سزا وجزا (ناول)قسط:4 150

سزا و جزا (قسط2)

سزا و جزا (قسط2)

عائشہ عبداللہ (سیالکوٹ)
ثریا بیگم کی بہو جیسے ہی ہوش میں آء تو اپنے کمرے کی جانب بھاگی،اور اندر جا کہ کمرے کو اندر سے لاک کر لیا۔۔۔اور شیشے کے سامنے آ کر رک گئ۔وہ کتنی ہی دیر شیشے کے سامنے کھڑی رہے۔۔۔اور اپنا معائینہ کر رہی تھی۔مگر اس لڑکی سے جسے آج بس وہ پیچھے سے ہی دیکھ سکی تھی۔اسنے اپنے سنہری بالوں پہ ایک بھر پور نظر ڈالی،پھر سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو دیکھا،تم اتنی خوبصورت ہو،
”پھر کیوں تمہارے ہیزبینڈ نے دوسری شادی کی””تمہارے دو بچے ہیں،یعنی کہ شاہ میر کو بچوں کی بھی کمی نہیں،خوبصورتی کی بھی کمی نہیں،پیسے کی بھی کمی نہیں پھر کیوووووں”
اس کے کانوں میں اپنی دوستوں کے الفاظ گونج رہے تھے۔اگر میں مر گء تو سب کہیں گے شاہ میر کی بیوی اتنی پیاری تھی پھر کیوووں۔۔۔۔اس کیوں کا جواب کیا شاہ میر دے سکے گا؟ نہیں ایسے اسکی میڈیا میں انسلٹ ہو گی۔۔۔۔وہ میڈیا کا ہیرو ہے ساتھ میرا ہیرو بھی ہے،میں اپنے ہیرو کی انسلٹ برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔پریشانی میں وہ کیا کیا سوچ رہی تھی وہ خود سمجھنے سے قاصر تھی۔ہر خطا کی ہوتی ہے کوء نہ کوء سزا۔۔
مگر میں خود ایک سزا ہوں بے خطا کی۔۔۔۔اسنے یہ کہتے ہو? قینچی اٹھائ۔۔۔اور اپنے بال کاٹنے لگی۔اسکے سنہری لمبے اور انتہاء خوبصورت بال کٹ کٹ کر زمین پہ گر رہے تھے،سارے بال کاٹ کر اسنے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنے پسندیدہ ٹریکس لگانے لگی۔۔جا تجھے معاف کیا،جا تجھے معاف کیا،اسنے اپنے بیگ سے ایک بلیڈ نکالا)پیار کی راہ میں مجھکو یوں چھوڑنے والے،(وہ بلیڈ کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی)
پیار کی راہ میں مجھکو یوں چھوڑنے والے،(بلیڈ کو وہ اپنی کلاء پہ رکھ کر دیکھ رہی تھی)
جا تجھے معاف کیا دل کوتوڑنے والے،(اسنے بلیڈ کو زور سے اپنی کلاء پہ مار دیا)کہ کہ دو بول یہ اک عمر گزاروں کیسے،اسکے ہاتھوں پہ پسینہ آگیا تھا جس کی وجہ سے بلیڈ لگ نہیں سکا،اسنے اپنا ٹریک بدل دیا۔۔۔۔کیوں سانس لوں، یوں ہی بس بے وجہ،(اسنے دوبارہ پوری قوت سے بلیڈ میرا)رہا کر مجھے میرے دردوں سے زرا۔۔۔ا۔(اورخون کی ایک دھار اسکی کلاء سے ابل پڑی تھی)دل جو عبادت کرے،،،،،،،،
یہ آخری الفاظ اسکے کانوں میں گ? تھے اور درد کی شدت سے وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی۔۔۔۔
تو جدا تو رک گء ہیں سینے میں سانسیں کہیں۔۔۔۔۔ٹریک چل رہا تھا،مگر اسکی سانسیں بھی رک رہی تھیں۔۔۔”چچی پلیز دروازہ کھولیں دیکھیں اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو میں۔۔م۔۔میں کیا کروں گی؟ آپ کے سوا اور کوء نہیں ہے میرا، پلیز خود کوسنبھالیں۔۔۔۔اللہ پہ بھروسہ رکھیں،جو گناہ کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے۔۔۔چاچو نے شادی کر کے گناہ نہیں کیا مگر دل دکھا کر گناہ کیا ہے انکو سزا ملے گی دیکھنا۔۔۔انکو وہ سزا ملے گی جو آپ چاہیں گی پرآپ انکے بجا? خود کو سزا دیتی ہیں۔۔۔۔خدا کیلئے پلیز دروازہ کھولیں۔۔” وہ سسکیاں لیتے ہو? رو رہی تھی۔۔۔”آپ کادروازہ بند ہوچکا ہے،پر خدا کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا،آپ نے نہیں کھولنا دروازہ نہ کھولیں۔۔۔”وہ اٹھنے ہی والی تھی زمین سے کہ اسے اندر سے انسانی جسم کے گرنے کی آواز آئ۔۔۔حاجرہ کے تو گویا پاؤں سے جان ہی نکل گء تھی۔۔۔اسے لگا جیسے وہ کبھی بھی یہاں سے اٹھ نہیں سکے گی،مگر اسنے ہمت کی اور باہر کو بھاگی۔۔۔۔اسنے فون اٹھایا اور چاچو کوملانے لگی۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔چاچو۔۔۔ چچی وہ۔۔۔۔اتنا کہ کر وہ رونے لگی۔
”کیا ہوا ہے؟ دوسری طرف سے آواز آئ۔وہ چچی نے دروازہ لاکڈ کرلیا ہے اور۔۔۔او۔۔ر۔۔۔ دروزے۔۔۔۔وہ ابھی اتنا ہی بول پاء تھی کہ آگے سے سننے والے الفاظ اسکی رہی سہی جان بھی نکال چکے تھے۔۔”اس پاگل نے پھر کچھ کرلیا ہوگا دیکھو جا کہ اسے،میں ڈرائیور کو بھیجتا ہوں ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔۔۔”کھٹاک سے فون بند ہو چکا تھا۔۔۔اور حاجرہ کو اپنی رہی سہی سانس بھی بند ہوتی محسوس ہونے لگی۔
?۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?
وہ اپنی مطلوبہ جگہ پہ پہنچ گ? تھے،
اور شہزاد کے فلیٹ کے مالک کے پاس پہنچ گ?۔”ہمیں شہزاد کے بارے میں جاننا ہے۔۔۔”ووشی ین نے کہا۔۔۔پلیز ہمیں ضروری جاننا ہے،”
مگر آپ لوگ ہیں کون؟ اور کیوں جاننا چاہتے ہیں؟ وہ آدمی بڑی مشکوک نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔میں اسکا بیسٹ فرینڈ ہوں دراصل اسکی ڈیتھ ہوگء ہے،میں اسوقت امریکہ میں تھا،مجھے اسکے پاکستان کے گھر کا ایڈریس چاہئے،پلیز آپ ہماری ہیلپ کردیں۔۔۔وہ التجائیہ انداز میں بولا۔۔۔
”آپ اندر آئیے۔۔”
”او۔۔ہ۔۔ وہ بہت شریف انسان تھا مجھے دکھ ہوا اسکی خبر سن کر۔۔۔۔ویسے اگر وہ تمہارا بیسٹ فرینڈتھا تو تمہیں اسکے گھر کا نہیں پتہ؟حیرت کی بات ہے”۔۔۔”میں چائینہ میں اسکے ساتھ تھا،میرا بیٹااسکے ساتھ بہت ٹائم گزار چکا ہے،کبھی ہم نے پاکستان کو ڈسکس نہیں کیا۔۔۔آء سوئیر پلیز ”اسکا انداز مزید التجایئہ ہونے لگا
اوکے میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔وہ آدمی کچھ سوچتے ہوے بولا۔
اور وہ اندر کی اور بڑھا،کچھ دیر بعد وہ ایک فائل لئے باہر آیا۔۔۔۔بہت تلاش کرنے کے بعد اسے شہزاد کا ایڈریس مل گیا،مگر صرف پاکستان میں شہر کانام ہی ملاکوء اگزیکٹ ایڈریس نہیں ملا،”وہ پاکستان،پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں رہتا تھا،۔۔اس سے زیادہ میں کچھ مدد نہیں کر سکتا،” اسنے یہ کہتے ہو? فائل بند کردی۔”تھینکس۔۔۔۔آپ کا احسان ہے ہم پہ یہ،وہ بہت زیادہ تشکرانہ الفاظ کہتے ہو?،باہر نکلے۔۔۔۔‘بابا! سیالکوٹ کو میں نے سرچ کیا ہے،مگر شہزاد انکل کا کیسے پتہ چلے گا؟۔۔۔”وہ لیپ ٹاپ بند کرتے ہوے بولا۔اب وہ لوگ واپسی کیلئے نکل چکے تھے،
”بابا! میرا پرامس کب پورا ہوگا؟ ”۔۔۔۔
کون سا؟
گلاس بریج والا؟
”اوہ۔وہ۔۔۔”ووشی ین ہنسنے لگا۔۔۔۔”کیا بات ہے بھء اکیلے اکیلے باپ بیٹا ہنسے جارہے ہو؟ ” یی فی ین پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اسے بتاتے انکا فون بجنے لگا۔۔۔
?۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?ڈرائیور کے آنے تک بہت دیر ہوگء تھی،حاجرہ نے ڈرائیور کو دروازہ توڑنے کا کہا۔۔۔۔۔
”شائستہ چچی نے پتہ نہیں کیا کرلیا ہے جلدی کرو تم۔۔۔”ڈرائیور دروازہ توڑ چکاتھا۔۔۔اور جب اسکی نظر بیہوش شائستہ پہ پڑی وہ فورا انکی طرف لپکی۔انکا کافی خون بہ چکاتھا،اسنے دڑایئور کے ساتھ مل کر انہیں اٹھایا اور باہر کی اور بڑھ گئ۔۔۔۔۔ثریا بیگم حاجرہ سے پوچھنا چاہتی تھیں کہ شائستہ کدھر ہے اسنے کیا کیا ہے؟ مگر وہ بس شائستہ کو لے جاتے ہو? دیکھ سکی تھیں اور۔۔آج انکا دل چاہا تھا وہ چیخیں،روئیں مگر انکی آواز،انکا درد،آنسوؤں سے بہ رہا تھا۔۔۔۔۔
شاہ میر تم کتنے احسان فراموش نکلے ہو۔۔۔۔وہ دوبارہ ماضی میں جا چکی تھیں۔۔۔۔‘امی جان ہم کام کریں گے اور شاہ میر کو پڑھائیں گے،ہم اسکی ہر خواہش پوری کریں گے،چاہیاسکیلئے ہمیں کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنی پڑے۔۔۔۔”انکا باپ ایک نوکری کرتا تھا،جس سے وہ اپنا گھر تو چلاسکا تھا مگر بیوی بچوں کے لیے کچھ پیچھے چھوڑ کر نہ گیا تھا،جس کی وجہ سے آج اسکے بچے خود مختار ہونے جا رہے تھے۔۔۔۔
شاہ میر اپنے بھائیوں کے رحم وکرم پہ تھا دونوں بھاء کماتے،
دن رات محنت کرکے شاہ میر کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرتے،جس پہ شاہ میر انگلی رکھ دیتا وہ بس شاہ میر کے نام ہو جاتی۔۔۔ہاں مگر اس لاڈ پیار میں انہوں نے اسے بگڑنے نہیں دیا تھا۔شاہ میر کو شہر سے دور ایک نامور ہوسٹل میں ڈالا گیاتھا۔کچھ عرصہ سکون سے گزرا اور تب ہی شاہ میر کی خواہشات بڑھنے لگیں،یہ جانے بغیر کے بھاء کیسے کماتے ہیں۔۔۔ اسکے بھاء کیسے بھی کرکے اسکی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے۔
ان ہی دنوں شاہ میر کی خواہشات نے اک نیا موڑ لیا۔۔۔ایک دن وہ بھاء سے کہنے لگا”بھاء سب اپنے گھر فون کرتے ہیں میرے گھر ایک فون نہیں ہے۔۔۔” اس کے کچھ عرصہ بعد دارلبشیر میں بھی پی ٹی سی ایل لگ گیا۔۔۔۔غرض ہر طرح سے اسکو خوش رکھنے کی کوشش کی گئ۔
کچھ عرصے میں شہزاد (بڑا بھائ)کی شادی کر دی گئ۔۔۔اور اسطرح اس گھر میں کچھ رونق لگ گئ۔۔۔۔۔نء دلہن کچھ ہی دنوں میں سمجھ گء تھی کہ اس گھر میں شاہ میر کی ایک خاص جگہ ہے اسلیے وہ بھی اسکی بہت خاطر داری کرتی۔اسکے ہاسٹل سے لا? کپڑے وہ خود دھو کر استری کرتی۔ انہیں خوشی ہوتی تھی کہ اس گھر کا بچہ علم حاصل کرنے جاتا ہے۔اور شاید یہی ایک وجہ تھی کہ سب شاہ میر کو بہت عزت دیتے تھے۔یوں ہی حالات بدلتے گ?۔۔۔
شاہ میر کء نء فرمائش۔۔۔” مجھے موبائل چاہئے” جو اس وقت کے پندرہ ہزار روپے کا تھا۔۔۔تب چونی۔۔اٹھنی۔۔اور ایک روپیہ سے بھی بچے بہت خوش ہوجاتے تھے۔۔اور یہ خواہش تو پندرہ ہزار کی تھی،ایک ہزار تو انکی تنخواہ نہیں تھی۔”شہزاد! رہنے دو کوء ضرورت نہیں ہے موبائل دلانے کی۔۔۔میں بتا رہا ہوں تم اسے بگاڑ رہے ہو۔۔۔”شاہ زیب نے کہا۔نہیں کوء بات نہیں چھوٹا بھاء ہے ہم اسکے باپ کیطرح ہیں۔۔۔تم رہنے دو میں لے دوں گا۔۔۔

”اچھا میں بریج والی بات بتا رہا تھا،وہ یہ تھی۔۔۔ایک دفعہ میں نے زہانگ کو بتایا کہ ہم ہنی مون سے واپسی پہ گلاس بریج پہ گ? تھے،تو اسوقت اسنے کہا کہ میں بھی گلاس بریج پہ اپنی وائف کے ساتھ ہی جاؤں گا۔۔۔۔مزے کی بات ہے وائیف آکر چلی بھی گء ہے۔۔۔اس بیچارے کا گلاس بریج ادھر کا ادھر ہی رہ گیا ہے۔۔۔۔” وو شی ین مزے لیلے کے بتا رہا تھا۔”پاپا! آپ میرا مذاق بنا رہے ہیں”نو سویٹ ہارٹ! میں ایسا کیوں کروں گا”
”آپ لوگوں نے تو میری شادی کا مذاق ہی بنا ڈالا ہے”تو تمہیں کس نے مشورہ دیا تھا پاکستانی سے شادی کرو ” یی فی ین فوراً بول اٹھی
(”شاید زرین شاہ (زوشی)کو جیسا چاہئیے تھا شائید میں ویسا نہیں تھا۔۔۔مجھے لگا تھا پاکستانی لڑکیاں وفادار ہوتی ہیں،مگر۔۔۔اسنے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔اسنے مجھسے خلع لے لی”وہ بہت اداس سا دکھنے لگا تھا۔۔۔)
(” میں نے زوشی کو سات ماہ میں ایک کڑوڑ کی شاپنگ کرواء ہے،تب بھی اسنے کہا کہ میں نے تو آج تک تم سے کچھ مانگا ہی نہیں)وہ اندر ہی اندر کڑرہاتھا۔”
(شاید پاکستان میں سب ہی ایسے ہوتے ہیں۔ وہ اب یہ سب سوچ سوچ کر بیزار ہونے لگا تھا مگر ہر بار سوچنا اسے اک نیا دکھ پہنچاتا تھا۔ اور شہزاد انکل بھی تو پاکستانی تھے۔۔۔۔کتنے اچھے تھے نہ وہ،اور اسکی بیٹی اگر کوء ہوگی وہ بھی بہت اچھی ہوگی میرا دل کہتا ہے۔”)اب وہ مسکراتے ہوے خود کو بہلاتے ہوے بولا۔وہ سوچوں سے باہر نکلا۔وہ لوگ ہانزو ائیرپورٹ پہنچ گ? تھے،واپسی کے سفر کیلئے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں