سچی جمہوریت میں جھوٹی سیاست !
تحریر:شاہد ندیم احمد
عوام کا مطالبہ رہا ہے کہ ملک سے نوٹوں، لوٹوں اور جھوٹوں کی سیاست خاتمہ ہونا چاہیے ،پی ٹی آئی کے دور اقتدارمیں بھی اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا وہی کلچر جاری ہے جو پی پی، (ن )لیگ کے دور میں جاری تھا، سیاسی پارٹیوں کی سیاست میں فرق سمجھنا دانشمندی نہیں، اگرعمران خان یوٹرن لیتے ہیں تو پی ڈی ایم بھی اپنے استعفوں اور سینیٹ الیکشن سے متعلق اعلانات پر وہی کچھ کررہی ہے،قوم پر ظالم جاگیردار اور کرپٹ سرمایہ دار طبقہ کسی نہ کسی شکل میں لوٹ اور جھوٹ کے زور پر مسلط ہے، ہماری سیاست میں جھوٹ، مکاری، دھوکا،
فریب کے علاوہ ڈھونڈنے سے بھی کچھ نہیں ملتا،اسی لیے ہمارا نظام سیاست بدنام اور اس میں اعتماد کا فقدان بھی ہے۔ ہماری سیاست میں معدودے چند سیاست دانوں کے شاید ہی کوئی ایسا نظر آئے گا کہ جس کے پیش نظر دولت نہیں،ورنہ نوے فی صد د دولت کے بارے میں ہی سوچتے، نوٹوں کو چومتے ،اسی کے لیے زندہ رہتے اور پھر اسی کے لیے مرجاتے ہیں۔ہمارے سابق حکمرانوں کا طرز عمل عوام کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں،میاں نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری نوٹوں کی سیاست کے سمبل کے طور پر مشہور ہیں، انہیں کے نقش قدم پر چلنے والے سیاسی
لوگ انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور انتخابات کے بعد تمام دعوے بھول جاتے ہیں ،عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، ان کا واحد ہدف انتخابات میں لگایے گئے سرمائے کو کئی گنا بڑھا کر واپس لینا ہے، یہ پہلے پیسہ لگاتے اور پھر بناتے ہیں، اس کا ثبوت سینیٹ کے انتخابات میں پیسے دینے اور لینے کی ویڈیو کا سامنے آنا ہے، یہ تو دیگ کے چاول کا ایک دانہ ہے،جبکہ ہمارا پوراہی انتخابی نظام طاقت اور پیسوں کے گرد گھومتا ہے۔ اراکین اسمبلی کے ویڈیو اسکینڈل کے بعد ہر ایک کے ذہن میں سوال اٹھانا درست ہے کہ خود بکنے والے لوگ عوام کے حقوق کا تحفظ کیسے کریں گے،؟ ایسے لوگوں سے کس طرح خیر کی امید کی جاسکتی ہے، سیاست کے اصولوں میں ایک بڑی بنیاد اخلاقی ساکھ کی ہوتی ہے
،جبکہ ہماری اخلاقی ساکھ تو بالکل ختم ہوچکی ہے ، ہم بحیثیت مجموعی کرپشن زدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔اس کرپشن زدہ معاشرے سے عوام نکلنا چاہتے ہیں،مگر کرپٹ سیاسی قیادت نکلنے ہی دیتے،جھوٹ کو سچ بنا کر ایسے پیش کیا جاتاہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی عوام یقین کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں،اس حوالے سے معروف برطانوی ناول نگار جارج آرول کی سیاست کے بارے میں کہی ہوئی بات ہم پر صادق آتی ہے کہ سیاست کی زبان کو اس طرح سے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ جھوٹ پر سچ کا گمان گزرے اور قتل معتبر لگے،جارج کی بات عمومی طور پر کتنی درست اور باقی دنیا کی
سیاست پوری اترتی ہے یا نہیں، لیکن ہماری سیاست کی بنیاد ہی جھوٹ پرہے، یہاں روٹی، کپڑا، مکان سے لے کرووٹ کو عزت دوکے نعرے تک سب جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے ، ہمارے اہل سیاست کی سفاکی کا یہ عالم ہے کہ اس سفاکی کو نئی حکمت عملی کا نام دیتے ہیں،اس حوالے سے پی ڈی ایم قیادت خاصے اَبائوٹ ٹرن لے ر ہے ہیں۔پی ڈی ایم قیادت کی حکومت مخالف تحریک جلسوں سے شروع ہو کر سینٹ الیکشن پر ڈھیر ہو گئی ہے ،آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان ہونیوالے ٹیلیفونک رابطوں میں فیصلہ ہوا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( ن) کا اتحاد ہر صورت برقرار رکھا جائیگا،
اپوزیشن جماعتوں کا حکومت گرانے کیلئے ہر آپشن استعمال کرنے پر مکمل اتفاق ہے، تاہم آصف زرداری ان ہائوس تبدیلی پر پرُاعتماد ہیں، پیپلز پارٹی لانگ مارچ سے قبل ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن استعمال کرنا چاہتی ہے ، اگر پیپلز پارٹی ان ہائوس تبدیلی کے لیے نمبر گیم پوری کرلیتی ہے تو پی ڈی ایم حمایت کرے گی ،جبکہ تینوں رہنماؤں نے حکومت پر مزید دباؤ بڑھانے کے لیے تحریک انصاف کے ناراض رہنماؤں سے بھی رابطوں کا فیصلہ کرلیا
ہے،پیپلزپارٹی نے ان ہائوس تبدیلی کے آپشن کی ناکامی کی صورت میں استعفوں کے آپشن پر مشروط آمادگی تو ظاہر کر دی ہے،مگر اندرون خانہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن)دونوں ہی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں ،اس وکٹ پر دونوں کو کچھ ملے گا یا نہیں ،تاہم بظاہر تحریک عدم اعتماد آنے کی صورت میں بھی حکومت جانے کے دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔یہ حقائق جاننے کے باوجود کہ حکومت اور اپوزیش اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے ،ایک دوسرے کو پھر بھی گرانے میں لگے ہوئے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی دعوئے کیے تھے کہ کرپٹ سیاسی قیادت کو جیل میں ڈال کر قوم کا پیسہ نکلوائیں گے ، لیکن قوم آج تک پیسے کی ریکوری کے منتظر ہیں ،
جبکہ پی ڈی ایم کے حکومت گرانے کے غبارے کی ہوا بھی کب کی نکل چکی ہے،اس وقت حکومت اور اپوزیشن گو مگو کی صورت حال سے دوچار ہے، کبھی ایسا لگتا ہے کہ حکومت گئی اور کبھی اپوزیشن کی بولتی بند ہو جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس صورت کے پیچھے بھی کوئی ان دیکھی قوت موجود ہے جو صاف چھپتی بھی نہیں اور سامنے آتی بھی نہیں کہ مصداق اپنا کام کررہی ہے۔ہماری سیاسی تاریخ صرف یہی نہیں ،بلکہ آج تک جتنے بھی منتخب اور غیر منتخب حکمران آئے ،سب ہی کسی نہ کسی شکل میںلٹیرے تھے ،، بس سب کا اپنا اپنا انداز تھا،مقتدر قوتوں کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، یہ جمہوریت کے لیے برا ہے،ایک عرصے سے سنتے آئے ہیں، لیکن ہماری سیاست میں مقتدر قوتوں کا کردار اہم رہا ہے ،
پی ڈی ایم قیادت بلخصوص مولانا فضلالرحمن اعلا نیہ کہتے ہیں کہ وہ جب اقتدار میں باقاعدہ نہیں ہوتے ،تب بھی وہی ہوتے ہیں، مولانا فضل الرحمن نے کچھ عرصے پہلے ہی کہا تھا کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے گی تو نام بھی لیا جائے گا، لیکن پھر اداروں کے غیرجانبدار رہنے کے بیان سے متعلق فوج کے استفسار پر مولانا نے ابائوٹ ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ ادارے ماضی میں مداخلت کر رہے تھے، اب نہیں کر رہے ہیں، یہ ہماری اخلاقی اور سیاسی صورت حال ہے کہ جس کے اندر عوام بدحال ہیں ، آخرسچی جمہوریت میں جھوٹی سیاست کب تک چلے گی ،اس صورتحال سے نکلنے کے لیے نوٹوں، لوٹوںاور جھوٹوں کی سیاست ختم کرنا ہو گی، اس کے بغیر ملک ترقی کرے گا نہ جمہوریت مضبوط ہو گی اور نہ ہی ہم آگے بڑھ سکیں گے۔