’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 159

’’این اے 75 کا انتخاب دھند کی نظر‘‘

’’این اے 75 کا انتخاب دھند کی نظر‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 کا انتخابی معرکہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین جنگ کا سا تھا، جس کے پولنگ کے دن کھیلی جانے والی خون کی ہولی نے دو معصوم سیاسی ورکروں کی جان لے لی اور 8 افراد زخمی ہو کر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاء ہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں جماعتیں شہید ہونے والوں کو اپنی اپنی جماعت کا کارکن ظاہر کر رہی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں میں سے کسی بھی پارٹی کی کسی ذمہ دار شخصیت نے مرحومین کارکنان کے گھروں میں جا کر لواحقین سے تعزیت کرنے کی جسارت نہیں کی صرف دونوں اطراف سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ جاری ہے،

این اے 75 کا الیکشن جیتنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن نے خوب زور لگایا، انتخابی مہم کے دوران حلقہ میں پی ٹی آئی کے وزراء کی فوج اور اپوزیشن قیادت کے پڑائو سے ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے ملک میں ایک دوسرے کو فتح کرنے کے در پے ہیں، سوپولنگ کے روز اس کے نتائج بھی کوئی اچھے نہیں رہے، دن میں دو کارکنوں کی شہادت اور 8 کارکنوں کے زخمی ہونے کے بعد رات کو 20 پولنگ اسٹیشنوں کے عملے کا غائب ہونا اور پھر علی الصبح ریٹرننگ آفیسر کی عدالت میں غائب شدہ عملہ کا یکے بعد دیگرے پہنچنا اور نتائج جمع کرانے سے لگتا تھا

کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، جسے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی محسوس کیا اور حلقہ این اے75 کا سرکاری طور پر نتیجہ روک دیا گیا، اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں کہ دھاندلی کس نے کی، کیونکہ اپوزیشن حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے اور حکومت اپوزیشن پر یہی الزام دہرا رہی ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان معاملہ کی سماعت کر کے کیا فیصلہ کرے گا یہ کہنا قبل از وقت ہے تا ہم حکومت یعنی پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ وہ جیت چکی ہے، اور مسلم لیگ ن بھی یہی کہہ رہی ہے کہ ہم جیت چکے ہیں،

مسلم لیگ (ن) ساتھ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے 20 متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کرانے کا کہا تو اسے تسلیم نہیں کریں گے، شاید مسلم لیگ (ن) کو این اے 91 سرگودھا کا 20 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کے نتائج کی صورت میں جیتی ہوئی نشست 10 ماہ بعد ہارنے کا زخم اب بھی تازہ ہے، 2018 کے انتخاب میں این اے 91 سے مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی تین بار گنتی کے بعد 11 سو کے لگ بھگ ووٹوں سے جیتے تھے، اور الیکشن کمیشن نے (ن) لیگ کے ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی کی جیت کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا

اور وہ قومی اسمبلی کے ممبر بن گئے تھے تو ہارنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار عامر سلطان چیمہ نے عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے فریقین کی رضا مندی 20 پولنگ اسٹیشنوں جن کے بارے میں پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ان کے نتائج میں ریجنل الیکشن کمیشن آفس سرگودھا میں ردو بدل کیا گیا ہے پر دوبارہ الیکشن کرایا گیا تو پی ٹی آئی 20 پولنگ اسٹیشنوں سے 9 ہزار ووٹوں سے جیت گئی تھی اور اس طرح مسلم لیگ(ن) کے 10 ماہ ایم این اے رہنے والے ذوالفقار علی بھٹی قومی اسمبلی کی ممبر شپ سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اور پھر موصوف نے 20 پولنگ اسٹیشنوں پر الیکشن کے اقدام کو دوبارہ عدالت میں چیلنج کیا تھا جس کا تا حال کوئی فیصلہ نہیں ہوا، مسلم لیگ (ن) کو شاید خدشہ ہے

کہ این اے 75 کے 20 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کی صورت میں پی ٹی آئی این اے 91 جیسا اپ سیٹ نہ کر دے۔سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی این اے 75 کے خونی ضمنی الیکشن کی جس کے 20 پولنگ اسٹیشنوں کا عملہ 7 گھنٹے تک غائب رہا اور بعد میں اس عملے نے پورے حلقہ کے نتائج پر سوالیہ نشان پیدا کر دیا، اور اب معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے اور فیصلہ بھی الیکشن کمیشن نے کرنا ہے کہ اس حلقہ میں دوبارہ پولنگ ہو گی یا الیکشن کے عمل کو درست قرار دیا جائے گا، یا پھر متنازعہ 20 پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کروائی جائے گی،

تا ہم این اے 75 کے انتخابی عمل نے بہت سے سوالات پیدا کر دیئے ہیں، یہ پہلا الیکشن ہے جس میں 20 پولنگ اسٹیشنوں کے ریٹرننگ افسران غائب ہوئے جن کا نہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کو پتہ چل سکا اور نہ چیف سیکرٹری پنجاب کو حالانکہ پولنگ اسٹیشنز کے عملہ کی حفاظت کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں کی بڑی تعداد تعینات کی گئی تھی، سکیورٹی اداروں کی تعیناتی کے باوجود الیکشن کمیشن کے عملہ کا غائب ہو جانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟ جن کی موجودگی میں پولنگ اسٹیشنوں پر فائرنگ ہوئی، دو نوجوان شہید ہو گئے، کئی پولنگ اسٹیشنوں کے مقامات پر ہوائی فائرنگ کے واقعات ہوئے مگر فائرنگ کرنے والے ملزمان پھر بھی قانون کی گرفت میں نہ آ سکے،

این اے 75 کے ریٹرننگ آفیسر کہتے ہیں کہ رزلٹ میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا، مگر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ 20 پولنگ اسٹیشنوں کے تاخیر سے ملنے والے رزلٹ میں ووٹوں کی بڑی تعداد پر انگوٹھے کے نشانات نہیں ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دھند کے باعث 20 پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج تاخیر سے ملے شاید ریٹرننگ آفیسر یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں دیگر پولنگ اسٹیشنوں کے جو نتائج موصول ہوئے وہ متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں سے کئی میل دور تھے، اور ان کا عملہ بھی دھند میں ہی نتائج آپ کے پاس جمع کرا کر گیا، سو تاخیر سے نتائج جمع کرانے والے پولنگ اسٹیشنوں کے عملہ کا ہر فرد بھی کوئی نہ کوئی منطق سنا رہا ہے، کوئی گاڑی خراب ہونے کا کہہ رہا ہے تو کوئی دھند کا بہانہ بنا رہا ہے،

کوئی موبائل کی بیٹری چارجنگ ختم ہونے کا کہہ رہا ہے تو کوئی دن میں ہونے والے واقعہ کا خوف وجہ تاخیر بتا رہا ہے، توجہ طلب امر یہ ہے کہ دیگر عملے کی طرح پولنگ اسٹیشنوں کے عملہ کیلئے ٹرانسپورٹ اور سکیورٹی کا انتظام اسی طرح کیا گیا تھا جس طرح دوسرے پولنگ اسٹیشنوں کے عملہ کیلئے کیا گیا، 337 کوپولنگ اسٹیشنوں کا رزلٹ بروقت آر ایم ایس میں جمع ہونا اور 20 پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں تاخیر آخر دال میں کچھ کالا ضرور ہے، جس کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صاف کرنا ہے، اب این اے 75 کے عوام کے ساتھ ملک بھر کے عوام بالخصوص سیاسی ورکروں کی نظریں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر لگی ہیں، پی ٹی آئی قیادت کہتی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان جو فیصلہ کرے گا

اسے قبول کریں گے، جبکہ (ن) لیگ سیٹ کی جیت کے اعلان کے نتیجہ میں نتائج قبول ورنہ پورے حلقہ میں دوبارہ الیکشن کا شور کر رہی ہے، یہ گرداب اس صورت دبے گی جب الیکشن کمیشن آف پاکستان آزاد رہ کر فیصلہ کر پائے گا، وگرنہ حلقہ میں پائی جانے والی کشیدگی مزید نقصان کر سکتی ہے، وقت کا تقاضہ ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) الیکشن کو الیکشن سمجھ کر لڑیں نہ کہ جنگ سمجھ کر۔ ورنہ آئندہ انتخابات میں ہر حلقہ میں سیاسی پارٹیوں کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر الیکشن ووٹنگ سے نہیں خونی لڑائی سے لڑنا اور جیتنا پڑیں گے، ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایسے لڑائی جھگڑوں کی روک تھام کیلئے بھی الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کچھ کرنا ہو گا؟وگرنہ آنے والے وقت میں این اے 75جیسے واقعات دہرائے جاتے رہیں گے، اور پولنگ کے روز کارکنوں کا خون بہتا رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں