شفایابی کے نام مچی لوٹ مارکے درمیان مسیحائے قوم ڈاکٹر
نقاش نائطی
پیشہ مسیحائی، شفا باٹنے والے تخیلاتی دور کے ڈاکٹر، کیا آج کے معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں؟آج کل کےاس مہنگائی کے دنوں میں، جب کوئی انسان کسی فقیر کو دس روپیہ بھیک میں دینے میں بھی ہچکچاتا اور تامل کرتا پایا جاتا ہے، وہیں پر آندھرا پردیش کے کڈپہ میں باقاعدہ حال ہی میں کامیاب ہوئی مستند ایم بی بی ایس ڈاکٹر نوری پروین، غرباء و مساکین کی ہردلعزیز ڈاکٹر بنی خدمت خلق میں مگن و مصروف ہیں۔ عام ڈاکٹروں کی طرح اس کے بھی آرمان پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹر بننے کے تھے ہی نہیں، بلکہ اب بھی ہیں وہ اپنے آسمانوں میں اڑنے والے سہانے خواب پورے کرنے کے لئے، غریب مریضوں کو شفا دینے کے نام پر لوٹتے ہوئے اپنے خوابوں کی دنیا سجانا نہیں چاہتی ہیں
آج کے اس سنگھی رام راجیہ 56″ چوڑے سینے والے مسٹر پھینکو، مہان مودی جی کے اس مہنگائی کال والے دور میں، جہاں ایک لیٹر پٹرول سو روپیہ تک پہنچ چکا ہے اور گھریلو استعمال ہونے والی گیس 2014 سے پہلے والے کانگریس راج کے مقابلے چار گنا قیمت بڑھ چکی ہے۔عام موسمی نزلہ زکام انفلوینزا کا شکار، اپنی اولاد کو، کسی عام گلی محلہ گاؤں کےڈاکٹر کے پاس شفایابی کے لئے، لے جاتے ہیں تو خون و بول تفتیش بھیجنے کے نام پر پہلے سے دو تین سو روپئے خرچ کرائے جاتے ہیں اورپھر دکان داروں سے اپنے اضافی کمیشن کے لئے، دو ڈھائی سو کی نہایت مہنگی دوائی لکھ کر دے دیتے ہیں
اور پھر ڈاکٹر کی فیس الگ۔ عموما کسی غریب کی اولاد بھی ایسے موسمی امراض کے لئے مریضوں کے مسیحا کسی ڈاکٹر کے پاس لے جائی جاتی ہے تو چار پانچ سو کا خرچہ تو ہونے والا ہی ہوتا ہے۔ گاؤں دیہات میں نام نہاد ڈاکٹر کی جگہ پر کوئی تجربہ کارکمپاؤنڈر بھی، وہی تھوک میں خریدی ہوئی پیراسٹمول اور لال رنگ کا محلول دیتے ہوئے،چالیس پچاس روئیے مریض سے اینٹھ لیتا ہے، ایسے اندھ کال میں کوئی مستند ایم بی بی ایس ڈاکٹر کیا صرف دس روئیےمیں، جھگی جھونپڑی والے غرباء و مساکین، ہزاروں مریضوں کو شفایاب کرسکتی یا کرسکتا ہے؟ یہ ایک سوچنے اورایسے خدمت خلق کرنے والوں کو قریب سے دیکھنے اور ان سے سیکھ لینے کا وقت ہے۔
سعودی عرب منطقہ شرقیہ مقیم،
ہم اہل بھٹکل تارکین وطن نے بھی، کچھ سال قبل اپنے آبائی گاؤں میں دس روپے فی مریض شفایابی کے لئے،ایک ایم بی بی ایس پاس مسیحی لیڈی ڈاکٹر کی خدمات حاصل کر،کلینک شروع کی تھی۔ چونکہ ہم مسلمانوں کے مقابلے، مسیحیوں میں خدمت خلق کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتاہے اس لئے کئی سال تک ہماری کلینک بہت کامیاب انداز چلتی رہی۔ روزانہ بنیاد پر کم و بیش ساٹھ ستر مریضوں کے پاس سے لئے دس روپیہ کے علاوہ دس پندرہ ہزار روپیہ اوپر سے امدادی مد میں ہمیں خرچ کرنےپڑتے تھے لیکن روزانہ 60 سے 80 مریض، مہینے کے کم و بیش 2000 ہزار مریض اور سال کے 24،000 مریضوں کے ، عام ڈاکٹروں کے پاس عموما خرچ ہونے والے اجمالی 200 روپیہ فی مریض بھی حساب جوڑیں تو 48 لاکھ روئیے قوم و وطن کے خرچ ہونے سے جو بچ جاتے تھے،اس کو دیکھتے ہوئے، دس پندرہ ہزار روپے ماہانہ کی بنیاد پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ روئیے سالانہ کا اپنی طرف سے اضافی امدادی مد خرچ، ہمیں ھیج تر لگتا تھا۔ یہ اور بات ہے ہمارے اپنے تونگر نام نہاد خدام قوم نے،
اپنے کسی تونگر گھرانے کی خلیج ریٹرن پوسٹ کریجویٹ ڈاکٹر کو، اپنے ذاتی خرچ پر الگ سے امدادی کلینک لگوادینے کے بجائے، اچھی خاصی دس روپیہ فی مریض چلنے والی اور سالانہ بنیاد پر غرباء ومساکین کے 24 ہزارمریضوں کو مستفید کرتے ہوئے قوم و ملت کے48 لاکھ روپئیےبچانے والی اسی کلینک کو بند کرتے ہوئے،مالدار مریضوں کے لئے اسپیشلسٹ سہولیات مہیا کی گئیں تھیں۔ ایسے میں اس سنگھی مودی مہنگائی کال میں کوئی ایم بی بی ایس پاس ڈاکٹر صرف دس روپیہ فی مریض ہزاروں غریب و مساکین مریضوں کو شفایاب کرنے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر کرسکتی ہیں؟ یہ صرف اور صرف انسانیت کی خدمت کے عظیم جذبہ کے تحت کیا جاسکتا ہے یہ تو کڈپہ آندھرا کی محترمہ نوری پروین ہی کی ہمت کا کام ہے
۔ہم دل سے دعا کرتے ہیں۔کہ وہ شافی کل مکان مالک الملک رب دوجہاں اس عظیم ڈاکٹر نوری پروین کے خدمت انسانیت کےجذبہ کو قبول کر۔اسکی خدمت کی راہ میں حائل روکاوٹوں کو دور کر اور پوسٹ گریجویٹ بنتے ہوئے غرباء و مساکین کے لئے اسی طرز نہایت کم قیمت والے، مستحق مریضوں میں حقیقی معنوں میں شفایاب بخشنے والے بڑےہاسپٹل کی تعمیر میں تو اس کی بھرپور مددکر یا رب۔اور ساتھ ہی ساتھ ہم مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے ہزاروں لاکھوں امراء و تونگروں کو، اپنے اپنے علاقے کے غرباء و مساکین کو عصر حاضر کے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر نما لٹیروں کے ہاتھوں لٹنے اور معشیتی طور پریشان ہونے سے بچانے کے لئے، آگے آکر اپنے کچھ لاکھ سالان امدادی مد خرچ کرتے ہوئے ایسے کم قیمتی شفا خانے برصغیر ھند و ہاک بنگلہ دیش افغانستان نیپال و برما سری لنکا میں کھولنے کی توفیق عطا کر یارب وما علینا الا البلاغ