بچہ چور لفنگے کیا قابل معافی ہیں؟ 483

بچہ چور لفنگے کیا قابل معافی ہیں؟

بچہ چور لفنگے کیا قابل معافی ہیں؟

نقاش نائطی
بچہ چوری ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے جس کے بارے سوچ کر ہی گھن سی آتی ہے۔ ھندی فلموں میں درشائے مناظر جیسا عموما ایسے چوری کر حاصل کئے گئے بچوں کو، پہلے نشے کا عادی بنایا جاتا ہے پھر دانستا” ہاتھ پاؤں کاٹ کر معذور بنایا جاتا ہے اور پھر بھیک مانگنے کے کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ عموما معاشرے کے معتوب، چرس گانجا بیچنے والے افراد یا شہروں میں بھیک مانگنے کا دھندا کرنے یا کروانے والے افراد ہی بچوں کی چوری کر انہیں معذور بنا، ان سے بھیک منگوانے کا کام کرتے پائے جاتے ہیں لیکن جب سے اعلی تعلیم یافتہ مہذب کہے جانے والے، معاشرے کی صحت کے ضامن، ایک حد تک معشیتی طور خوشحال ڈاکٹر حضرات، کچھ پیسوں کے عوض اپنا ایمان دھرم بیچنے لگے ہیں۔ شروع شروع میں دوائی کمپنیوں سے آنعامات و کمیشن حاصل کر،ان پر بھروسہ کرنے والےسیدھے سادھے غیرتعلیم یافتہ مریضوں کے اعتماد کو دھوکہ دیتے ہوئے،

صرف چند روپیہ اپنے کمیشن کے لئے، انہیں غیر ضروری دوائیاں لکھ کر دینے لگے اور وہ حرام کمائی کھانے لگے تو دھیرے دھیرےان میں رہی سہی انسانیت دم توڑنے لگی اور وہ دل مانگے مور کی ڈگر پر چلتے ہوئے، اپنے اور اپنی اولاد کی آسائش کے لئے، اپنے مریضوں کو اور دھوکہ دے، انہیں غیر ضروری خون و بول و موشن ٹیسٹ کرواتے، اپنے مریضوں کو اور دھوکہ دے حرام کمائی کمانے لگے اور یوں چاہے ان چاہے حرص و طمع کے دلدل میں پھنستے دھنستے ہوئے، صرف اور صرف چند روپیوں کی خاطر،اپنے مریضوں کا نہ صرف غیر ضروری آپریشن تک کرنے اور کرانے لگے بلکہ اپنے معصوم مریضوں کو اندھیرے میں رکھ کر، ان کے علم کے بغیر یا انہیں کچھ رقم دے دلا کر، انکا منھ بندکر،

ان کے گردوں تک کو نکال کر امیر مریضوں کو بیچتے ہوئے،لاکھوں کمانے لگے تو انسانیت نے دھرتی پر دم توڑنا شروع کردیا۔ اور ان عصری تعلیم یافتہ مہذب ڈاکٹروں نے ایسے آوارہ اوباش لفنگوں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردی تاکہ یہ چرسی ٹائب اوباش لفنگے،گاؤں گاؤں گھوم کر، گلی محلے سے بچوں کو اغوا کر ان تک پہنچاسکیں۔ اور وہ ایرکنڈیشن آفیس اور ہاسپٹل میں رہتے ہوئے ان معصوم بچوں کے جسمانی اعضاء کو مالدار مریضوں کو بیچ کر، بے تحاشا حرام کمائی کماسکیں

اس مکروہ اور گھناؤنے انسانی اعضاء بیچنے یا بچہ چوری جیسے وباء معاشرہ جرم کے پیچھے یہی کچھ چرسی ٹایب دکھنے والے بے روزگار آوارہ اوباش لفنگے انسان ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ انتہائی پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ تمدنی ترقی یافتہ مہذب، شافی کل الامراض ڈاکٹر حضرات بھی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ معاشرے کے سیاست دان، بڑے رؤساء وقت، اور بڑے بڑے ہاسپٹل کے مالکان ہوتے ہیں جو ان ڈاکٹروں کو آگے کر، غریبوں اور ایسے اغوا شدہ یا چوری شدہ بچوں کے اعضاء جسمانی کو بیچ کر،پہلے سے ان کے پاس موجود ڈھیروں دولت کے انبار پر انسانیت کو شرمسار کرتی کچھ اور دولت جمع کرتے چلے جاتے ہیں
محلہ گاؤں میں،

کوئی چرسی لفنگا جب بچہ چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے تو فی زمانہ سائبر میڈیا پر آگہی پیدا کرتی بچہ چوری کی خبروں کے پیش نظر، وہ پہلے سے ادھ مرا نشے کا عادی چرسی، عوامی عتاب کا شکار بن یا تو موپ لنچنگ کا شکار ہوجاتا ہے یا آدھ مرا کسی تھانے دار کے لات بوٹ کھانے پولیس تھانے پہنچا دیا جاتا ہے لیکن ایسے گھناؤنے جرائم کے پیچھے اصل سازشی ذہن، گاؤں شہر کا کوئی مشہور ڈاکٹر یا سرجن یا کسی بڑے ہاسپٹل کا مالک کوئی سیاست دان اس کے اس کالے کرتوت کے بارے میں آگہی کے باوجود، معاشرے میں اپنےاثر و رسوخ اور اپنی دولت بے بہا کے دم پر نہ صرف صاف بچ جاتا ہے بلکہ معاشرے میں کمزوروں پر اپنا بازوئے دم دکھانے والوں کو بھی ان بڑے ڈاکٹروں اور روساء وقت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی اور یوں انسانیت کو لرزاتے یہ یا ایسے جرائم کا بازار وقت وقت سے سر اٹھاتا اور پھلتا پھولتا رہتا ہے وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں