مارے جانے پر غم افسردگی کا اظہار کرنے کے بجائے ارنب گوسوامی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتخاب جیتنے اور ٹی آر پی بڑھت کمائی ہونے کا ایک سنہرہ موقع بتایا تھا۔ چونکہ 2019 عام انتخاب مودی جی نے، پلوامہ حملہ اور بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک کرواتے ہوئے ووٹروں میں، دیش بھگتی کے جذبات زبردستی بھڑکاکر انتخاب جیتا تھا، کیوں نہ ایسے فرضی واقعات کے سہارے جیتے گئے انتخاب کو کالعدم قرار دے دوبارہ انتخاب کروائے جائیں

ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ فرضی دیش بھگتی بڑھائے ھند و پاک 160 کروڑ دیش واسیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالے، جیتے گئے 2019 عام انتخاب کو رد کرنے اگر بھارتیہ عوام عدالت عالیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹاتے ہیں تو سابقہ ایک دو سال کے آئے بڑے فیصلوں کے تناظر میں، سپریم کورٹ سے بھی انصاف کی توقع کم ہی ہے۔ اس لئے چمنستان بھارت کی بدقسمتی اس پر اچھے دن کے وعدے سے راج کرتے ہوئے اپنی وناش کال پالیسیز سے، بعد آزادی ھند اب تک کی خراب معشیتی بدحالی کی طرف لے جانے والے ان سنگھی حکمرانوں سے بھارت ماتا کو مکت یا آزاد کروانا وقت کا اہم تقاضہ ہے یا نہیں؟

خصوصا 2019 کے ایک ایسے عام انتخاب، جس پر پہلے سے انتخابی نتائج بی جے پی کے حق میں اثر کرسکنے والے پروگرام ترتیب دئیے ای وی ایم طرز انتخاب بھاری جیت دکھائے مقتدر حلقوں کے، الزامات کے پس منظر میں، 2019 عام انتخاب ہی کو رد کئے جانے پر تدبر یا تفکر ہونا چاہئیے؟ ایسے فکر انگیز لمحات میں جہاں ایک طرف کروڑوں کسان موجودہ کرشی قانون کے خلاف، اپنی بقاء کی جنگ لڑتےسراپا احتجاج دہلی میں گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے ڈیڑہ ڈالےموجود ہیں تودوسری طرف، اس دیش کی سب سے بڑی اقلیت 25 کروڑ ہم مسلم آبادی، پارلیمنٹ اپنی اکثریت کے بل پر سنگھی مودی حکومت کے پاس کئے، مسلم مخالف قانون، سی اے اے، این پی آر اور این آر سی پر ایک سال قبل شروع کئے،

اور بعد میں کورونا قہر کہرام کی وجہ التوا میں رکھے گئے، بھارت گیر شاہین باغ طرز احتجاج کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ اس کے لئے لاکھوں باشندگان ھند پر مشتمل تعلیم یافتہ سول سوسائیٹی افراد کی ذمہ داری کیا نہیں بنتی ہے؟ کہ وہ کروڑوں دیش واسیوں کو، ان سنگھی حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کرائیں؟ مانا کہ 2019 عام انتخاب ملی جیت کے بعد 2024 تک انہیں ھند پر جمہوری طرز حکومت کرنے کا اختیار ہے لیکن کسی بھی جمہوری طرز منتخب حکومت کو، دیش کی پینسٹھ سالہ عوامی املاک کو بیجنے اور دیش کو اپنی وناش پالئسیز سے معشیتی طور دانستہ برباد کرنے کا حق نہیں دیا

جاسکتا ہے۔ چمنستان بھارت کی ترقی انتی چین و شانتی کو دیمک کی طرح چاٹ کھاتی اس سنگھی مودی حکومت سے چھٹکارہ حاصل کرنے ہم مسلم دلت وپچھڑی جاتی کے کروڑوں بھارتیوں کو ان احتجاج کرتے کسانوں کے ساتھ سراپا احتجاج بن، ان سنگھی حکمرانوں سے بھارت ماتا کو مکت کرانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اب اگر ہماری اپنی تساہلی سے اگر سنگھی مودی حکومت اس کسان احتجاج کو ختم کروانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس دیش میں رہ رہے مختلف مذہبی ذات برادری والے ہم 133 کروڑ بھارت واسیوں کو، تین سے چار فیصد کم و بیش 5 کروڑ برہمنوں کا غلام بن کر صدا رہنا پڑے گا واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں