صحرائے کے ریگزاروں کا ایک انمول نگینہ 116

لیہ اد ب کا ایک سنجیدہ شاعر،مرتضی افسوس

لیہ اد ب کا ایک سنجیدہ شاعر،مرتضی افسوس

ضلع لیہ ،جنوبی پنجاب (سرائیکی وسیب ،تھل )کا ایک پسماندہ ترین ضلع ہے۔اورضلع لیہ تین تحصیلوں پرمشتمل ہے ۔تحصیل لیہ ،تحصل چوبارہ اور تحصیل کروڑ لال عیسن ۔لیہ ادب کا سنجیدہ شاعر مرتضی افسوس کا تعلق لیہ کی تحصیل کڑورلعل عیسن سے ہے اورسید غلام مرتضٰی شاہ جن کا قلمی نام مرتضیٰ افسوسؔہے۔مرتضی افسوس کو لیہ ادب میں ایک سنجیدہ شاعر کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔مرتضی افسوس کروڑ لعل عیسن میں 3 مارچ 1990 میں پیداہوئے۔ افسوس صاحب کوادب سے لگاؤ بچپن سے تھا ،مگر وقت کے ساتھ ساتھ سکول میں ادبی پروگراموں سے منسلک رہے،

اور اپنا تخیل پیش کرتے رہے ،وقت کے ساتھ ساتھ ادباء میں ان کو ایک مقام حاصل ہونا شروع ہوگیا۔ پھر انہوں نے باقائدہ طور پر سید مہدی علی نقوی (خیال امرروہی) سے شاگردی حاصل کی، اور باقائدہ شاعری کے اوزان و بحر سیکھنا شروع کردئیے۔ اور اگر ان کی نجی زندگی کے بارے دیکھا جائے تو افسوس صاحب کا تعلق ایک مڈل کلاس طبقہ سے ہے، اور ان کے اباؤاجداد (دادا سید دولت شاہ )قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے لیہ (کروڑ لعل عیسن)میں آباد ہوئے۔ اور افسوسؔ کا تعلق سادات گھرانے سے ہے۔ افسوس صاحب سیدعبدالجبارشاہ کے جانشین ہیں

۔اور افسوس صاحب جن کی مجموعہ شاعری کتاب ،لب ِافسوس کے نام سے2015ء میں اشاعت ہوئی ۔اورادبی حلقوں میں بے حد پسند کی گئی اور ان کی کتاب پڑھ کرہی انہیں لیہ ادب کے سنجیدہ شاعر کا خطاب ملا ،جوان کہ پہچان بن گیا اورانہیں عروج کی بلندیوں تک لے گیا، ادبی حلقوں میں آج ان کاذکر لازم سمجھا جاتا ہے۔اگر ہم ان کے کلام کی بات کریں(حوالہ کتاب ،لب افسوس) سب سے پہلے ان کی دعا پر بات کرنا بہت لازم ہے، ان کے اشعار، ان کی سوچ فکر اور دانش مندی کی عکاسی کررہے ہیں اور ان کا یقین اور علم اس قدر وسیع یے کہ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں

دولتِ خاص رَب تعالی دے
تیرا نائب ہوں فکر ِ بالا دے

دیکھ پائے حقیقت ِ اشیا
چشمِ بینا کو و ہ اجالا دے

ان اشعار کی گہرائی دیکھے کہ افسوس صاحب نے رب کائنات کے کلام (صورۃ فاتحہ)سے جڑ کرخالق کائنات سے ہم کلام ہورہے ہیں ۔ ان کی دعا میں الفاظ”یااللہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں، اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں” القرآنمعاشرے کے دکھ درد کوافسوس صاحب اپنا دکھ درد سمجھ رہے ہیِں اور خالق کائنات سے مدد مانگ رہے ہیں کہ میں آپ کا نائب ہوں ،یارب مجھے اس حقیقت تک پہنچا دے جس مقصد کے آپ نے مجھے تخلیق کیا ہے۔ مجھے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔مجھے ایسی چشم بینا عطا کر میں وہ ہردکھ غم دیکھ سکوں اومحسوس کرسکوں اور دکھ دردبانٹ سکوں۔افسوس صاحب کی شاعری میں دانش مندی،اخلاقیات،محبت اوران کے ہرحرف میں شائشتگی جھلک رہی ہے۔ افسوس صاحب ڈنکے کی چوٹ پر سچ بولنے اور لکھنے کے عادی ہیں اور سچ لکھنا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ وہ سچ چاہے وقت حکمران کے سامنے بولنا ہو یاپھروقت کے کسی بھی سوچ یذید کے سامنے، انہوں نے ہمیشہ بے خوف ہوکر سچ کہااورسچ ہی لکھا ،اورکبھی انجام کانہیں سوچا۔ ان کے چند اشعار۔۔

نکلتا سچ ہے شاعر کی زباں سے
کبھی ڈرتا نہیں کارِ جہاں سے

یہاں غربت کے مارے لوگ ہیں کیوں؟
کوئی تو پوچھ لے شاہِ زماں سے

ان اشعار سے آپ اندازکریں کہ علمائے دین بتاتے کہ ایمان کی تین حالتیں ہوتی ہیں اگر کہیں ظلم،زیادتی،گناہ شرک وغیرہ ہورہا ہے اسے طاقت سے روکیں ،اگر طاقت سے نہیں روک سکتے، تو اپنی زباں سے ضرور روکیں، اگر زبان سے بھی نہیں روک سکتے، تو دل میںبرے کو برا، اورظالم کو ظالم ضرور سمجھیں یہ ایمان کی تیسری حالت ہے، اور کمزور ترین حالت ہے مگر افسوس صاحب نے اپنی قلم سے(دوسری حالت) ظالم کو ظالم ہی کہا ، غلط کو غلط کہا، جہاد قلم میں اپنا حقیقی کرادار ادا کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں شاعر ہی دراصل وجہ انقلاب بنتے ہیں، معاشرے کی سوچ بدل دیتے ہیں، قوموں کو زوال سے عروج تک لے جاتے ہیں، اور مجھے بے خوشی ہے کہ افسوس صاحب کا شماربھی انہیں شعراء کرام میں ہوتا ہے۔ان کا کلام سبق آموز کلام میں شامل ہوتا ہے۔اوران کے کلام میں ایک امید ہے، کہ جلد وقت بدلے گا ۔
ان کے اشعار

شعور نو ہی یہ کہنہ نظام بدلے گا
ستم کے دور میں ظالم کا کام بدلے گا

متاحِ فکر وہنرسے تو کام لے اے دل ۔!
ترا ضرور ہے اسفل مقام بدلے گا

تیراغرور تجھے پرسہ دے گااے حاکم
کہ جس سمے ہی شعور غلام بدلے گا

افسوس اس امید کے ساتھ جہاد قلم کو جاری رکھے ہوئے ہیں کہ جلد یہ نظام بدل جائے یہ ظلمت کی اندھیری رات طلوع سحر میںبدلے گی اور ظالم کا نام ونشان مٹ جائے گا۔غلامی کا طوق جو آج ہمارے گلے میں پڑاہواہے۔ یہ جلد اترنے والا ہے ۔شعور کی ذرا سی روشنی آنے دو پھر دیکھناسب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ افسوس کو اس بات کا بھی بے حد افسوس ہے ۔

یہ شیدائی ہے طرزِ مغربی کا
مجھے شکوہ ہے اپنے نوجواں سے

کہ آج ہماری نوجوان نسل کو کیا ہوگیا کس گمراہی کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔اوراورپیغام محمدی کو چھوڑ کر غیروں کو اپنا میسحا سمجھ رہی ہے۔آخر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہو گا۔ہرشاعر افسوس جیسا تخیل اپنا لے تو انقلاب دور نہیں، حقیقت لکھنا ہی دراصل جہاد کا ایک جز ہے اور افسوسکے اسی جز کو اپنا مسکن بنایا ہے۔اور معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں سے باغی ہیں۔حق سچ کا الم اٹھائے جہاد قلم میں فرض ادا کررہے ہیں

۔بانی وسربراہ ،”انٹرنیشنل رائٹرزفورم پاکستان ”،ایڈیٹرانچیف ”ماہنامہ افکارافق انٹرنیشنل ”شہزادافق

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں