مہنگائی کے خلاف اعلان جہاد کافی نہیں !
تحریر:شاہد ندیم احمد
تحریک انصاف اقتدارملتے ہی تین ماہ میں ہی ملک وملت کی تقدیر سنوارنے کا وعدہ کرچکی تھی،لیکن حکومت میں آنے کے بعد ماہ، سال میں تبدیل ہوتے گئے،پچھلے سال خلائی رپورٹوں کی بنیاد پر آسمان کو چھو لینے کے جو دعوے کئے گئے تھے اُن میں مہنگائی پر کنٹرول سب سے اول تھا، تاہم اس سال کا آغاز گزشتہ سال سے بھی خوفناک ہوچکاہے،وزیراعظم عمران خان نے کا کہناہے کہ مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں،ملکی معاشی حالات کے باعث غریبوں پر پڑنے والے بوجھ کا مکمل احساس ہے، اپنی ذمے داری پوری کرنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔
وزیراعظم ملک کے حکمران ہیں، ان کی ہر بات پر یقین کرنے کا جی چاہتا ہے، قوم کو اپنے حکمرانوں پر اعتماد ہونا بھی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی بات کرتے وقت ایسی بات کرنی چاہیے کہ عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو، نہ کہ اسے مزید ٹھیس لگ جائے،یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں تو دوسری جانب سے انہیں کے وزراء کہتے ہیں کہ مہنگائی کی وجوہات مختلف ہیں، بعض پر ہمارا کنٹرول ہی نہیں ،لیکن پھر انہیں وزرا کا دعویٰ سامنے آتا ہے کہ وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لیتے ہی مہنگائی کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا ہے،
وہ غریب اور متوسط طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دیں گے۔
حکوت کے بدلتے بیانات سے عوام تذب ذب کا شکار نظر آتے ہیں،یہ عجیب اصطلاحات استعمال کرنے والی حکومت ہے کہ کبھی اسمارٹ لاک ڈائون کبھی ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کی بات کرتی ہے ، یہ وزرا ء کبھی خود عام آدمی کی طرح 25 ہزار کی آمدنی والے کا بجٹ لے کر بازار جائیں تو احساس ہو گا کہ کس طرح 12 ہزار روپے مکان کا کرایہ ادا کرنا ہے، بجلی، گیس کے پانچ ہزار روپے دینے ہیں، روز کام پر جانے کے لیے تین ہزار ماہانہ کرایہ یا پٹرول خرچ کرنا ہے،بچوں کے کپڑے اور اسکول کی فیس بھی ادا کرنی ہے،اس بڑھتی مہنگائی اور کم آمدنی میں سب کیسے ممکن ہو گا،جبکہ مرغی کا گوشت پانچ سو روپے کلو، گائے کا آٹھ سو روپے کلو، بکرے کا گوشت تو 50 ہزار تنخواہ لینے والا بھی نہیں سوچ سکتا ہے۔
وزیراعظم کہتے ہیں کہ عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو گا؟ حکومتی وزرا ء کہتے ہیں کہ بعض وجوہات پر ہمارا کنٹرول ہی نہیں ، حکومت کا جب مہنگائی کی مختلف وجوہات پر کنٹرول ہی نہیں ہے تو مہنگائی کے خلاف جہاد کیسے ممکن ہوگا۔ وزرا نے ابھی آدھی بات کی ہے،جبکہ پوری بات یہ ہے کہ مہنگائی کی وجوہات نے تو حکومت کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ پٹرول مافیا سے لے کر چینی ،آٹا مافیا اسمبلی میں ساتھ بیٹھی ہے، یہ لوگ جب کابینہ کا حصہ ہیں توپھر ان پر کنٹرول کون کرے گا،اس مافیا کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ حکومت کیلئے سینیٹ، ایوان میں انتخابات کے دوران بندے خرید کر لاتے ہیں، حکومت بنانے والوں کے خلاف حکومت کیسے کوئی کاروائی کرسکتی ہے۔
ملک میںمہنگائی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے،کیو نکہ حکومت مہنگائی بڑھانے والوں کے کنٹرول میں ہے۔ وزیراعظم کی معاشی ٹیم جہاں سے آئی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک جہاں سے آئے ہیں اور جس تیزی سے ڈالر کو پَر لگا کر اُڑایا گیا ، آئی ایم ایف کی جس طرح ہر شرط مانی جارہی ہے تو مہنگائی بڑھے گی، وزیراعظم فرماتے ہیں کہ عوام کا بوجھ کم کرنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے، مگر صورت حال یہ ہے کہ حکومت عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے کے معاملے میں پہلے ہی تمام حد یںعبور کرچکی ہے۔ ڈالر مہنگا کردیا گیا، پٹرول کی قیمت ماہانہ بڑھائی جارہی ہے، عوام کی بنیادی ضرورت کی اشیا بھی قابو سے باہر ہیں، لیکن حکومتی وزراء ایک ہی قوالی میں مصروف ہیں کہ سب کیا دھرا سابق حکمرانوں کا ہے ، یہ مہنگائی بھی سابق حکمرانوں کی وجہ سے ہوئی ہے، یہ حکومت جب جائے گی تو ان کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا جائے گا تو
پھر دونوں میں فرق کیا ہے۔
وزیراعظم مہنگائی کے خاتمے کی بات کرتے ہوئے بھی سابق حکمرانوں پیچھے پڑے رہتے ہیں، یوسف رضا گیلانی کے بارے میں بھی کہا جارہاہے کہ ایک نااہل شخص پیسے کے بل پر سینٹ الیکشن جیت گیا توحکومتی ادارے کیا کررہے تھے ؟ اس طرح تو چیئر میں سیٹ الیکشن میں بھی رویت کو دھرایا جائے گا،اس تنا ظر میں وزیراعظم نے انکشاف کیا ہے کہ ہمارے سینیٹرز کو ابھی سے پیشکش کی جارہی ہے،تاہم یہ پہلا موقع تو نہیں ہے کہ پیسے چل رہے ہیں اور خرید و فروخت ہو رہی ہے ،اس قبل بھی تمام انتخابات میں منڈی لگتی رہی ،ارکان بکتے رہے ہیں،لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ ہی کیوں بکتے ہیں؟اگر ایک پارٹی کے سینیٹر بکائو ہیں توضرور بکیں گے، آفر بھی انہیں ہی آتی ہے جو بکتے ہیں،تاہم عوام کو ارکان پارلمنٹ کی خرید و فروخت سے کو ئی سروکار نہیں ،انہیںتو بڑھتی مہنگائی سے نجات اور اپنے مسائل کا تدارک چاہئے ،اس لیے حکومت کا مہنگائی کے خلاف اعلان جہاد کافی نہیں ،بڑھتی مہنگائی کے خلاف عملی اقدامات نظر آنا بھی ضروری ہیں۔