’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 140

’’ملکی سیاست اور اجتماعی خود کشیاں‘‘

’’ملکی سیاست اور اجتماعی خود کشیاں‘‘

تحریر ،اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر03008600610
وٹس ایپ،03063241100

’’ملکی سیاست اور اجتماعی خود کشیاں‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی حالات سے یہ بات عیاں ہے کہ برسر اقتدار یا حزب اختلاف کے ہر سیاست دان نے ملک میں سیاسی کھیل کھیلا اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے اس قدر لوٹا کہ یہ ملک اب دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، اور اس کے پیدا ہونے والے بچے سے لے کر گور میں اترنے والے ہر شخص بیرونی قرضوں تلے دبے ہوئے ہیں مگر کسی سیاستدان، حکمران کو عوام کی فکر نہیں، بلکہ اس ملک کو سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق نوچ رہا ہے، جس کے باعث قومی خزانے خالی ہو چکے ہیں، اور آئے روز حاکم وقت کو ملک چلانے کیلئے مزید قرضوں کیلئے بھیک مانگنا پڑ رہی ہے،

حالات چیخ کر یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ملک میں بسنے والا چار فیصد امراء کا طبقہ خوشحال زندگی گزار رہا ہے، 2 فیصد درمیانہ طبقہ سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے حالات سے لڑ رہا ہے، جبکہ ملک میں بسنے والا 94 فیصد غریب طبقہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ’’گرد‘‘ میں دب کر رہ گیا ہے۔ اس طبقہ کو کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی ریاست مدینہ میں دو وقت کی روٹی بھی بروقت میسر نہیں، جبکہ ملک میں ہر سطح کا آفیسر مجاز سب اچھا کی رپورٹ دے کر کپتان اور حکمرانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ملک میں موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ہمارے ملک کا وہ فرسودہ نظام ہے جو انگریز دور سے چلا آ رہا ہے۔ کئی حکومتوں کے ادوار میں اس نظام میں تبدیلیاں بھی کی گئیں

مگر انگریزی نظام کے اثرات اب بھی ملکی قانون میں کثرت سے موجود ہیں، دنیا میں جن ممالک یا اقوام نے ترقی کی ان میں تعلیم کا اہم کردار رہا ہے، مگر پاکستانی قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک برسر اقتدار آنے والے کسی بھی حکمران نے تعلیم کے فروغ کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔ حتیٰ کہ تعلیمی نصاب میں عوام کے بنیادی حقوق کو بھی شامل نہیں کیا گیا تا کہ پڑھ لکھ کر باشعور ہونے کی صورت میں قوم حکمرانوں سے اپنا حق نہ مانگ لے، قوم کو صرف انتہا اور شدت پسند بنایا گیا، ہماری نسلوں کو تعلیم سے محروم رکھ کر جاہلیت کو فروغ دیا گیا،

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواندگی کی شرح انتہائی کمزور ہے، دیہی علاقوں میں تو اعلیٰ تعلیم کا اب بھی فقدان ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر حکومت ملک میں تعلیم، زراعت، صحت کی سہولتوں کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آئی لیکن اقتدار میں آ کر ایسا کچھ نہ کر سکی اور ہم وہ بد قسمت قوم ہیں جو ہر بار سیاستدانوں کی چکنی چپٹی باتوں میں آ کر انہیں ووٹ دے کر اقتدار میں لے آتے ہیں، تو پھر کسی کو ایٹم بم مل جاتا ہے، کسی کو ایون فیلڈ، کسی کو سرے محل، کسی کو سیاسی تخت (حکومت) مل گئی، مگر عوام کو کیا ملا وہ تو آج بھی غربت کی چکی

میں پس کر دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان میں 82 فیصد شہری و دیہی علاقوں کے باسیوں کو سرکاری سطح پر صحت کی بنیادی سہولت میسر نہیں، 91 فیصد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہو کر بیماریوں میں مبتلاء ہو رہے ہیں، تعلیم کا فقدان جاہلیت کو فروغ دے رہا ہے، اور ہم (یعنی عوام) سوا سات دہائیوں بعد بھی روٹی کپڑا اور مکان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، یہی نعرہ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تھے اور اب عمران خان یہ نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے ہیں، جب بھٹو مرحوم نے یہ نعرہ لگایا تھا تو عوام اس کے پیچھے بھاگ پڑی تھی، اب بھی عوام اسی خواب کو دیکھتے ہوئے کپتان کے پیچھے کھڑی ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک ایسے نعروں کے جواب میں سیاستدانوں کو اقتدار میں لاتے رہیں گے، کیونکہ کسی نے بھی تو اتنے عرصہ میں اس نعرہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا،

آخر کب تک ان نعروں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے، کہیں تو ہمیں بھی ٹھہرائو لانا ہو گا۔ جس کیلئے قوم کو سوچنا ہو گا؟سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی ملکی حالات کی جو سیاستدانوں نے انتہائی مشکل اور کٹھن صورتحال میں دھکیل دیا ہے، تو دوسری طرف ہر جماعت مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام ہو یا پی ٹی آئی جو بھی اقتدار میں آیا اس نے عوام کو ہمیشہ سبز باغ دکھائے اور اقتدار کا دورانیہ پورا کیا، ملکی خزانہ کو مزید مقروض کر کے خود اندرون بیرون ملک اثاثے بنائے اور چلتے بنے۔ اس طرح ملک میں سیاست برائے سیاست کا کھیل جاری ہے،

جسے سیاستدان اپنی انتخابی مہم اور پارٹی منشور میں عوامی خدمت کہتے ہیں۔ سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کو ہمیشہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا، بینظیر بھٹو زندہ تھیں اور میاں نواز شریف میثاق جمہوریت پر دستخط کر چکے تھے جس میں لکھا تھا کہ کسی عسکری حکومت سے بات نہیں ہو گی، لیکن بینظیر بھٹو اس وقت بھی بیک ڈور رابطے سے اس وقت کے صدر پرویز مشرف سے این آر او حاصل کرنے کیلئے مذاکرات کرتی رہیں، پھر 2008ء میں پیپلز پارٹی وفاق اور مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اقتدار میں آئی تو قوم نے دیکھا کہ دونوں جماعتوں کی مقتدر قیادت نے پرویز مشرف سے اقتدار کا حلف لیا اور پھر قوم نے دیکھا کہ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف احتجاج اور لانگ مارچ کیا تو پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کو پس پشت ڈال کر پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا

پھر قوم نے دیکھا کہ یوسف رضا گیلانی نے آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھا جس کی پاداش میں یوسف رضا گیلانی کو گھر جانا پڑا، تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ یوسف رضا گیلانی تم گھر جائو اور عدالت کا فیصلہ مانو۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس سے پہلے میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کی حکومت کے خلاف عدالت عظمی میں بطور وکیل پیش ہو چکے تھے، 2013ء میں پھر نواز شریف بر سر اقتدار آئے تو پیپلز پارٹی نے ان کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا کہ سینٹ کا معرکہ آن پہنچا، تو اس وقت خیبر پختونخواہ سے پی ٹی آئی کے 7 سینیٹر تھے، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ چیئر مین سینٹ چھوٹے صوبے بلوچستان سے آئے۔

اسی لیے پی ٹی آئی نے اپنے ووٹ بلوچستان عوامی پارٹی کی جھولی میں ڈال دیئے تو پیپلز پارٹی نے حالات سے فائدہ اٹھایا اور آصف علی زرداری نے صادق سنجرانی کو چیئر مین سینٹ کیلئے امیدوار نامزد کر دیا اور یوں پچھلے الیکشن میں صادق سنجرانی چیئر مین سینٹ بن گیا اور ایوان جئے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھا اب پی ڈی ایم کے اتحاد میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دو بڑی جماعتیں شامل ہیں جو کپتان کی حکومت گرانے کیلئے ٹف ٹائم دینے کیلئے کوشاں ہیں، اپوزیشن جماعتوں نے 26 مارچ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ اور دھرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے

اس میں اپوزیشن کس حد تک کامیاب ہو گی یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن قوم دیکھ رہی ہے کہ پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی جو چاہتی ہے وہ فیصلہ منوا لیتی ہے۔ مثلاً کہ پی ڈی ایم کے سربراہ نے ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو بلاول نے یہ عذر پیش کر کے کہ حکومت کیلئے کوئی سیاسی میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو پیپلز پارٹی کی تقلید کرتے ہوئے یوٹرن لینا پڑا۔ پھر پی ڈی ایم نے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اسمبلی کے استعفے یکمشت پیش کرنے کا عندیہ دیا تو سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے ارکان اسمبلیز کے استعفوں کی مخالفت کی، تو پھر قوم نے دیکھا کہ اپوزیشن کو اس پر بھی یوٹرن لینا پڑا، اس دوران سینٹ الیکشن 2021 کا مرحلہ آ گیا تو قوم نے پھر دیکھا کہ مفاہمت کی سیاسی کے کھلاڑی آصف زرداری نے انتہائی حکمت عملی سے وفاق کی نشست

پر اپنی جماعت کے یوسف رضا گیلانی کو نا صرف اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار نامزد کرایا بلکہ پی ٹی آئی کے14 ممبران کا ووٹ بھی اسے دلوا کر جتوا کر ایوان تک پہنچایا۔ پھر قوم نے دیکھا کہ آصف علی زرداری نے سیاسی بصیرت سے یوسف رضا گیلانی کو چیئر مین سینٹ کیلئے امیدوار بھی نامزد کروا لیا ہے اب چیئر مین سینٹ کیلئے صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی میں میدان سج چکا ہے۔ کامیابی کی ہما کس کے سر بیٹھے گی یہ کہنا قبل از وقت ہے تا ہم ملکی حالات اب بھی پکار رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری نے غریب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،

جس کی وجہ سے ملک میں آئے روز اجتماعی خود کشیوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، حالات بتا رہے ہیں کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی غربت کی ستائی عوام کو سیاست سے کوئی غرض نظر نہیں آ رہی، وہ تو چاہتی ہے کہ کوئی مسیحا اقتدار میں آئے جو ان کے لئے دو وقت کی روٹی کی فراہمی سہل بنا دے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر عوام انقلاب لائیں گے جو حکومت اور اپوزیشن دونوں کو بہا کر لے جائے گا اور پھر وہ بڑے اقتدار میں آئیں گے جو سیاستدانوں کو اقتدار میں لاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں