بیٹنی قبائل کا دھرنا اور حکومتی عدم توجہی
تحریر، نثاربیٹنی,,,
2009ء میں جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن “راہ نجات” میں جہاں دیگر اقوام بے گھر ہوئیں وہاں بیٹنی قبائل کو بھی گھروں سے نکلنا پڑا اور جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا،بیٹنی قبائل کے ہیڈکوارٹر جنڈولہ میں سینکڑوں دکانیں مسمار کی گئیں اور یہ علاقے دہشت گردی سے اچھے خاصے متاثر ہوئے،حکومت نے آپریشن کے بعد جنوبی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی علاقوں کی دہشت گردی سے متاثرہ عوام کو امدادی پیکجز دیے اور انکے نقصانات کا ازالہ کیا جس سے ان اقوام کے افراد کے زخموں پر کسی حد تک مرہم پٹی ہوئی لیکن ان علاقوں میں حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ تکالیف کا شکار ہونے والے اور دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر قوم بیٹنی قبائل کے
نقصانات کے ازالے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، دیگر اقوام کے ساتھ بیٹنی قبائل کے افراد کو بھی اپنے آبائی علاقوں کو خیرباد کہنا پڑا اور پڑوسی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت اور بنوں میں رہائش اختیار کرنا پڑی،اس دوران بیٹنی قبائل انتہائی نامساعد حالات کا شکار رہے لیکن انہوں نے ان حالات کاصبر و تحمل سے مقابلہ کیا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود انکی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا اور انکے لیے کسی بھی قسم کے ریلیف پیکج کا اعلان نہیں کیا گیا کسی بھی سطح پر شنوائی نہ ہونے کے بعد بالآخر بیٹنی قبائل نے تقریبا ایک ماہ پہلے احتجاجی مظاہروں اور
احتجاجی دھرنوں کا آغاز کیا،بیٹنی قبائل کے نوجوانوں اور مشران نے احتجاجی کیمپ اور دھرنے کا آغاز جنڈولہ کے مقام سے کیا جہاں 25دن احتجاجی دھرنا دینے کے بعد اب یہ احتجاجی مظاہرین ڈیرہ اسماعیل خان میں براجمان ہیں، پچھلے ایک ہفتے سے جاری احتجاجی دھرنے کے شرکاء حکومتی نمائندوں کے منتظر ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت ان سے مذاکرات کرکے ان کے علاقوں میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرے لیکن افسوس سے کہنا پڑے گا کہ بیٹنی قبائل جو دیگر اقوام کی طرح حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں ان کے ساتھ ابھی تک کسی بھی حکومتی سطح پر سنجیدہ مذاکرات نظر نہیں آ رہے جس سے بیٹنی قبائل میں مایوسی پھیل رہی ہے اور وہ حکومت کی اس عدم توجہی کے خلاف پشاور اور اسلام آباد تک جانے کا کا منصوبہ بنا رہے ہیں،
وقت کا تقاضا ہے کہ دیگر اقوام کے نقصانات کے ازالے کے ساتھ ساتھ بیٹنی قبائل کے نقصانات کا ازالہ بھی ہونا چائیے، حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے خلوص نیت سے کام لے اور بیٹنی قبائل کی طرف سے جاری احتجاجی دھرنے کے شرکاء کے ساتھ مذاکرات کرکے جنڈولہ سمیت دیگر بیٹنی علاقوں میں ہونے والے نقصانات کے ازالہ کا اعلان کرے تاکہ ان مظلوم قبائل کی داد رسی ہوسکے، واضح اور نمایاں بات یہ ہے کہ آپریشن راہ نجات کے سلسلے میں دیگر اقوام کے ساتھ ساتھ بیٹنی قبائل کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا جنڈولہ کا سینکڑوں دکانوں پر مشتمل پررونق بازار مسمار کیا گیا
جبکہ اطراف کے علاقوں میں ہزاروں گھر متاثر ہوئے، درجنوں تعلیمی ادارے بند ہوئے جس کی وجہ سے بیٹنی قبائل کے بچے اور بچیاں پچھلے کئی سالوں سے تعلیمی ثمرات سے محروم ہیں لہذا حکومت پاکستان کو بیٹنی قبائل کے ان جائز مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنا چاہیے اور دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کے ذریعے انکے تحفظات دور کرنے چائیں تاکہ پاکستان کے اس محب وطن قوم کو ان قربانیوں کا صلہ دیا جاسکے