’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 162

چیئر مین سینٹ الیکشن میں اپ سیٹ ہو گا؟

چیئر مین سینٹ الیکشن میں اپ سیٹ ہو گا؟

تحریر ،اکرم عامر سرگودھا
پاکستانی سیاست میں یہ عجب ماجرا رہا ہے کہ یہاں ہر سیاسی پارٹی کے کارکن اپنے قائدین پر جان فدا کرتے دیکھے جاتے ہیں،اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں میں ہمیشہ آپس میں تناؤ رہا ہے ،مگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کرسی حاصل کرنے کیلئے اپنے مخالفین کو کسی بھی لمحے سینے سے لگانے سے گریز نہیں کرتے اور مفاہمت کی سیاست کے نام پرکل کے حریف حلیف بن جاتے ہیں،جس کی مثال 2018 کے الیکشن کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بننے والا پی ڈی ایم کا اتحاد ہے، جس میں ماضی کی دو بڑی سیاسی حریف جماعتیں جو ایک دوسرے کی قیادت کو سڑکوں پر گھسیٹنے کاواویلہ کرتی رہیں، اب اتحادی ہیں،اور ان جماعتوں کی قیادت نے جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمان کو پی ڈی ایم کا سربراہ بنا لیا حالانکہ کہ دونوں جماعتیں ماضی میں کسی نہ کسی حوالے سے مولانا کی مخالفت کرتی رہی ہیں ،

کئی بار تو ان جماعتوں کی قیادت نے مولانا کے بارے میں نامناسب رویہ بھی اپنایا،سیاست چونکہ بے رحم ہوتی ہے اور اس میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی سیاست دان اپنے مفادات کی خاطر پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور سیاست دانوں میں ایک گروپ ایسا بھی ہے جو ہردور میں چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہوئے اقتدار میں آنے والی متوقع سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکرہردور میں اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں، پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان طویل عرصہ سے ملک کے نظام کو بدلنے، تبدیلی اور یوتھ کو اقتدار میں لانے کا نعرہ لگا رہے تھے،2013 تک ان کی پارٹی کی حالت پتلی تھی،2013

کے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی خیبر پختونخواہ کی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور صوبہ خیبر پختونخوا ہ میں پی ٹی آئی حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئی جبکہ وفاق اور دیگر صوبوں کی اسمبلیوں میں کپتان کے خال خال کھلاڑی تھے،خیبر پختونخوا ہ میں 2013 سے 2018 تک پی ٹی آئی کے دور کو مثالی دور قرار دیا جاتا ہے ،جبکہ کہ اس دوران سب نے دیکھا کہ کپتان کی پارٹی اور مولانا طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا، تو ابتدا میں کہا جانے لگا کہ یہ دو کزنوں کی پارٹیوں کا دھرنا ہے،

لیکن پھر سب نے دیکھا کہ مقصد پورا ہونے پر مولانا طاہر القادری چند روز بعد ہی دھرنا ختم کرکے واپس لاہور آئے اور پھر بیرون ملک چلے گئے،لیکن کپتان نے ملکی تاریخ کا126 دن کا طویل ترین دھرنا دیا، اپنے تئیں کپتان اپنے مقصد میں دھرنا کوکامیابی تصور کررہے تھے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا 2018کے جنرل الیکشن تک کپتان کی پارٹی میں ہردور میں چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والوں کی اکثریت شامل ہوچکی تھی،اوران سیاسی گرگوں نے عمران خان کے گرد اپناحصار قائم کرلیا تھا اور وہ پی ٹی آئی میں اس قدر طاقت ور ہوگئے کہ 2018کے الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی یہ گروپ حاوی ہوگیا اور کپتان جو نوجوانوں کو اقتدار میں لانے کی طویل عرصہ سے جدوجہد کررہے تھے اتنے مجبور ہوگئے

کہ2018 کے الیکشن میں پانچ فیصد ٹکٹ پنجاب،سندھ،بلوچستان، اور وفاق میں یوتھ کونہ دے سکے اور چڑھتے سورج کے پجاریوں کی اکثریت ٹکٹ حاصل کرکے جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ گئی،اور پھر ماضی کی طرح اسمبلیز کے ایوانوں میں بھی اپنا سکہ چلایا، گو کہ ملک کے وزیراعظم کپتان عمران خان ہیں لیکن وہ ان ارکان اسمبلیز جو سیاست کے منجھے کھلاڑی ہیں کے سامنے بے بس ہیں، سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہورہی تھی سیاسی ورکروں اور بے رحم سیاست کی تو پنجاب کی سیاست میں انٹری ڈالتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ ق کے چوہدری برادران کے گھر پہنچ گئے، اور چوہدری شجاعت،پرویز الٰہی،طارق بشیر چیمہ،اور دیگر سے ملاقات کرکے چوہدری برادران سے چیئرمین سینٹ کے ووٹ کیلئے مدد مانگی اور پنجاب کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا،،حالانکہ بلاول بھٹو پر یہ بات عیاں تھی

کہ چوہدری برادران دھڑے باز اور موجودہ حکومت کے اتحادی ہیں اور انہوں نے چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں اپنا ووٹ بھی اپنے اتحادیوں کے نامزد کردہ امیدوار صادق سنجرانی کو دینا ہے لیکن کیونکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی،سو بلاول اپنے مخالف دھڑے سے ووٹ مانگنے کیلئے گئے،جو جمہوریت کا حسن ہے،چوہدری برادران نے بھی بلاول کو نرم لہجے میں خوب جواب دیا کہ آپ ہمارے گھر آئے مہمان آئے ہیں ہم آپ کی دل سے عزت کرتے ہیں،لیکن ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور چیئرمین سینٹ کے لئے بطور اتحادی اپنا امیدوار نامزد کرچکے ہیں اور اسی کوووٹ بھی دیں گے، ذرائع کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے آصف زرداری کا پیغام چوہدری برادران کو پہنچایا،وہ پیغام کیا تھا وہ سیاست میں مناسب وقت پر ہی سامنے آئے گا تاہم سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ آصف زرداری کا یہ پیغام پنجاب حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہوسکتاہے،

کیونکہ اپوزیشن وفاق میں کپتان سے پہلے وسیم اکرم پلس کا شکار کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے اپوزیشن لابنگ بھی کررہی ہے، جبکہ سینٹ کے چیئر مین کے الیکشن کیلئے میدان سج چکا ہے اپوزیشن اور حکومت کی طرف سے جوڑتوڈ عروج پر ہے،حکومت اور اسکے اتحادی تو چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو آئندہ کیلئے امیدوار نامزد کرکے اس کیلئے ووٹ مانگ رہی ہے ،لیکن اپوزیشن چیئرمین سینٹ کاامیدوار نامزد کرنے کیلئے گومگو کا شکار ہے مسلم لیگ ن کی قیادت چاہتی ہے کہ سینٹ چیئر مین کا امیدوار ان کی پارٹی سے ہو،لیکن پارٹی میں 4 امیدوار ہونے کی وجہ سے ن لیگ کوئی نام بطور امیدوار سردست سامنے لانے سے قاصر ہے،جبکہ پیپلزپارٹی بالخصوص آصف علی زرداری یوسف رضا گیلانی کو امیدوار نامزد کرکے چیئرمین سینٹ بنوانے کے خواہاں ہیں ،اس طرح سردست اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں میں امیدوار سینٹ کے لئے جنگ جاری ہے،

اس میں کون کامیاب ہوگا ،اس کا فیصلہ آئندہ 72 گھنٹوں میں ہوجائیگا،تاہم چیئرمین سینٹ کیلئے میدان سج چکا ہے اور سینٹ الیکشن کی طرح منڈی لگنے والی ہے، سینٹ الیکشن 2021میں اسلام آباد کی جنرل نشست پر پی ٹی آئی کے چودہ ارکان قومی اسمبلی نے ضمیر کا سودا کیا تھا، اور خوب مال کمایا، اب کئی سینٹر برائے فروخت سننے میں آرہے ہیں،لگتا ہے کہ 2018 کے سینٹ الیکشن کی طرح اب کی بار بھی چیئر مین سینٹ کے چناؤ کیلئے پیسے کا خوب عمل دخل ہوگا،اور اب کی بار بھی اپ سیٹ کا امکان ہے وہ اپوزیشن کرتی ہے یا حکومت یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ کہ حالیہ سینٹ الیکشن کے بعد سینٹ کے ایوان میں اپوزیشن اتحاد اور حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد میں معمولی فرق ہے،اور پیسہ وہ چیز ہے جس کے جادو سے معمولی فرق تو کیا بڑا فرق بھی ختم کیا جاسکتا ہے، اس لئے عوام صبر سے کام لیں، سیاست دانوں کی طرح اپنے جذبات کو ٹھنڈا رکھیں اور چیئرمین سینٹ کے پولنگ کے دن کا انتظار کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں