صد فی صد پڑھا لکھا جرائم سے پاک گاؤں رسول پور پاکستان 161

پاکستانی سیاست میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے

پاکستانی سیاست میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے

محمد فاروق شاہ بندری
نقاش نائطی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بیچ کھانے والے سیاست دان کیا قابل معافی ہیں؟عمران خان نے پاکستان کو بیچنے والے سیاست دانوں کو طشت از بام کردیاہم تو بکنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔پاکستان کو بیچنے والے سوداگر آگے آئیں اور ہماری بولی لگا ہمیں خرید لیں پاکستانی ایم این اے کا اعلاناسلامی جمہوریہ پاکستان کی قانون ساز کونسل، سینٹ انتخاب کے موقع پر، پاکستان کی بڑی جمہوری سیاسی پارٹیوں کے نئے منتخب ہونے والے سینیٹر کی طرف سے، ایم این اے اور ایم پی ایس، سیاست دانوں کی خرید و فروخت کو روکنے کے لئے، میثاق جمہوریت شق 23 میں پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے، عہد کیا ہوا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کرپشن مکت کرنے عہد بند، پاکستان کو ترقی پذیری کی طرف گامزن کرنے سیاست میں آئے ان “خدمت خلق” کے دعویدار سیاست دانوں نے، آپسی ساز باز سے، سرزمین پاکستان کو کرپشن کی آماجگاہ بناتے ہوئے، معشیتی طور اسے تباہ و برباد کرنے ہی کی نیت سے، آپنے “خدمت حلق” اقدامات سے، ان دو تین دہائیوں کی سیاست میں، پاکستان کو لوٹ لوٹ کر، دوبئی برطانیہ اور امریکہ میں اربوں کھربوں کی جائیدادیں بناتے ہوئے، ایک طرف ان ترقی پذیر ممالک کو ترقی پذیری کی طرف گامزن کرنے میں ساتھ دیا ہے وہیں پر اپنی اس لوٹ کھسوٹ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو، عالم کےاور ملکوں کے مقابلہ، کس قدر تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے دیکھا جائے اور پھر ایسے کرپٹ سیاست دانوں کو، اپنے قیمتی ووٹ دیتے ہوئے، خود اپنے ووٹوں،اپنے ہاتھوں سے پاکستان کو تباہ و برباد کرنے میں ممد و مددگار ہوا جائے

پاکستان معرض وجود میں آئے، آزادی پاکستان کے ابتدائی تین چار دہوں کے بارے میں نابلد آج کی نئی نسل، سابقہ دو دیے کے، بڑی سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں پاکستان کو لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو معشیتی طور عالم کے یہود ونصاری والے مختلف مالیاتی ادارے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ IMF) اور عالمی اقتصادی بنک کے، کئی سو ارب قرضوں کی جنجیروں میں جکڑے پاکستان کو، معشیتی طور کس قدر تباہی وبربادی کے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے دیکھا جائے خبر کی جائے اور تحقیق کی جائے

عام طور پر ہوتا یہ کہ مختلف حکومتیں آئی ایم ایف سے قرض کی کڑوی گولی اس وقت لیتی ہیں جب انکے ملک کی معیشت کی حالت خراب ہو۔ کوئی بھی ملک معاشی حالت کی خرابی ایک حد تک تو برداشت کر لیتا ہے لیکن جہاں انہیں احساس ہو کہ اب معاملہ معاشی عدم استحکام کی طرف جا رہا ہے تب کسی بھی قیمت پر اس خرابی کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے، معاشی عدم استحکام بھی ایسے ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ دنیا کا ہر ملک اپنے ملک کے ترقیاتی کاموں کے لئے عالمی بنکوں سے سود پر قرض لیتا اور اپنے ملک کو ترقی پذیری کی دوڑ میں آگے کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دنیا کی سوپر پاور امریکہ بھی عالمی اداروں و دیگر ملکوں سے عالمی سطح پر مقروضیت کی بلندی پر متمکن ہے لیکن وہ تمام قرض لیکر امریکہ نے اپنی ملک کو صنعتی ترقی پذیری پر گامزن کر، اپنے ملک کی معشیت کو سنبھالا ہے

وزارت خزانہ پاکستان نے تحریری جواب میں بتایا ہے کہ دو سال کے دوران سرکاری اداروں کو 10 کھرب 14 ارب سے زائد کا نقصان ہوا، مالی سال 2017-18 میں پانچ کھرب 63 ارب 28 کروڑ کا نقصان ہوا 2018/19 میں چار کھرب پچاس ارب 84 کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا۔ تاہم گزشتہ سال عمران خان سرکار کے دور اقتدار میں، اداروں کے مجموعی خسارے میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔
پاکستان کی معیشت آہستہ آہستہ بہتری کی جانب رواں دواں ہے لیکن اس کی مکمل بحالی میں ابھی بہت وقت لگے گا اور یہی تحریک انصاف پارٹی کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے

ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ عام آدمی کو ملکی قرضوں یا خسارے سے کوئی غرض نہیں ہوتی وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ آٹے، چینی کی قیمت کیا ہے؟ اور روزگار کے مواقع کتنے ہیں؟معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے زرِمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے قرضوں کا حصول ضروری تھا اور یہ کہ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا کہ وہ پہلے سے نواز شریف اور زرداری کے دور حکومت کے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی اور ان قروض کے سود ادائیگی کے لیے نئے قرض حاصل کریں۔

_گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران 29 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے بیرونی قرضے لیئے گئے ہیں۔ جن میں سے 26 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں حاصل کیا گیا۔اعداد و شمار کے مطابق حاصل کردہ قرضوں میں سے 19 ارب 20 کروڑ ڈالر کی رقم پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ عمران خان نے بطور پرائم منسٹر عالمی بنکوں سے مجبوری میں کم و بیش چھبیس ارب بیس کروڑ ڈالر کے قرض حاصل کئے تھے اس میں سے تین چوتھائی یعنی کم و بیش انیس ارب بیس کروڑ ڈالر سابقہ پی پی پی اور لیگی حکومت دوران لئے قرضوں کو واپس کرنے کے لئے ، لئے گئے تھے_

_اسی بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے پیشِ نظر حکومت کے لیے نئے قرضوں کا حصول ناگزیر تھا، لیکن معیشت سے متعلق حکومت نے اگر کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ بیرونی تجارتی خسارے کو کم کرنا تھا_
_”پاکستانی تجارتی ( خسارہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں 20 ارب ڈالر تھا جو تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں 10 ارب ڈالر تک لایا گیا اور اب یہ خسارہ تقریباً تین ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ جو ایک بڑی کامیابی ہے”_
ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور بلند شرح سود کو ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے
دو سال کے عرصے میں ملک پر ساڑھے گیارہ ہزار ارب نئے چڑھنے والے قرضے کی ذمہ داری کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق نے کہا کہ اس کا ذمہ دار آئی ایم ایف اور اس کی دی گئی پالیسی کو ملک میں نافذ کرنے والے سابقہ حکومتی افراد ہیں انھوں نے کہا کہ ملک میں شرح سود کو بلند سطح پر رکھنے کی شرط آئی ایم ایف کی تھی جسے اسٹیٹ بینک نے پورا کیا تو اسی طرح روپے کی قدر میں کمی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی ایک بنیادی شرط تھی جسے بغیر کسی مزاحمت کے مان لیا گیا اور ملک کی کرنسی میں بے تحاشا کمی کی گئی۔

_قومی احتساب بیورو پاکستان کا سرکاری ادارہ ہے، جو بدعنوانی سے متعلق ہے۔ اس کے انگریزی نام (NationalAccountability Bureau) کا مخفف نیب (NAB) ہے۔یہ 16 نومبر، 1999ء کو صدارتی فرمان کے اجرا کے ذریعہ معرض وجود میں آی تھا۔ جو پرویز مشرف کے 12 اکتوبر، 1999ء کی فوجی اقتدار کے فوراً بعد ہوا تھا۔ “بدعنوانی کو ختم کرنے کا کام، بذریعہ بچاؤ، آگاہی، نگرانی، اور حربی، کا احاطہ کرتی ہوئی جامع طریق ہے”_

کیا یہ احتساب ادارہ نیب، سابقہ تین دہوں کے پی پی پی اور لیگی حکومت دوران لئے گئے قرضوں کے، پاکستانی ترقیاتی کاموں میں کتنے فیصد استعمال کئے گئے ہیں؟ اس کا محاسبہ کیا نہیں کرسکتا ہے؟ یہ اس لئے بھی ضروری ہے آج 22 کروڑ پاکستانیوں کے ٹیکس پیسوں سے پرانے قرضوں کے سود جو عالمی مالیاتی اداروں کو دئیے جارہے ہیں کیا ان قروض کی رقموں سے دوبئی اور برطانیہ میں جائیدادین تو نہیں لی گئی تھیں؟ اب موجودہ پرائم منسٹر پاکستان عمران خان صاحب، حالیہ ہونے والے سینٹ انتخاب میں انہیں ملنے والی ممکنہ جیت بعد، پہلے پارلیمنٹ اور اب سینٹ میں اپنی اکثریت کے بل پر، نئے قانون وضع کر، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لوٹ لوٹ کر بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں کھڑی کرنےوالے،خدمت خلق کے نام سے خدمت حلق کرنے والے کرپٹ سیاست دانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانا چاہتے ہیں اور یہ کرپٹ سیاست دان کسی بھی صورت،

عمران خان کو سینٹ میں اکثریت پاتے اور ان کے خلاف گاز گراتے قانون پاس کرتے دیکھنا نہیں چاہتے ہیں اسلئے خفیہ بیلٹ انتخاب کروانے کے بہانے اربوں روپیہ ایم این ایز کی خریداری پر لگاتے ہوئے،اپنی مرضی مطابق کرپٹ اور لٹیرے چور سینیٹرکا انتخاب کروانا چاہتے ہیں۔ یہ اب 22 کروڑ پاکستانیوں کا فرض منصبی ہے کہ ان کے اپنے ووٹوں سے منتخب ان ایم این ایز کو کچھ کروڑ کے عوض ضمیر فروشی سےروکتے ہوئے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مزید معشیتی طور تباہ و برباد ہونے سے روکیں، اور جس طرح سے انہوں نے جمہوریت کے تقاضوں کے تحت دس دس پندرہ سال ان لیگیوں اور پی پی پی والوں کو پاکستانی ریسورسز لوٹنے کا موقع دیا تھا اس لوٹ کھسوٹ سے تباہ حال پاکستان کو پڑوسی

دوست ملک چائنا اور برادر دوست ملک ترکیہ کے تعاون سے ترقی پذیری کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے پورے دس سال کا موقع عمران خان کو عنایت کریں۔جس طرح سے اسی کے دیے میں پاکستان کوعالمی کرکٹ کپ حصول کا اعزاز دلوانے والا مرد مجاہد عمران خان،اپنے دو ڈھائی سالہ دور اقتدار میں اسٹیلشمنٹ کے تعاون سے، برادر دوست عرب ممالک کی اسیری سے نکال عزت و توقیریت والے برابری کے اصول پر پاکستانیوں کو لاکھڑا کرنے میں کامیابی حاصل کی یے یقینا اللہ نے چاہا تو 2023 عقد عالم لوزين کے سو سال قید و بند سے آزاد ہونے والے برادر ملک ترکیہ کے، خلافت عثمانیہ کے شاندار و لازوال دور اسلامی کی طرف گامزن کرتے وقت میں، عالم کی اولین مسلم ایٹمی طاقت پاکستان کو بھی ترکیہ کے ساتھ عالم کی علمبرداری کا شریک بننے کا موقع عنایت کریں۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں