نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 172

لواحقین کو بتادیں کہ پیارے کہاں ہیں !

لواحقین کو بتادیں کہ پیارے کہاں ہیں !

تحریر:شاہد ندیم احمد
پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا رہاہے، تاہم افواج پا کستان کی شب روز دہشت گردی کے خلاف کاروائیوںکی بدولت ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نہ صرف نمایاں کمی ہوئی،بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک سے دہشت گردی تقریبا ختم ہوچکی ہے،لیکن لا پتہ افراد کا مسئلہ تاحال حل طلب ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن )کے دور اقتدار میں لا پتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے وعدے ضرور کیے جاتے رہے، مگر اس معاملے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی، تحریک انصاف نے قوم کو یقین دلا یا تھا کہ حکومت میں آنے

کے بعد اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات کریگی،مگر اڈھائی بر س کی حکمرانی میں اس اہم انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لئے ابھی تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا یا جاسکا ہے ، لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک پیچیدہ،سنگین اور انسانی المیہ ہے ،اس اہم انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومتی سنجیدگی کے ساتھ قانون سازی کی اشد ضرورت ہے،یہ اہم مسئلہ بغیر قانون سازی کے حل نہیں ہو سکتا،اس لیے ضروری ہے کہ لاپتہ افراد کی مکمل تفتیش اور تحقیق کے بعد درجہ بندی کی جائے،جب تک معتبر تفتیش کے ذریعے درجہ بندی نہیں کی جائے گی، اس وقت تک لا پتہ افراد کے مسئلے کاحل ممکن نہیں ہے۔
یہ امرواضح ہے کہ ایک عرصہ دراز سے لا پتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سراپہ احتجاج ہیں، مگر اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے حوصلے اور دلاسے ہی دیئے جا تے رہے ہیں۔اس بار بھی وزیر اعظم کی ہدایت پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے احتجاج کرنے والے خاندانوں سے ملاقات میں انہیں یقین دلایاہے کہ وزیر اعظم اس مسئلے کو حل کرنے میں ضرو مدد کریں گے،مگر لاپتہ افراد کے لواحقین یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،کیو نکہ گزشتہ دور اقتدار میںبھی لاپتہ افراد کی بازیابی اور ان کے بارے میں معلومات جمع

کرنے کے لئے لاپتہ افراد کمیشن قائم کیاگیا تھا ، اس کمشن کے سربراہ جسٹس( ر) جاوید اقبال نے ایسے خاندانوں کی شکایات کا ریکارڈ بھی مرتب کروایا کہ جن کے عزیز ان کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے ،اکثر لاپتہ ہونے والے افراد میں ایسے لوگوں کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے، جو کہ مقامی سطح پر قبائلی جھگڑوں اور دشمنیوں کے باعث علاقہ چھوڑ کر کہیں چلے جاتے ہیں،ایسے معاملات بھی سامنے آئے کہ لواحقین جس شخص کو لاپتہ قرار دے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہونے کا شک ظاہر کر رہے تھے، وہ کسی دوسرے ملک میں موجود پائے گئے

اس کے ساتھ ایسے واقعات کی بھی کمی نہیں کہ جن میں سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا یا سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ کرنے والوں کے خلاف جوابی کارروائی کی صورت میں مارے گئے یا پکڑے گئے، جنہیں لاپتہ افراد قرار دیا جا رہا تھا، تاہم بہت سے لوگ اپنے افراد کی گمشدگی کا دعویٰ تو کررہے تھے ،مگرکمشن کو لاپتہ افراد کی تصدیق شدہ معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے ،اس سے یہ شبہ تقویت پکڑتا ہے کہ اس معاملے کو ملک دشمن عناصر ریاست کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لئے بھی استعمال کررہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا

جاسکتا کہ بلوچستان بیک وقت کئی طاقتوں کا پاکستان کے خلاف میدان جنگ بنا ہوا ہے ،بھارت کی سرپرستی میں یہاںسب سے زیادہ تخریبی سرگرمیاں ہو رہی ہیں،آرمی پبلک سکول پر حملے سے لے کر چینی قونصلیٹ کے حملے تک کے علاوہ دیگر دہشت گردی واقعات میں بھارتی ہاتھ ملوث ہے، دہشت گردی کے واقعات میں حملہ آوروں کی جب نشاندہی ہوئی تو معلوم ہواکہ ایسے مفقود الخبر افراد بھی ملوث ہیں کہ جن کے لواحقین ریاستی اداروں کی حراست میں ہونے کا بتاتے رہے ہیں، تاہم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لا پتہ افراد کے بارے میں لواحقین کو بتا ئے کہ ان کے پیارے کہاں ہیں، کونسا مجرم قید اور کون مرگیا ہے۔ ایک مہذب اور ذمہ دار ریاست اپنے شہریوں کے آئینی حقوق کی ضمانت دیتی ہے،ملک میں سیاسی

سرگرمیوں پر پابندی نہیں،بہت سے بلوچ سندھی اور پختون قوم پرست ریاست اور ریاستی اداروں سے اپنی شکایات کا اظہار کرتے ہیں،شکایات کو قانونی اور آئینی طور پر جائز ہونے کی وجہ سے ان کے ازالہ کی کوشش بھی کی جاتی ہے اور کئی بار شکایات کا سوفیصد ازالہ مشکل ہو جاتا ہے ، اس کی وجہ انتظامی ڈھانچے میں پائی جانے والی سستی‘ نااہلی‘ کرپشن اور اقربا پروری ہے، ایسا صرف بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتا،بلکہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے تھانوں‘ کچہریوں اور سرکاری دفاتر میں بھی بے سہارا ،کمزور لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ،لیکن یہ لوگ کبھی نہیں کہتے کہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کسی ادارے کے ایما پر ہو رہی ہے۔
اس میں شک نہیں

کہ بلوچستان بڑی حدتک محرومیوں کا شکار ہے،لیکن اس محرومی کی وجہ ریاست نہیں ،بلکہ وہاں کے سرداری نظام کا شکنجہ ہے جو ایک عام بلوچ کوریاستی فوائد سے محروم کرنے کے ساتھ ظاہر کروانے کی کوشش کرتاہے کہ اس کے دکھوں، محرومیوں اور تکالیف کی ذمہ دار ریاست ہے۔ ریاست اور بلوچ عوام کے درمیان بیگانگی ، اجنبیت کی دیوار عشروں سے اونچی کی جا رہی ہے،حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس اجنبیت کی دیوار کو گرائے اور غلط فہمیوں کا آزالہ کرنے کی کوشش کرے ،وزیر اعظم کی جانب سے سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اسلام آباد آنے والے بلوچ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار اور ان سے ملاقات کا وعدہ خوش آئند ہے ،تاہم ان دکھی خاندانوں کا مداوا بھی ضروری ہے۔

بلوچستان کے لا پتہ افراد کا پتہ چلا کر جہاں ان کے لواحقین کے اطمینان کا سامان کیا جا سکتا ہے، وہیں ریاستی مفادات کے منافی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرکے نشان عبرت بھی بنایا جاسکتا ہے،اگر حکومت قانونی طریقہ کار کے مطابق اس اہم انسانی مسئلے کو حل کرنے میں تاخیر کرتی رہی اور لا پتہ افراد کے لواحقین کو نہ بتایا گیاکہ ان کے پیارے کہاں ہیں توپھر اندرونی اور بیرونی تخریب کار اس اہم مسئلے کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں