ماہِ شعبان اور شب برا ئـ ت 195

خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ21رمضان المبارک آپ کا یوم شہادت ہے

خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ21رمضان المبارک آپ کا یوم شہادت ہے

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان نبوت اور جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا اعلان ایمان ہم عمر ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ مذہب اسلام سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا تعلق صدیوں پر محیط ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سیرت مبارکہ کو افراط و تفریط کے ترازو میں بانٹنے کی بجائے اگر اعتدال سے لکھا اور بیان کیا جائے تودور حاضر میں پروان چڑھتی فرقہ واریت اور تشدد کافی حد تک کنٹرول ہو سکتی ہے۔ اس نیک جذبے کے پیش نظر آنجناب رضی اللہ عنہ کی سیرت کے چند پھول چنے ہیں۔
ولادت:
صحیح بخاری کے مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت مکۃ المکرمہ کی مشہور وادی شعب بنی ہاشم میں ہوئی۔ صحیح مسلم کے معروف شارح امام نووی قصہ ذی قرد کے تحت لکھتے ہیں کہ جن دنوں آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی آپ کے والد گرامی جناب ابو طالب اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے بلکہ کسی سفر پر تھے آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کا نام اپنے والد کے نام پر اسد رکھا۔ جب خواجہ ابو طالب واپس تشریف لائے تو انہوں نے آپ کا نام ’’علی‘‘ رکھا۔
نام و نسب اور القاب:
نام :علی بن ابی طالب۔ کنیت :ابو الحسن ، ابو تراب۔ القاب : اسد اللہ ، حیدر اور المرتضیٰ
خاندانی پس منظر:
مشہور مورخ امام ابن کثیر نے اپنی مشہور زمانہ کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں ، اور بنو ہاشم سرداران مکہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ حرم کعبہ کی جملہ خدمات ، چاہ زمزم کے انتظامی معاملات ، حجاج کرام کی مہمان نوازی ، ان کا اعزاز و اکرام اور معاونت کرنا بنو ہاشم کا طغرہ امتیاز تھا۔
خاندان :
والد: عبدمناف کنیت ابو طالب والدہ:فاطمہ بنت اسد برادران : طالب، عقیل اور جعفر طیار ہمشیرگان: ام ہانی ، جمانہ
ازدواجی زندگی:
1:حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان سے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت زینب الکبریٰ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہم پیدا ہوئیں۔
فائدہ : حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
نوٹ: بعض روایات میں تیسرے صاحبزادے حضرت محسن رضی اللہ عنہ کا نام بھی ملتا ہے۔
دیگر ازواج اور اولاد:
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے علاوہ مختلف اوقات میں کئی نکاح فرمائے اور ان سے اولادیں بھی ہوئیں۔
1:ام البنین بنت حذام: ان سے عباس ، جعفر ، عبداللہ اور عثمان 2:لیلیٰ بنت مسعود : ان سے عبیداللہ اور ابوبکر 3: اسماء بنت عمیس : ان سے محمد اصغر اور یحیٰ
4:صہباء بنت ربیعہ : ان سے عمر اور رقیہ 5:امامہ بنت ابی العاص : ان سے محمد اوسط 6:خولہ بنت جعفر : ان سے محمد بن حنفیہ
7: سعید بنت عروہ : ان سے ام الحسن ، رملۃ الکبریٰ اور ام کلثوم۔ نوٹ: یاد رہے کہ بیک وقت چار سے زائد نکاح نہیں فرمائے۔
قبول اسلام:
اسلام لانے میں سبقت کرنے کے مسئلہ پر سب سے راجح ترین تحقیق وہ ہے جسے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ و النہایہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے :آزاد مردوں میں سیدنا ابو بکر صدیق ، خواتین میں ام المومنین زوجہ رسول سیدہ خدیجہ الکبریٰ ، غلاموں میں زید بن حارثہ اور نوجوانوں میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سب سے پہلے ایمان لائے۔مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو تربیت میں آپ رضی اللہ عنہ پروان چڑھتے رہے گلستان نبوت میں کھلے اس گل کی ہر پتی سے بوئے نبوت مہک رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی عادات ، اخلاق ، اقوال و افعال میں نبوی تربیت میں ڈھلے ہوئے تھے۔
مکی زندگی :
اس میں اہل اسلام کے حالات اس قدر ناموافق ، خطرناک اور دشوار گزار تھے کہ آج یہ لفظ ابتلاء ، آزمائش اور امتحان کا استعارہ بن چکا ہے مشرکین مکہ دعوت اسلام کے پھیلاؤ سے بری طرح خائف اور پریشان تھے۔ ان حالات کی منظر کشی اور اسباب ہجرت بیان کرتے ہوئے امام ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں : قریش اپنی مخالفانہ کوششوں کے سلسلے میں آپس میں مشورہ کر رہے تھے بعض کی رائے یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو قید کر دیا جائے۔ جبکہ بعض یہ کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو دیس نکالا دیا جائے

اور بعض کا مشورہ یہ بھی تھا کہ سارے قبائل مل کر یکبارگی حملہ کر کے آپ کو قتل کردیں۔سیرت حلبیہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو سازشوں کی اطلاع فرما دی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سفر کے انتظامات کرنے کاحکم دیا اور جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا: آپ میرے بستر پر لیٹ جانا۔ اور کچھ وقت کے لیے مکہ میں ہی ٹھہرنا اور لوگوں کی امانتیں ان تک پہنچادینا اس کے بعد مدینہ طیبہ پہنچ جانا۔
امام ابن سعد رحمہ اللہ نے طبقات میں لکھا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق لوگوں کی امانتیں حوالے کر کے 13 بعثت نبوی ربیع الاول کے وسط میں مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور مقام قباء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
مدینہ طیبہ میں :
مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں ہر لمحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ صحابہ کرام جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ان کے پاس رہنے کے لیے مکان ، پہننے کے لیے نئے لباس اور کھانے کے لیے خوراک کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس وجہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کا تعلق قائم کرایا۔ تاکہ انصار مدینہ اپنے مہاجر بھائیوں کی ہر ممکن امداد کر سکیں۔ اس موقع پر سیرت نگاروں نے بہت تفصیل سے لکھا ہے کہ کس مہاجر کی کس انصاری سے مواخات قائم ہوئی ؟ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں مناقب علی بن ابی طالب کے تحت لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نیحضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فرمایا :آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں۔
غزوہ بدر میں:
2 ہجری 17 رمضان المبارک کو بدر کے مقام پر کفر و اسلام کا پہلا معرکہ لڑا گیا۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غلبے کے وعدے شامل حال رہے۔ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ کفار قریش کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ میدان میں آئے۔ ان کے مقابلے میں پہلے چند انصاری نوجوان آئے۔ کفار نے کہا کہ ہم اپنے مدمقابل قریشیوں سے لڑیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ، چچازاد حضرت عبیدہ بن حارث اور اپنے چچازاد حضرت علی بن ابی طالب کو رزمگاہ میں کودنے کو کہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے شیبہ کو

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ کو موت کے گھاٹ اتارا،اس کے بعد آپ نے نضیر بن حارث کو بھی تہ تیغ کیا۔جبکہ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ جانبازی سے لڑتے ہوئے شہادت کا جام پی گئے۔ اسلام کے اس عظیم معرکہ میں مہاجرین کا جھنڈا جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تھا۔جنگ بدر کی غنیمت جب تقسیم ہونے لگی تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو ایک اونٹنی ، ایک اعلی تلوار جسے ذوالفقار کہا جاتا ہے(یہ تلوار پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے پسند فرمائی تھی لیکن بعد میں آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عنایت فرما دی)
حضرت فاطمہ الزہرا سے شادی:
2 ہجری غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا۔مسند احمد میں ہے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : جب میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اپنے نکاح کا پیغام دینے کا ارادہ کیا تو میں نے (دل میں) کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، پھر یہ کام کیسے ہو گا؟ لیکن اس کے بعد ہی دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا خیال آگیا۔ لہذا میں نے حاضر خدمت ہوکر پیغام نکاح دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال فرمایا : تمہارے پاس (مہر میں دینے کے لئے) کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری زرہ کہاں گئی؟ میں نے عرض کی : وہ تو موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو (فروخت کرکے مہر میں) دے دو۔
غزوہ احزاب میں:
5 ہجری شوال میں غزوہ احزاب جسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے، پیش آیا۔ دشمن کی دس ہزار کی فوج خندق کے قریب آ کر رک گئی، اور تعجب سے کہنے لگی: یہ نئی جنگی تدبیر ہے عرب اس سے واقف نہیں۔اس کے بعد وہ خندق کے ایک تاریک اور تنگ راستے سے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے : دشمن کی فوج میں عمرو بن عبدود نامی ایک بہادر سپاہی بھی تھا جس کے بارے مشہور تھا کہ وہ تنہا ایک ہزار شہسواروں سے لڑ سکتا ہے ، اس نے اہل اسلام کو لڑنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: من یبارز؟ کوئی ہے تم میں جو مجھ سے لڑنے کی ہمت رکھتا ہو؟ اس کے مقابلے میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے عمرو! کیا تو نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا

کہ اگر کسی قریشی نے مجھے دو چیزوں کی دعوت دی تو میں ایک کو ضرور قبول کروں گا؟ اس نے کہا کہ ایسے ہی ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ ، اس کے رسول اور اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ عمرو نے حقارت آمیز لہجے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: پھر میں تمہیں مقابلہ آرائی کی دعوت دیتا ہوں۔ عمرو نے متکبرانہ لہجے میں کہا : بچے !میں تجھے قتل نہیں کرنا چاہتا۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے دشمن دین کی رعونت کو خاک تلے روندتے ہوئے فرمایا:

اللہ کی قسم!میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں۔ عمرو غصے سے لال پیلا ہوا ، گھوڑے سے نیچے اترا ، اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور تلوار سونت لی ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور تلوار کو سونت لیا۔ تلواروں کی جھنکار سے رزم گاہ گونج اٹھی ، دشمنان اسلام کے دلوں میں اسلام کی ہیبت اترنا شروع ہوئی اور اہل اسلام کے قلوب میں نصرت خداوندی کی امید؛ یقین کا روپ دھارنے لگی۔ کچھ ہی لمحوں میں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے عمرو جیسے دیوہیکل انسان کو خاک و خون میں ڈھیر کر دیا۔
صلح حدیبیہ میں:
6 ہجری ذوالقعدہ میں صلح حدیبیہ کا اہم واقعہ پیش آیا، (صحیح مسلم میں باب صلح الحدیبیہ کے تحت اس کی تفصیل موجود ہے) کفار کا معاندانہ رویہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا ، مسلمانوں کا حرم کی حدود میں داخلہ بند کر دیا گیا ، قریش نے سہیل بن عمرو کو بھیجا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کا ارادہ صلح کرنے کا ہے اس لیے ’’سہیل ‘‘کو بھیجا ہے۔ سہیل نے کہا کہ ہمارے درمیان معاہدہ تحریری طور پر آجائے ، اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو بلایا اور فرمایا کہ لکھو: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، سہیل نے کہا کہ رحمٰن کیا ہے ؟ میں نہیں جانتا۔ اس نے کہا کہ(عربوں کے دستور کے مطابق) باسمک اللھم لکھا جائے آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔

علی!یہی لکھ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا : یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے۔ اس پر سہیل نے کہا یہی تو جھگڑا ہے اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو بیت اللہ آنے سے کیوں روکتے ؟ اور جنگ کیوں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ تم جھٹلاتے رہو لیکن صحیح بات یہی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ سہیل نے کہا کہ محمد بن عبداللہ لکھا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی !پہلا لکھا ہوا مٹا دو۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ محبت کی دونوں رمزوں سے آشنا تھے کہ کبھی محبت کا تقاضا الامر فوق الادب ہے کہ حکم کا درجہ ادب سے زیادہ ہوتا ہے اور کبھی محبت کا تقاضا الادب فوق الامر ہوتا ہے یعنی حکم کے باوجود ادب کی انتہاء کو فوقیت دی جائے، اس لیے نے نہایت مودبانہ لہجے میں عرض کی: بھلا میں کیسے مٹا سکتا ہوں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ جگہ بتاؤجہاں رسول اللہ لکھا ہے میں خود مٹا دیتا ہوں۔
غزوہ خیبر میں :
7 ہجری محرم کے آخر میں یہ معرکہ شروع ہوا، مدینہ کے شمال مغرب میں خیبر نامی ایک یہودیوں کی ایک کالونی آباد تھی، یہ نہایت زرخیز مقام تھا یہاں پر یہودیوں نے چند قلعے بنا رکھے تھے۔ یہود دیگر قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر مدینہ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک عرصے سے جنگی اسلحہ جمع کر رکھا تھا۔ قبیلہ بنو غطفان اور قبیلہ بنو اسد کو نصف کجھوروں کے باغات کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا چکے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تیاریوں اور اسلحہ جمع کرنے کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر فرمایا اور خود 1400افراد پر مشتمل صحابہ کرام کے قافلے کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔

ادھر رئیس المنافقین عبداللہ بن اْبی نے کسی طریقے سے یہودیوں کو خفیہ طور پر مسلمانوں کی روانگی کی اطلاع دے دی۔پہلے تو یہود نے کھلے میدان میں لڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک میدان میں نکل آئے ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کو خیبر پہنچنے میں کچھ دن لگ جائیں گے،چند دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ رجیع میں فوجیں اتاریں، خیمے، مستورات اور بار برداری کا سامان یہاں اتار دیا گیا جبکہ اصل لشکر نے خیبر کا رخ کیا۔مقام صہبا ء پر پہنچ کر نمازِ عصر ادا کی گئی اور اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ستو نوش کیے۔

رات ہوتے ہوتے لشکر خیبر کے قریب پہنچ گیا تھا اور عمارتیں نظر آنے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکنے کا حکم دیا اور یہاں رک کر دعا فرمائی۔دوسرے دن خیبر پہنچے۔ یہود ایسی بزدل قوم تھی جب انہوں نے اہل اسلام کی جنگی تیاریاں دیکھیں تو کھلے میدان کے بجائے قلعہ بند ہو کر لڑنے لگے۔خیبر کی آبادی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی، ایک حصے میں پانچ قلعے تھے۔ 1:قلعہ ناعم2:قلعہ صعب بن معاذ3:قلعہ زبیر 4:قلعہ اْبی5: قلعہ نزار ۔ ان میں سے مشہور تین قلعوں پر مشتمل علاقہ نطاۃ کہلاتا تھا اوربقیہ دو قلعوں پر مشتمل علاقہ شق کے نام سے مشہور تھا۔خیبر کی آبادی کا دوسرا حصہ’’ کتیبہ‘‘ کہلاتا تھا۔ اس میں صرف تین قلعے تھے:1:قلعہ قموص (یہ بنو نضیر کے خاندان ابوالحقیق کا قلعہ تھا )2:قلعہ وطیح3:قلعہ سلالم۔ یہودیوں نے اپنی خواتین اور بچے قلعہ قموص اور نطاۃ میں جبکہ دیگر سامان و اسلحہ وغیرہ قلعہ ناعم میں محفوظ کرلیا اور ہر قلعے پر تیر انداز تعینات کردیے۔ مسلمانوں نے پانچ قلعوں کو ایک ایک کر کے فتح کیا

جس میں 50مجاہدین زخمی اور ایک شہید ہوئے۔قلعہ قموص سب سے بنیادی اور بڑا قلعہ تھا جو ایک پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے چند صحابہ کرام کو بھیجا لیکن یہ فتح نہ ہوا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’کل میں اسے جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ شکست کھانے والا اور بھاگنے والا نہیں ہے۔ خدا اس کے ہاتھوں سے فتح عطا کرے گا۔‘‘یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خواہش کرنے لگے کہ کاش یہ سعادت انہیں نصیب ہو۔ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا

کہ انہیں آنکھ کی تکلیف ہے اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ مبارک ان کی آنکھ پر لگایا آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھ کی تکلیف بالکل ختم ہو گئی۔دوسرے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ میدان میں اترے تو یہودیوں کے مشہور پہلوان مرحب کا بھائی حارث مسلمانوں پر حملہ آور ہوا مگرحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے ایک ہی وار میں قتل کر دیا اور اس کے ساتھی بھاگ گئے۔ اس کے بعد مرحب رجز (جنگی اشعار)پڑھتا ہوا میدان میں اترا۔ اس نے زرہ اور خَود پہنا ہوا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ نے بھی جواب میں رجز پڑھا اور مرحب کے سر پر اتنے زور سے تلوار کا وار کیا

جس سے خَود دو ٹکڑے ہو گئی اور مرحب دو دھڑوں میں کٹ گیا۔ اس کی ہلاکت کے بعد باقی یہودی خوفزدہ ہو کر قلعہ میں جا گھسے۔ حضرت علی عنہ نے قلعہ کا دروازے کو دونوں ہاتھوں سے پورا زور سے اکھاڑلیا۔ اس کے بعد آپ نے اس دروازے کو قلعہ قموص کے آگے والے گڑھے پر رکھا تا کہ اسلامی فوج گھوڑوں سمیت قلعہ میں داخل ہو سکے،اسلامی فوج داخل ہوئی، یہودی سہم گئے انہوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیے اورقلعہ قموص بھی فتح ہو گیا۔
خلفاء ثلاثہ سے محبت و معاونت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مبارکہ کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنے سے پیشرو خلفاء ثلاثہ (سیدنا ابوبکر صدیق ، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم) کے ساتھ برادرانہ برتاؤ اور مذہبی و سیاسی امور میں محبت و معاونت کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو اہل اسلام کے لیے مشعل راہ ہیں۔
نوٹ: یہ باب اپنے اندر بے پناہ وسعت رکھتا ہے۔ منصف مزاج مورخین اور محققین اسلام نے اس پر بہت کچھ لکھ دیا ہے۔
بطور خلیفہ پہلا خطبہ:
35 ہجری 24 ذوالحجہ جمعہ کے دن حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بطور خلیفہ جو سب سے پہلا خطبہ دیا ، وہ یہ تھا:بعد حمد و صلوٰۃ!اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو ہدایت دینے والا بنا کر بھیجا ہے جو خیر اور شر کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے ، اس لیے خیر کو لے لیجیے اور شر کو چھوڑ دیجیے ، اللہ تعالیٰ نے بہت ساری چیزوں کو حرمت کا درجہ دیا ہے ، ان میں سے سب سے زیادہ حرمت مسلمان کی ہے ، اللہ تعالیٰ نے توحید و اخلاص کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو مضبوطی سے باہمی ربط دیا ہے ، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں ، مگر یہ کہ دین اور احکام شریعت ہی کا یہ تقاضا ہو کہ مسلمان کا احتساب کیا جائے اور اس پر قانون شریعت جاری کیا جائے ،

کسی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں مگر یہ کہ ایسا کرنا واجب ہو چکا ہو ، عوام و خواص دونوں کے حقوق ادا کرنے میں جلدی کیجیے ، لوگ آپ کے سامنے ہیں اور قیامت پیچھے ہے جو آگے بڑھ رہی ہے ، اپنے آپ کو ہلکا پھلکا رکھیے کہ منزل تک پہنچ سکیں ، آخرت کی زندگی لوگوں کی انتظار میں ہے ، خدا کے بندوں اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، جانوروں اور زمین کے بارے میں بھی قیامت کے دن آپ سے سوال ہوگا۔ اللہ کی اطاعت کیجیے ، اس کی نافرمانی سے بچیے اگر خیر کا کام دیکھیں تو اس کو شروع کر دیں اور شر کو دیکھیں تو اس کو چھوڑ دیں۔( اس کے بعد سورۃ انفال کی آیت نمبر 26 تلاوت فرمائی) جس میں مسلمانوں کو اپنی سابقہ حالت اور موجودہ حالات کا موازنہ اور اس پر اللہ کا شکرادا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
مدینہ طیبہ کے اندرونی حالات:
تاریخ پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت مدینہ طیبہ کے حالات کس قدر نازک موڑ پر تھے ، خون مسلم اور اس کے وجود کی بے وقعتی انتہاء کو پہنچ چکی تھی ، خلیفۃ الرسول حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ روضہ نبوی کے پہلو میں مظلوماً شہید کر دیے گئے، قاتلین عثمان کی بے رحمی، وحشیانہ پن اور یلغار پورے زوروں پر تھی۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ ماحول کو جھلسا رہی تھی ، حالات انتہائی ناسازگار، پیچیدہ اور بہت دشوار تھے ، ایسے حالات میں حرمت مسلم پر نازک اور حساس عنوان پر بطور خلیفہ خطبہ دینا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ جیسے جری اور شجاع انسان کا ہی کام ہے۔
مرکز خلافت کی کوفہ منتقلی:
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ حکمت و تدبر اور شجاعت و عزیمت کے حسین امتزاج کے ساتھ چلاتے رہے ، جب مدینہ طیبہ میں سیاسی و عسکری ، انتظامی و تربیتی نظام کا چلانا بہت مشکل ہو گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مرکز خلافت کوفہ منتقل کر دیا تاکہ مدینہ طیبہ کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے والوں کو اس کا موقع ہی نہ ملے۔ مزید یہ کہ جغرافیائی طور پر انتطامی و ثقافتی مصلحت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ مرکز خلافت کوفہ کو بنایا جائے کیونکہ کوفہ ایسی جگہ پر تھا جو عرب ، فارس ، یمن ، ہند ، عراق اور شام کے لوگوں کی باہمی تجارتی گزرگاہ تھی ، مزید یہ جگہ علم و ادب ، زبان وبیان ، داستان وتاریخ نویسی ، شعر و سخن اور علم انساب کے حوالے سے بھی مرکزیت رکھتی تھی۔
اسوہ مرتضوی مشعل راہ ہے :
دشمن اسلام خواہ کسی بھی روپ میں ہو (کافر ، مشرک،بت پرست، یہودی، عیسائی، خوارج ، سبائی) حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کرم اللہ وجہہ اپنی حکمت و بصیرت اور معاملہ فہمی اور دانائی کی ایسی مثالیں چھوڑ گئے کہ اگر امت مرحومہ کو کبھی باہمی انتشار کا سامنا کرنا پڑجائے تو وہ کیا کرے ؟جمل و صفین کے حالات میں آپ کرم اللہ وجہہ کے بصیرت افروز فیصلے؛اہل اسلام کے آپسی معاملات کے حل اور باہمی اعزاز و تکریم میں امت کی رہنمائی کے لیے کافی و افی ہیں۔چنانچہ مناقب ابی حنیفہ میں امام موفق مکی رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے : جس نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی اس میں حق پر حضرت علی ہی تھے (غیر مسلموں کے بارے میں حق بمقابلہ باطل ہے اور اہل اسلام کے بارے میں حق بمقابلہ اجتہادی خطاء ہے) اگر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا طرز عمل موجود نہ ہوتا تو کسی کو بھی معلوم نہ ہوتا کہ جب مسلمانوں کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو اس وقت کیا کیا جائے۔ ؟
احادیث کی روشنی میں:
1: امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔
2: امام طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کروں۔
3: امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے :حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا، پھر فرمایا : یا اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
4: امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کی ہے :حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں دوست ہوں اْس کا علی بھی دوست ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام تھے ہاں مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
5: امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع ترمذی میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی یااللہ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔
شہادت باسعادت:
امام ابن کثیر نے البدایہ میں لکھا ہے کہ تین خارجی عبدالرحمان ابن ملجم الکندی ، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی نے حرم کعبہ میں بالترتیب حضرت علی ، امیر معاویہ اور عمرو بن عاص کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اور سترہ 17 رمضان 40 ہجری کی تاریخ متعین کی۔ مقرر کردہ تاریخ کے مطابق ابن ملجم کوفہ آیا اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے راستے پر بیٹھ گیا ، آپ صبح کی نماز کے لیے گھر سے نکلے اور لوگ بھی نماز کے لیے نکل کر آ رہے تھے اسی دوران اس بدبخت نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر مبارک کے اگلے حصے پر وار کیا، خون کی ایک دھار داڑھی مبارک تک آ پہنچی اس بدبخت انسان نے وار کرتے وقت یہ نعرہ بھی لگایا: لا حکم الا اللہ لیس لک ولاصحابک یا علی۔

اے علی!حکومت صرف اللہ کی ہے تمہاری یا تمہارے ساتھیوں کی نہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آواز دی کہ اس کو پکڑو ، ابن ملجم کو دھر لیا گیا ، جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو گھر لایا گیا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں اسی وار کی وجہ سے قتل ہو جاؤں تو بدلے میں اسے بھی قتل کر دینا اور اگر میں زندہ بچ گیا تو مجھے معلوم ہے کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اور اس کا مْثلہ(ناک ، کان ، ہونٹ وغیرہ اعضاء کو کاٹنا)نہ کرنا۔ بالآخر حملے کے کاری وار سے آپ جاں بر نہ ہو سکے او ر21 رمضان کو شہادت کا جام نوش کر گئے۔
بوقت شہادت تلاوت قرآن:
آپ نے کل چار سال نو ماہ تک خلافت کے امور سرانجام دیے ،21رمضان المبارک کو جان جان آفریں کے سپرد کی ۔ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے آخری وقت اپنے صاحبزادوں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو خوف خدا اور حسن عمل کی وصیت کی اور یہ سورۃ الزلزال کی آخری دو آیات کریمہ تلاوت فرمائی۔ فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خیرً یَرہ 0 وَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَرہ
نماز جنازہ:
آپ کرم اللہ وجہہ کی نماز جنازہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ، کوفہ ہی میں داراالامارۃ میں دفن کیے گئے۔ رضی اللہ عنہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں