’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 116

’’ویلنٹائن ڈے‘‘

’’ویلنٹائن ڈے‘‘

تحریر: اکرم عامر
دنیا بھر میں قوموں کی غلامی میں سب سے خوفناک قسم ذہنی غلامی ہے، جو نسلوں کے بعد قوموں کی تباہی کا سبب بنتی ہے جب نسل نو بگڑ جائے تو اس کی آنے والی ملت و قوم تباہ و برباد ہو جاتی ہیں، اس کی بڑی وجہ دنیا میں فرسودہ روایات کی بہتات ہے، جسے ہم بغیر تحقیق کے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں، پھر اس کو اتنا عروج پر پہنچا دیتے ہیں کہ وہ قوموں کی روایت، رسم، رواج اور پھر ثقافت سی محسوس ہونے لگتیں ہیں، انہی میں ویلنٹائن ڈے بھی شامل ہے، جو 14 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑے جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، اس دن کی تشریح شروع کروں تو اس حوالے سے بہت سی روایات ہیں، جو ایک کالم میں لکھنا ممکن نہیں۔ تاہم ایک روایت ہے کہ ویلنٹائن ڈے بت پرستوں کی رسم ہے،

جس نے یورپ سے جنم لیا، زمانہ قدیم میں غیر شادی شدہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک تہوار منایا کرتے تھے، لڑکیاں محبت کے خطوط لکھ کر گلدان میں جو سرخ گلاب کے پھولوں میں رکھا ہوتا تھا ڈال دیتی تھیں، اسے محبت کی لاٹری کا نام دیا جاتا تھا، روم کے نوجوان لڑکے اس گلدان سے اپنی لاٹری نکالتے تھے، جس لڑکی کے نام کا خط لڑکے کے ہاتھ لگتا وہ لڑکا اس لڑکی سے کچھ عرصہ بعد دن کا تعین کر کے کورٹ میں شادی کر لیتا، اس دوران شادی سے پہلے پریمی جوڑے آپس میں ہم آہنگی، راہ و رسم اور محبت کو بڑھانے کیلئے ملاقاتیں کرتے تھے، یہ رسم ختم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی گئی، جسے سینٹ ویلنٹائن ڈے کا نام دے دیا گیا، اس بیماری نے حالیہ چند سالوںمیں پاکستانی نوجوان نسل کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کی وجہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اس فرسودہ رسم کی بیجا تشہیر ہے۔
جیسے جیسے یہ دن قریب آ رہا ہے، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پریمی جوڑوں اور عاشق مزاجوں نے اس دن کو منانے کیلئے کئی دنوں سے تیاریاں شروع کر رکھی ہیں، چھوٹے بڑے شہروں میں پھولوں بالخصوص لال گلاب، دل نما کھلونے، کارڈز، دل کی طرح بنے چاکلیٹ سمیت ویلنٹائن ڈے پر پریمی جوڑوں کیلئے راحت و تسکین کا باعث بننے والی لا تعداد اشیاء کو دکانداروں نے سٹالوں کی صورت میں سجا دیا ہے، جہاں سے اس دن کو منانے والے جوڑے بڑی تعداد میں خریداری میں مصروف ہیں جو خرید کردہ تحفے 14 فروری کو ایک دوسرے کو تقسیم کریں گے اور ویلنٹائن ڈے منائیں گے۔
موجودہ دور میں ’’ہیر رانجھا، لیلہ مجنوں، سسی پنوں، شیری فرہاد‘‘ جیسی محبت تو نا پید ہے لیکن موجودہ دور میں رسمی عشق و محبت اور ویلنٹائن ڈے جیسی فرسودہ روایات نے ملک کے تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات کو بری طرح اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے، جس کے نتیجہ میں کئی بھیانک واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں، ابھی چند دن قبل ہی کی تو بات ہے جب لاہور کے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کے طالبعلم نے اپنی ہم جماعت لڑکی کو ’’پریم‘‘ کے چکر میں بغیر نکاح کے حاملہ کر دیا، صورتحال یہ تھی کہ فقرے لڑکے کے پاس اسقاط حمل کیلئے بھی پیسے نہ تھے تو لڑکی نے یونیورسٹی فیس کے بہانے رقم اپنے گھر سے منگوائی، اور اس رقم سے لڑکی کا پرائیویٹ ہسپتال میں اسقاط حمل کرایا جا رہا تھا

کہ حالت بگڑ گئی، نوجوان لڑکی کو لے کر سرکاری ہسپتال جا رہا تھا کہ اس کی موت واقعہ ہو گئی تو متذکرہ نوجوان لڑکی کی لاش ہسپتال میں بے یارو مددگار پھینک کر فرار ہو گیا، یہ اسی لڑکی کی لاش تھی جسے لڑکے نے راہ و رسم بڑھانے کے دوران سہانے سپنے دکھائے ہونگے، پولیس نے لڑکی کی لاش چھوڑ کر فرار ہونے والے اسامہ نامی نوجوان کے علاوہ اسقاط حمل کرنے والے پرائیویٹ ہسپتال کے عملہ سمیت کئی افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس طرح کے پریمی جوڑوں کے بغیر نکاح کے پیدا کردہ بچے آئے روز کسی نہ کسی شہر کے کچرے کے ڈھیر پر زندہ یا مردہ پائے جاتے ہیں، جنہیں جانور نوچ رہے ہوتے ہیں۔ایسے واقعات کی ایک وجہ کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی ریاست مدینہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کا مخلوط تعلیمی نظام، بے پردگی،

دین سے دوری اور تاخیر سے بچوں کی شادیاں ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں ایسے خطرناک واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، کیونکہ نوجوان لڑکے لڑکیاں آپس میں گپ شپ سے معاملہ دوستی تک بڑھانے کے بعد بغیر نکاح جسمانی تعلقات میں تبدیل کر لیتے ہیں اور پھر کئی دیگر شہروں میں لاہور کی طرح لڑکی کی میت کو بے یارو مددگار چھوڑنے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
اللہ پاک نے مرد کو جوان ہوتے ہی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور عورتوں کو پردے کا حکم دیا ہے اور عورتوں کو نا محرم سے کسی قسم کے تعلقات (Interaction) سے منع کیا گیا ہے

والدین کو لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح میں تاخیر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی دین اسلام کے احکامات کے مطابق تربیت و پرورش کریں، لیکن ہماری ریاست اور عوام مادر پدر آزاد اور جدیدیت (Moderation) کی لعنت میں مبتلاء ہو کر اسلام اور اسلامی احکامات پر عمل سے دور ہوتی جا رہی ہے جس کا خمیازہ بھی ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔اورآئے روز امت مسلمہ نئے نئے مسائل کا شکار ہو رہی ہے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی ذہنی غلامی کی تو ویلنٹائن ڈے کی فرسودہ رسم نے یورپی ممالک کی طرح امت مسلمہ کو بھی اس دن کی ذہنی غلامی میں مبتلاء کر دیا ہے، یہ دن جو 14 فروری کو دنیا بھر میں منایا جائے گا کے حوالے سے کفار کے ساتھ امت مسلمہ کی نوجوان نسل بھی تیاریوں میں مصروف ہے، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان بالخصوص پاکستان کے کپتان عمران خان جو کہ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار ہیں کو چاہئے کہ اس فرسودہ رسم و رواج پر فوری طور پر پابندی عائد کریں، اور اس دن کے حوالے سے سامان کی فروخت کو سرکاری طور پر ممنوع قرار دیا جائے، اس دن کے حوالے سے ہر طرح کی تقریبات کا انعقاد کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے، تب بنے گا ریاست مدینہ اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو جس شدت سے نوجوان نسل ویلنٹائن ڈے جیسی فرسودہ روایت کی لت میں مبتلاء ہو رہی ہے آنے والے چند سالوں بعد اس لعنت پر قابو پانا مشکل ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں