بے لگام افسر شاہی کو لگام ڈالنے کی کوشش!
تحریر:شاہد ندیم احمد
پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا وزیراعظم عمران خان کا مشن اور عزم ہے، لیکن تاحال بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی ہے ،اس کی بنیادی وجہ بیوروکریسی کا بے لگام رویہ ہے ،کیونکہ عوام و خواص کو براہ راست افسر شاہی سے ہی واسطہ پڑتا ہے، سرکاری مشینری کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی عوامی شکایات کے ازالہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس لئیعوامی شکایات کا بروقت ازالہ نہ ہونے پر وزیراعظم عمران خان نے بیوروکریسی کے بے لگام رویے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اطلاعات، زراعت، ایکسائز اور آبپاشی کے سیکرٹریوںسمیت پنجاب بھر کے 20 ڈپٹی کمشنرز کو عوام کو سہولیات کی فراہمی کیلئے کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے، جبکہ 43 اسسٹنٹ کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے ہیں،
وزیراعظم کی طرف سے کارروائی خوش آئند ہے،تاہم یہ گونگلوئوںسے مٹی جھاڑنے کے ہی مترادف ہے، اس لئے ضروری ہے کہ افسر شاہی کو واقعی عوام کا خادم بنایا جائے ،بصورت دیگرحکومت کے اڑھائی، پونے تین سال گزرنے کے بعدجس طرح عوامی مسائل جوں کے توں ہیں، اگر بیوروکریسی کے بے لگام رویئے کو لگام نہ ڈالی گئی تو باقی حکومتی مدت اسی بے ڈھنگی چال کی نذر ہوجائے گی۔تحریک انصاف حکومت کوشش کے باوجود اپنے بڑے بڑے وعدے پورے کرنے میںناکام نظر آتی ہے، اس کی بڑی وجہ بیوروکریسی کا حکومت کے ساتھ عدم تعاون بتایا جاتا ہے،ایک عام تاثر ہے کہ بیوروکریسی حکومت کے فیصلوں اور احکامات پر من وعن عملدرآمد میں غفلت برت رہی ہے۔
یہ سرکاری عمال کی سست روی یا نااہلی ہے کہ جس کے باعث عوامی شکایات میں اضافہ ہورہا ہے اور بدنامی حکومت کے حصے میں آرہی ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزراء بھی کابینہ میں اعتراضات اُٹھاتے رہے ،تاہم بیورو کریسی نے جب اپنی ڈگرنہیں چھوڑی تو وزیراعظم عمران خان نے نہ صرفانہیں لگام ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے ،بلکہ مؤثر کارکردگی نہ دکھانے والے سرکاری افسروں کے خلاف باقاعدہ ایکشن شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی ہدایت پر چیف سیکرٹری پنجاب نے اب تک صوبے کے 1586افسروں کے بارے میں جانچ پڑتال مکمل کی ہے،
جس کی روشنی میں پرائم منسٹرز ڈیلیوری یونٹ نے اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی ہے۔ وزیراعظم آفس کے اعلامیہ کے مطابق عوامی شکایات کا بروقت ازالہ نہ کرنے پر پنجاب بیوروکریسی کے 263افسروں کو وارننگ جاری کی گئی، سات کو شوکاز نوٹس دیئے گئے، 111سے وضاحت طلب کی گئی، 833کو آئندہ محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ،جبکہ 403کی کارکردگی کو سراہا بھی گیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سیاستدانوں کی طرح بیوروکریسی سے بھی عوام کو ہمیشہ سے شکایات رہی ہیں،عام عوام کے چھوٹے چھوٹے کام بھی مہینوں اور سالوں پر ٹال دیئے جاتے ہیں، جبکہ وہ دنوں میں بھی ہوسکتے ہیں،اگر بیورو کریسی کے دفاتر میں جاکر دیکھا جائے تو وہاںغریبوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں
بیورو کریسی کے رویوں میں فرعونیت دکھائی دیتی ہے ۔ وزیراعظم کے سٹیزن پورٹل میں جوشکایات آتی رہی ہیں، متعلقہ حکام نے زیادہ ترمعاملات ماتحتوں پر چھوڑے ، جنہوں نے ملی بھگت سے فیصلے کئے ،اس حوالے سے ڈیلیوری یونٹ اپنی رپورٹ دی ہے، جبکہ ایسے لوگوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہوگی جو کم علمی و کم فہمی کے باعث اپنی کوشش بے نتیجہ رہنے کے خوف سے سٹیزن پورٹل میں شکایات بھیجتے ہی نہیں رہے،جو لوگ بھیجتے رہے ہیں، ان کی شکایات کے ازالے کے بارے میں بھی خود ڈیلیوری یونٹ کے تحفظات سے پتہ چلتا ہے کہ شکایات کنندگان کتنے مایوس ہوئے ہوں گے، اس پس منظر میں سرکاری افسروں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال حکومت کا ایک مستحسن اقدام ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے سرکاری افسروں کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے لئے اپنی کارکردگی بہتر بنائیں،تاہم بحیثیت قوم ِ مجموعی طور پر ہم سب اخلاقی اور روحانی بحران میں مبتلا ہیں، عوام سے لے کر اہم مناصب پر فائز ذمہ دار حضرات تک میں اپنے فرائض کا احساس ختم ہو گیا ہے، آئین و دستور، قوانین،پولیس،عدالتیں اور انصاف کے ادارے موجود ہیں، وزارتیں اور وزارتوں کے ذیلی محکمے اور ادارے موجود ہیں، لیکن کوئی بھی ادارہ اپنا حقیقی کردار ادا کر نے کیلئے تیار نہیں ،اگر کسی ادارے کے افسران کو کہیں مسئلہ درپیش ہوجائے
توغیر فعال دارہ بھی ایک دم فعال ہو جاتا ہے،ہر ادارہ اپنے مفادات و مراعات کے لیے ایک گینگ اور مافیا کی طرح متحد و یکجان ہے، مگر عوام کے مسائل کے تدارک کے لیے نفاق ہے ،عوام ایک عرصہ سے افسر شاہی کے رویئے سے تنگ حکومتی پیش رفت کے منتظر تھے ،تاخیر سے ہی سہی، لیکن وزیر اعظم نے سرکاری افسران کی غفلت اور کام چوری کا نوٹس لے کر اصلاح احوال کے ضمن میں اپنی کوشش جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے،
اپوزیشن بھی سرکاری افسران کو قابو کر کے حکومتوں کو ناکام بنانے میں کو شاں ہے ،اپوزیشن کا کام ہی حکومت کو ناکام بنانے کیلئے تمام ہربے آزمانہ ہے،تاہم اگر وزیر اعظم بیورو کریسی کے خلاف کارروائی کی بجائے، ایسے منظم میکنزم میں تبدیل کر دیں جو افسران کی کارکردگی پر خودکار طریقے سے نظر رکھ سکے تو بے لگام افسر شاہی کو لگام ڈالنے کی کوشش کا میاب ہو سکتی ہے۔