’’بے رحم سیاست اور کپتان کا دبنگ اعلان‘‘
تحریر اکرم عامر سرگودھا
سینٹ الیکشن میں ماضی کی طرح اب کی بار بھی اسلام آباد اور سندھ میں ہونے والے اپ سیٹس نے ثابت کر دیا ہے کہ سینٹ کے 2006 کے بعد ہونے والے ہر الیکشن میں پیسے کی ریل پیل نے انتخابی نتائج متاثر کیے ہیں، سینٹ الیکشن 2021ء کا اصل معرکہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین اسلام آباد کی دو نشستوں میں سے صرف جنرل نشست پر تھا، جس کے نتائج بھی خلاف توقع آئے، اور اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو شکست دے کر سیاسی تاریخ کا ایک بڑا اپ سیٹ کیا، کیونکہ ایوان میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت تھی
اور وہ حفیظ شیخ کی کامیابی کیلئے پر امید تھے، حکومت نے اس جیت کیلئے سرکاری وسائل بھی خوب استعمال کیے، مگر حکومت کی کوئی بھی ترکیب کارگر ثابت نہ ہو سکی اور ایوان میں7 ووٹ مسترد ہونے کے باوجود اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد کی سینٹ نشست کا معرکہ سر کر لیا، اس نشست کے الیکشن پر حکومت اور اپوزیشن کے کارکنوں میں ملک بھر میں تنائو پایا جا رہا تھا، اب اپوزیشن اسلام آباد میں سینٹ کی جنرل نشست جیت کر کہہ رہی ہے کہ اس نے آئی ایم ایف کے امیدوارکو شکست دی ہے، اس طرح حفیظ شیخ کی شکست سے پی ٹی آئی حکومت کو بڑا دھچکا لگا ہے، لیکن کپتان اب بھی کہتے ہیں کہ سینٹ الیکشن میں پیسے خرچ کر کے سیٹ جیتنے والی اپوزیشن کی کرپٹ قیادت کو کسی صورت این آر او نہیں دوں گا۔
جونہی اسلام آباد کی نشست کے نتائج آئے اور یوسف رضا گیلانی کی جیت کا اعلان ہوا تو پورے ملک میں جیالوں نے بھنگڑے ڈالے اور متوالوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ یہ ملکی تاریخ کا تقریبا پہلا سیاسی موقع ہے جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کارکن آپس میں ہنس کر بغل گیر ہوئے، کیونکہ دونوں جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں، جیالوں اور متوالوں میں ذہنی ہم آہنگی بھی نہ ہونے کے برابر ہے،
سو یوسف رضا گیلانی کی جیت پر دونوں جماعتوں کے کارکنوں کا مل کر خوشیاں منانا ملکی سیاست میں نیک شگون ہیں۔ سو بات ہو رہی تھی سینٹ الیکشن کی تو پنجاب میں یہ معرکہ خوش اسلوبی سے حل ہوا، اس کے پس پردہ کیا حقائق تھے، اس بارے مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کوئی اسے پس پردہ ڈیل اور کوئی سیاسی جماعتوں کی مفاہمی سیاست قرار دے رہا ہے، تا ہم یہ بات واضح ہے کہ سندھ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان میں اپوزیشن نے اپنے امیدواروں کیلئے ارکان اسمبلی سے ووٹ مانگنے کیلئے اتنا زور نہیں لگایا جتنا اسلام آباد میں جنرل نشست پر جیت کیلئے لگایا گیا،
جس کی واضح مثال اسلام آبادکی خاتون نشست پر پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد کا 176 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہونا ہے، حالانکہ اپوزیشن کے یوسف رضا گیلانی نے 169 ووٹ حاصل کر کے 5 ووٹوں کی برتری سے یہ کامیابی سمیٹی، اس طرح ثابت ہوا کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی میں پیسہ کا خوب عمل دخل رہا، اور اب اپوزیشن کا اگلا ٹارگٹ اپنا چیئر مین سینٹ بنوانا ہے، تو سیاست کے کھلاڑی آصف زرداری ابھی سے متحرک ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کے منتخب ہونے والے نئے سینٹر یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن کا متفقہ امیدوار نامزد کرا لیں، اس میں موصوف کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے، تا ہم حکومت نے موجودہ چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کو آئندہ کیلئے چیئر مین سینٹ کیلئے
امیدوار نامزد کر دیا ہے اور اب چیئر مین سینٹ کے انتخاب پر خوب مال و متاع خرچ ہونے کا امکان ہے؟ راقم اکثر لکھتا ہے کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے جس کی ایک مثال آئندہ سینٹ الیکشن بھی ہونگے، کیونکہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے صادق سنجرانی کو چیئر مین سینٹ بنوانے میں جو کردار ادا کیا تھا، وہ ملکی سیاست میں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اب وہی آصف علی زرداری صادق سنجرانی کی مخالف صف کے امیر ہیں، اور سینٹ میں گو کہ پی ٹی آئی اکثریتی جماعت ہے تا ہم مجموعی طور پر ایوان میں حکومتی اتحاد کو 47 اور اپوزیشن کو 52 ممبران کی حمایت حاصل ہے، جبکہ جماعت اسلامی کا بھی ایک سینیٹر ہے، جس کے بارے میں قوی امکان ہے
کہ وہ چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں بھی ووٹ کاسٹ نہیں کرے گا کیونکہ جماعت اسلامی کے ایم این اے نے سینٹ الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا، اور جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔سینٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی اسلام آباد کی جنرل نشست پر شکست پر دل گرفتہ کپتان وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر بڑا اعلان کیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے ایوان سے رواں ہفتہ کے روز اعتماد کا ووٹ دوبارہ لیں گے، اور کپتان کہتے ہیں کہ اسے وزارت عظمی کی کوئی فکر نہیں، اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے تو اقتدار چھوڑ کر اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے، مگر اصولوں کی سیاست پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
سو یہ کسی حکمران کی جرات ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہونے جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں گھمبیر صورتحال کے باوجود کوئی وزیر اعظم ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے جا رہا ہے، سینٹ الیکشن سے قبل ہی اپوزیشن واویلہ کر رہی تھی کہ وہ کپتان کے خلاف کسی وقت بھی عدم اعتماد لا سکتے ہیں، بادی النظر میں ایوان سے دوبارہ ووٹ لینے بارے قیاس کیا جا رہا ہے کہ شاید کپتان نے یہ چھکا مارا ہے
کہ اس سے پہلے اپوزیشن کوئی ایسا قدم اٹھائے اور عدم اعتماد کی تحریک پیش کرے تو کیوں نہ وہ خود ایسا کر گزریں جس سے وہ سیاست کے ہیرو کہلائیں اور اسی تناظر میں کپتان نے یہ دبنگ اعلان کیا ہے، جس کے نتائج کیا ہونگے؟ یہ وقت ہی بتائے گا؟ تا ہم کپتان پر اعتماد ہیں، کیونکہ سینٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوا تھا اور اعتماد کا ووٹ شو آف ہینڈ کے تحت ہونا ہے، اس لئے حکومتی جماعت کے وہ ضمیر فروش ارکان اسمبلی جنہوں نے سینٹ الیکشن میں اپنی پارٹی کے امیدوار حفیظ شیخ کی بجائے چمک کا شکار ہو کر اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دیا ہے شاید وہ ارکان اسمبلی اعتماد کے ووٹ کے دوران شو آف ہینڈ کے تحت ہونے والی گنتی میں ایسا نہ کر سکیں؟
سینٹ الیکشن میں اسلام آباد کے
بعد دوسرا اپ سیٹ سندھ میں مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے صدر پیر صدر الدین راشدی کی شکست کی صورت میں دیکھنے میں آیا اور سندھ میں بھی پیپلز پارٹی مخالف محاذ کو بڑا دھچکا لگا ہے، سیاسی حلقے اس شکست کی وجہ یہ قرار دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے طے شدہ معاہدے پر عمل نہیں کیا جبکہ جی ڈی اے کے 14 ارکان اسمبلی نے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی خاتون امیدوار کو پورے 14 ووٹ دے کر معاہدے کی پاسداری کی ہے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی سینٹ انتخاب میں اپ سیٹس کی تو 2006ء سے 2018 تک بھی سینٹ کے ہر الیکشن میں اپ سیٹس ہوتے آئے ہیں۔ اور اب کی بار 2021ء کے سینٹ الیکشن میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی، 2018 میں کے سینٹ الیکشن میں سب سے بڑا اپ سیٹ پی ٹی آئی کے موجودہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کیا ۔جنرل نشست پر چودھری سرورکو 34 ووٹ ملنے تھے مگر غیر متوقع طور پر وہ سب سے زیادہ 44 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہو گئے، پنجاب میں 10 (ن) لیگی ارکان اسمبلی نے ضمیر کا سودا کیا اورخفیہ رائے شماری میں اپنے ووٹ کا وزن چودھری سرور کے پلڑے میں ڈال دیا، اس طرح مسلم لیگ ن کے زبیر گل ٹکٹ ہولڈر ہونے کے باوجود سینٹ الیکشن ہار گئے
ان کی جگہ مسلم لیگ ن کے متبادل امیدوار رانا محمود الحسن جیت گئے، اسی طرح 2018 میں سندھ میں ایم کیو ایم کیساتھ بھی ہاتھ ہوااور مفاہمت کی سیاست،اور سیاست میں بازی پلٹنے کے ماہر آصف علی زرداری کی سیاست نے جادو دکھایا اورایم کیو ایم دو امیدواروں کے بجائے اپنا صرف ایک سینیٹر فروغ نسیم ہی کامیاب کروا سکی، پیپلز پارٹی ایوان میں ووٹوں کے تناسب سے نو سینٹر دوبارہ منتخب کروا سکتی تھی۔ لیکن آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے 10 امیدوار سینیٹر منتخب ہو گئے، 2018 خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں بڑا دھچکا لگا اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی اکثریت کے باوجود مطلوبہ تعداد حاصل نہ کر سکی،کے پی کے ایوان میں پیپلز پارٹی کے
اراکین صوبائی اسمبلی کی تعداد سات تھی لیکن وہ دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی ، روبینہ خالد خواتین اور بہرہ مند تنگی جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے، خیبر پختونخواہ میںتحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑنے والے جے یو آئی س کے مولانا سمیع الحق کو غیر متوقع شکست ہوئی اور مسلم لیگ ن کے دلاور خان نے فتح سمیٹی، 2018 میں ہارس ٹریڈنگ کے الزام پر پی ٹی آئی کے کپتان نے 20 ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا تھا، واضح رہے کہ 2018 میں بلوچستان کے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کو غیر متوقع شکست ہوئی تھی بلوچستان میں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن صوبائی اسمبلی میں اکیس ارکان کی موجودگی کے باوجود ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکی تھی،اور یہاں سے آزاد امیدوار انوارالحق
کاکڑ،احمد خان، کہدہ بابر اور صادق سنجرانی جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے، خواتین کی نشست پر ثنا ء جمالی اور ٹیکنو کریٹ کی نشست پر نصیب اللہ بازئی سینیٹر منتخب ہوئے تھے، ، اسی طرح 2015 کے سینیٹ انتخابات میں بھی “غیبی امداد “کے الزام لگتے رہے ہیں2015کے سینیٹ الیکشن میں سندھ سے پیپلز پارٹی کے اسلام الدین شیخ کو 24ووٹ ملے، حالانکہ ایوان میں پیپلز پارٹی کے ایم پی ایز کی تعداد 21 تھی۔ انہیں تین ووٹوں کی غیبی امداد کہاں سے ملی ، یہ رازآج تک نہیں کھل سکا،2012 کے سینیٹ انتخابات میں بھی بڑا اپ سیٹ ہوا تھا اور دو مارچ 2012 ہونے والے سینیٹ الیکشن میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم گل جیت کی یقینی نشست ہار گئے تھے اور مسلم لیگ(ن ) کے
حمایت یافتہ آزاد امیدوار محسن لغاری سینیٹر منتخب ہوئے تھے محسن لغاری کو 46 اور اسلم گل کو 42 ووٹ ملے تھے2012 کے سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر 25 نشستیں ملنے کا امکان تھامگر سندھ، پنجاب،وفاق اور بلوچستان میں 4سے6 نشستیں پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل گئیں تھیں،ایم کیوایم اورمسلم لیگ (ق) کے امیدوار پیپلزپارٹی کی نشستوں میں نقب لگانے میں کامیاب رہے تھے، دونوں جماعتوں نے اپنی دو دو غیر یقینی نشستیں جیت لی تھیں، مصطفی کمال 26 ووٹوں سے ایم کیو ایم کے سینیٹر بن گئے تھے، 2006 کا سینیٹ الیکشن بھی سرپرائز سے بھرپورتھاچھ مارچ 2006 کے سینیٹ کے انتخابات میں بڑا اپ سیٹ اس وقت کے صوبہ سرحد میں دیکھنے میں آیا،جب اس وقت صوبہ میں حکمران جماعت متحدہ مجلس عمل اسمبلی میں اپنی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود زیادہ نشستیں نہ سمیٹ سکی، اور ایک سو چوبیس کے
ایوان میں مسلم لیگ (ق) صرف دس ارکان کے باوجود دو جنرل اور ایک مخصوص نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔اورمسلم لیگ ق کے عمار احمد خان سینیٹر منتخب ہوئے ، جبکہ ان کے والد گلزار احمد خان اور بھائی وقار احمد خان پہلے ہی سینیٹ کے ایوان میں بطور ممبر موجود تھے، اس طرح سینٹ کے ایوان میں اس دورانیہ میں ایک ہی وقت میں ایک ہی گھرانے کے تین ممبران ہونے کا اعزاز انہوں نے حاصل کیا تھا جو ملک کی سیاسی تاریخ میں اب تک ریکارڈ ہے، جسے کوئی سیاسی خاندان 14 سالوں میں عبور نہیں کر سکا، 2006 میں سینیٹ الیکشن ،سندھ میں بھی
ایک نشست پر غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا یہاں سینیٹ کی گیارہ نشستوں پر انتخابات میں حکمران اتحاد نے چھ اور اپوزیشن نے پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اپوزیشن کی حکمت عملی کامیاب رہی اور وہ ایک اضافی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس طرح متحدہ مجلس عمل نے ایم کیو ایم سے ایک نشست چھین لی تھی، اسی طرح 2021ء کے انتخابات میں اسلام آباد سے حفیظ اے شیخ اور سندھ سے مسلم لیگ فنکشنل کے پیر صدر الدین راشدی کی شکست سے ہونے والے اپ سیٹ نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ سینٹ الیکشن میں خوب خرید و فروخت ہوئی ہے
اور حسب سابق ارکان اسمبلی منڈی لگی اور سینیٹر بننے کے خواہشمندوں نے ووٹ خرید کر اپنی خواہشیں پوری کیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سینٹ الیکشن 2021ء میں اپ سیٹ کی صورت میں ہارنے والوں بالخصوص کپتان کو چاہئے کہ اب بھی وقت ہے، اگر وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیتے ہیں تو الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کیلئے اسمبلی سے قانون پاس کروائیں تا کہ عوامی مینڈیٹ بیچنے کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ سلسلہ ہر سینٹ الیکشن میں چلتارہے گا، ویڈیو منظر عام پر آتی رہیں گی اور ارکان اسمبلی کے ہر الیکشن میں بکنے کیلئے بولیاں لگتی رہیں گی۔