نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 119

سیات سے تعلق نہ بیک ڈور رابطے!

سیات سے تعلق نہ بیک ڈور رابطے!

تحریر:شاہد ندیم احمد
پا کستان کی سیاسی قیادت کا وطیرہ رہا ہے کہ سیاست میں انتشار پیدا کرکے فوج کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں،افواج پا کستان کی کوشش رہی ہے کہ سیاست سے دور رہا جائے ،مگر انہیں مداخلت پر مجبور کیا جاتا رہا ہے ،سر براہ افواج پا کستان بھی واضح کر چکے ہیں کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹاجائے ،فوج کا سیاسی عمل سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے ،حالیہ قانون سازی،انتخابی اصلاحات ،سیاسی اموریا نیب کے معاملات میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ،یہ کام سیاسی قیادت نے خود کرناہے ،پاک فوج کو سیاسی امور میں مداخلت کا کوئی شوق نہیں،موجودہ منتخب حکومت جو کہے گی ہم کریں گے،کل آپ حکومت میں آئیں گے تو ہم آپ کا بھی ساتھ دیں گے ،تاہم ملک میں کسی کو کوئی فساد برپا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ امر قابل مزمت ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے ایک طرف فوج کی سیاست میں مداخلت پر تنقید کی جارہی ہے تو دوسری جانب بیک ڈور رابطوں کی افواہیں بھی پھلائی جارہی ہیں،اس تنا ظر میں ایک بار پھرڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہ کسی قسم کے بیک ڈور رابطے یا چینل بروئے کار لائے جا رہیں،انہوں نے قیاس آرائیاں کر نے والوں کو تنبیہ کرتتے ہوئے کہاکہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں،ہمارے پاس سکیورٹی سے متعلق اندرونی اور بیرونی معاملات دیکھنے کا بہت بڑا فریضہ ہے، جو ہم پوری طرح سے سرانجام دے رہے ہیں،

اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ، تحقیق کے مطابق کوئی چیز سامنے لاسکتے ہیں تو لے آئیںاوردکھا ئیں کہ کون کس کو کال یابات کر رہا ہے، پاک فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، بغیر تحقیق کے الزام لگانا درست نہیںہے۔پی ڈی ایم کی جانب سے پاک فوج پر بے جا تنقید ایک سنگین معاملہ ہے،اس پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے کوئی ایسا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس میں نہ صرف فوج کی عزت محفوظ ہوسکے، بلکہ ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی و اضطراب کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے۔پاک فوج کے ترجمان کی وضاحتوں سے نہ حالات تبدیل ہوں گے

نہ ہی ملکی سیاست میں فوج کے کردار کے بارے میں شبہات دور کیے جا سکیںگے،اگر مان بھی لیا جائے کہ پاک فوج کی موجودہ قیادت ملکی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کی خواہش نہیں رکھتی ہے،تاہم اس کیساتھ تصویر کے دوسرے رخ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے جلاوطن رہنما میاں نواز شریف ویڈیو خطاب میںنام لے کر الزام تراشی کی تھی، ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کے عائدکردہ الزامات کی فوج کے ترجمان، آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی طرف سے تردید ضروری نہیں سمجھی ، ملک کے عام شہری کے پاس جس طرح آئی ایس پی آرکی بات نہ ماننے کا کوئی جواز نہیں، اسی طرح عوام کے پاس اس بات کا بھی کوئی عذر نہیں کہ نواز شریف کو جھوٹا قرار دیا جاسکے،جبکہ ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز افراد نے سنگین الزام تراشی پر خاموشی اختیار کرنا ہی وسیع تر ملکی و قومی مفادکے لئے ضروری سمجھ رکھاہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنانے والے در حقیقت دانستہ یا غیر دانستتہ طور پر ملک مخالف قوتوں کے ایجنڈے کا حصہ بن رہے ہیں ،تاہم پاک فوج کو بھی مصلحت کے حصار سے نکل کر آلہ کار بننے والوںکی سختی سے حوصلہ شکنی کرنا ہو گی ،یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں

کہ فوج کاامیج خراب کرنے سے ملک کا نقصان ہو گا ،اس کے باوجود الزام تتراشی کا مسلسل جاری رہنا حوصلہ افزائی کے مترادف ہے ، اگر فوج واقعی ملکی سیاست سے اس قدر لاتعلق ہے تو ترجمان ایک بار پھر قیاس آرائیوں سے پرہیز کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کیوں اپیل کر رہے ہیں کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے،یہ بار بار ترجمان کو سیاسی بیانات پر سوالوں کے جواب دینے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس طرح کی بیان بازی سے بالواسطہ طور سے خود فوج کا ترجمان ہی شبہ کو یقین میں بدلنے کا سبب نہیں بنتا کہ دال میں کچھ تو کالا ہے کہ جس کی پردہ داری ہو رہی ہے۔
پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کا معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے ایک فقرے میں سمیٹ کر ثابت کردیا جائے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں،تاہم پاک فوج کے ترجمان کو پی ڈی ایم سے درپردہ روابط کے بارے میںنامعلوم افراد کے بیانات کی تردید کرنے کی بجائے پی ڈی ایم کے سرکاری بیانیہ کو سختی سے مسترد کرنا چاہئے ،میاں نواز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک فوج پر براہ راست الزام لگانے سے باز نہیں آرہے

کہ موجودہ حکومت کو مسلط کیا گیا ہے ،اس بیانیئے پر فوجی ترجمان کی طرف سے سخت رد عمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، در اصل یہ تعریف و تنقید حسب منشاء کسی کے تابع ہے ،اگر مقتدر وقوتیں نہ چاہیں تو حکومت مخالف تحریک بھی نہیں چل سکتی اورچاہیں تو طویل دھرنے بھی دیئے جاسکتے ہیں،سیاستدانوں کے بدلتے رویئے بھی مقتدر قوتوں کے مرہون منت ہیں ، یہ مان لینے کے بعد کہ فوج کا سیاست سے تعلق نہ بیک ڈور رابطے ہیں، یہ جاننے کی خواہش دو چند ہوجاتی ہے کہ ایک دم سے اپوزیشن کے اُبال میں ٹھہراؤکیسے پیدا ہؤجاتا ہے؟ کیااس وقت بھی آئی ایس پی آر کی تردیدکا مقصد در اصل اپوزیشن کو شٹ کال دے کر وزیر اعظم ہاؤس کے مکین کو مطمئن کرنا تو نہیںہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں