نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 163

سیاست میں ہواکا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی !

سیاست میں ہواکا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی !

تحریر:شاہد ندیم احمد
پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں قومی اسمبلی اور صوبائی حلقوں کی دو دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے، این اے 45کرم سے تحریک انصاف کے امیدوار نے جمعیت علماء اسلام کے امیدوار کو ہرا کر پارٹی کو قومی اسمبلی میں مزید ایک نشست دی ہے، جبکہتحریک انصاف کی نوشہرہ سے پی کے 63کی صوبائی نشست مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اختیار ولی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ سب سے زیادہ ہنگامہ این اے 75سیالکوٹ اور پی پی 51وزیر آباد کی نشستوں پر رہا،جہاں متعدد مقامات پر جھگڑوں اور فائرنگ کے واقعات میں دو افراد مارے گئے ہیں۔

یہضمنی انتخابات دو جانیں لے کر اختتام پذیر ہو ئے، مگر اپنے پیچھے الیکشن کمیشن کی اہلیت، پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی، سیاسی جماعتوں کی جمہوریت پسندی اور عوام کی سیاسی تربیت کے بارے میں سوالات بھی چھوڑ گئے ہیں،جہاں تک انتخابات کے نتائج کا تعلق ہے تو تحریک انصاف کے امیدوار کی شکست ،حکومت کے خلاف ایک واضح تبدیلی کا اشارہ ہے، جو عوام میں مچل رہی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی ،مگر اڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں رہی ہے

حکومت نے عوام کے مسائل کے تدارک کی بجائے اپوزیشن کی کرپشن دکھانے اور بتانے میں وقت بربادکیا ہے، حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج واضح کررہے ہیں کہ صرف مخالفانہ پروپیگنڈے سے سیاسی جماعتیں ختم نہیں ہوتیں، انہیں ختم کرنے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ مقابل جماعت اپنی کارکردگی سے سابقہ حکمرانوں کی یاد عوام کے دِلوں سے محو کر دے،لیکن یہاں بُری معاشی کارکردگی کے باعث عوام کو پچھلے ادوار یاد آ رہے ہیں کہ جب انہیں ضروریاتِ زندگی کی اشیا اُن کے وسائل میں رہ کر مل جاتی تھیں،ایک ہی بات کب تک ہر مسئلے کا جواب ہو سکتی ہے کہ کرپٹ قیادت کواین آر او نہیں دوں گا

اور عوام صبر کریں ،ملک میں خوشحالی آنے والی ہے۔حکومت کی جانب سے زبانی کلامی عوام کو مطمئن کرنے کی حکمت عملی کو ضمنی انتخابات کے نتائج نے مسترد کر دیا ہے۔اس کی بجائے اگر عوام کو معاشی ریلیف دیا جاتا، پولیس اور دفتری نظام کو بدلنے کے لئے اصلاحات کی ہوتیں، روزگار کے مواقع بڑھائے ہوتے تو عوام نے ان کے گن گانے تھے، اگرزمینی حالات عوام کی زندگی اجیرن کر رہے ہوں تو اِدھر اُدھر کی باتوں سے زیادہ دیر تک اُنہیں بہلایا نہیں جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ا س ضمنی انتخابات میں جہاں حکومت کی کار کردگی پر عوامی رد عمل آیا ہے ،وہیں الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی کارکردگی کا بھی بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ سندھ کے انتخابات میں بھی تشدد کا عنصر دیکھا گیا اور پنجاب میں بھی اس کی خونریز شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ڈسکہ میں ضمنی انتخاب دو معصوم جانیں لے گیا، پوری قوم نے دیکھا کہ کیسے شہر میں مسلح جتھے دندناتے پھر رہے تھے، بھرے بازاروں میں فائرنگ کرتے

گذرنے کی وڈیوز سب نے دیکھی ،مگر پولیس اور انتظامیہ کہیں نظر نہیں آئی ، قانون شکنوں کو کسی نے نہیں پکڑا،پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر ہنگامے ہوتے رہے، ووٹوں کی گنتی کے وقت نظم و ضبط کا فقدان نظر آیا،14پولنگ اسٹیشنوں کا عملہ کئی گھنٹے غائب رہنے کی وجہ سے رزلٹ رکا رہا، ایسے انتظامات نہیں کئے گئے کہ رزلٹ بروقت ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچے،اس ضمنی الیکشن میںالیکشن کمشن بیوروکریسی کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا نظر آیا ہے ،الیکشن کمیشن کا انتخابات کراتے ہوئے بے بسی دیکھ کر خیال جنم لیتا ہے کہ یہ عام انتخابات کیسے شفاف اور پُرامن کرا پائے گا؟حکومت جب تک ادارے فعال اور مضبوط نہیں بنائے گی ،اس وقت تک ایسے واقعات اور نتایج آتے ہی رہیں گے۔
بلاشبہ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ اپوزیشن کیلئے بھی ضمنی انتخابات کے نتائج میں اصلاح کا سبق ہے ،تاہم حکومت اور اپوزیشن اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کو مود الزام ٹھرانے کو ہی تترجیح دیں گے۔اپوزیشن کے حوصلے بلند ہونے کے ساتھ دم توڑتی حکومت مخالف تحریک میں جان بھی پڑ جائے گی،اُس کی توقعات بھی بڑھ گئی ہوں گی کہ مارچ میں جو لانگ مارچ ہو گا، اُس میں عوام بڑے جوش و خروش سے شریک ہوں گے

۔اپوزیشن کے پاس اب یہ دلیل بھی آ گئی ہے کہ عوام نے حکومت کے خلاف اپنا فیصلہ دے دیا ہے، حکومت کے پاس اب رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس شکست سے کیا سبق سیکھتی ہے، اسی ڈگر پر چلتی رہتی ہے کہ جس نے اسے یہ دن دکھائے یا پھر اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے عوام کو معاشی ریلیف دینے کی راہ اختیار کرنے کے ساتھ اپوزیشن کی طرح انتخابات جیتنے کا ہنر بھی سیکھتی ہے۔
تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو ضمنی انتخابات کے نتائج پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنا چاہیے اوراپنی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے تو ملکی سیاست بہتری کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں ،لیکن ہٹ دھرمی اور غصے میں کیے گئے، فیصلے پچھتاوا بن جاتے ہیں،ضمنی انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات کے حتمی نتائج کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ ان ضمنی الیکشن کے نتائج رائے عامہ کو جاننے اور اس کا رخ متعین کرنے میں مدد گار ثابت ہونگے، حکومت کی عوام میں

مقبولیت میں کمی کی ایک بڑی وجہ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے میں ناکامی بھی قرار دی جارہی ہے ،جب کہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل تیسری بار اضافے سے ماہ فروری کے بل دیکھ عوام کی چیخیں نکل جائیں گے۔ موجودہ حالات کے تناظر میںحکومت کیلئے خود احتسابی کے عمل سے گزارنا دانشمندی ہوگی، اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو پھر عوام دوبارہ اپوزیشن جماعتوںسے رجوع کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، ملک میں سیاسی ہوا کا رخ بدلنے میں کتنی دیر لگتی ہے، یہ سب جانتے ہیں، لیکن یہ باتیں ذرا دیر سے ہی سمجھ میں آتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں