’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 196

’’کپتان کی خواہش اور متوقع نیا صدارتی آرڈیننس‘‘

’’کپتان کی خواہش اور متوقع نیا صدارتی آرڈیننس‘‘

تحریر: محمداکرم عامر سرگودھا
فون،03008600610
وٹس ایپ،03063241100
حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری محاذ آرائی سے ملک میں جنگ کا سا سیاسی ماحول پیدا ہوگیا ہے حزب اقتداراورحزب اختلاف ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کررہے ہیں،پی ڈی ایم کے امیدوار نے وفاق کی سینٹ نشست پر عبدالحفیظ شیخ کو خلاف توقع شکست دے کر حکومت کو ایسا گھاؤ لگایا کہ کپتان کی حکومت کو خطرہ محسوس ہونے لگا اور اپوزیشن نے ساتھ بڑھک ماردی کہ وہ کسی بھی وقت وزیراعظم ،وزیراعلی پنجاب، سپیکر و ڈپٹی سپیکرز قومی اسمبلی کے خلاف کسی بھی وقت عدم اعتماد کی تحاریک لا کر انہیں گھر بھجوا سکتے ہیں۔ کپتان نے اینٹ کا جواب اپوزیشن کو پتھر سے دیا اور 48 گھنٹے بعد ہی قومی اسمبلی کے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر ایوان میں اپنی برتری

ثابت کر کے سردست اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحاریک لانے کے دعوئوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ سینٹ الیکشن میں کپتان نے صادق سنجرانی کو چیئر مین سینٹ اور مرزا آفریدی کو ڈپٹی چیئر مین منتخب کرا کے اپوزیشن کو ایسا گھائو لگایا کہ اب اپوزیشن زخم چاٹ رہی ہے، اور دھاندلی کا شور مچا کر چیئر مین سینٹ کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج کرنے جا رہی ہے۔دوسری طرف کپتان کو عبدالحیفظ شیخ کی شکست بھول نہیں رہی کیونکہ وہ موصوف کو ہر صورت میں سینٹ کے ایوان میں دیکھنا چاہتے تھے،

مگر کپتان کا یہ خواب اپوزیشن نے پی ٹی آئی کے ووٹ چرا کر چکنا چور کر دیا تھا، پھر حکومت کو چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں کامیابی کے لئے تمام وسائل جھونکنا پڑے، اور وزیر اعظم نے فاٹا سے مرزا آفریدی کو ڈپٹی چیئر مین سینٹ نامزد کیا جبکہ فاٹا میں تعمیر و ترقی کیلئے 100 ارب کے سالانہ بجٹ کا اعلان کپتان پہلے ہی کر چکے تھے، اور کپتان نے فاٹا کا انضمام بھی کرایا تھا جو آسان کام نہیں تھا۔ کپتان نے بلوچستان سے دوسری مرتبہ صادق سنجرانی کو چیئر مین سینٹ اس لیے بنوایا کہ حکومت کو قانون سازی میں مشکل آ رہی تھی اور کپتان جو تبدیلی کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے،

انہیں اس میں مشکل پیش آ رہی تھی، جس کی وجہ سے کپتان نے چیئر مین سینٹ الیکشن میں خوب پتہ کھیلا اور فاٹا سے خلاف توقع ڈپٹی چیئر مین مرزا آفریدی کو نامزد کر کے اس کے نتائج بھی حاصل کیے، مگر کپتان اور اس کے اتحادی عبدالحفیظ شیخ کی شکست کا غم ابھی بھی نہیں بھول پا رہے۔ سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ حکومت جون 2021ء سے پہلے عبدالحفیظ شیخ کو سینٹ کے ایوان میں ممبر دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ سینٹ الیکشن جیت کر حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے درپیش مشکلات میں کمی اور حکومت کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ جس پر کپتان نے عبدالحفیظ شیخ کو پھر سے سینیٹر بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس حوالے سے صدر مملکت پاکستان عارف علوی ایک اور صدارتی آرڈیننس جاری کریں گے،

جس کا آئینی ماہرین ڈرافٹ تیار کر رہے ہیں، اس آرڈیننس کے تحت مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ٹیکنو کریٹ پنجاب کی نشست سے ڈی سیٹ کر کے یہ نشست خالی کرائی جائے گی، چونکہ اسحاق ڈار موصوف بیرون ملک رہ کر سینیٹر منتخب ہوئے تھے، اور 2018ء سے اب تک انہوں نے بطور سینٹر ایوان سے حلف نہیں اٹھایا، اس صدارتی آرڈیننس کے تحت جن ممبران سینٹ یا اسمبلی نے دو سال سے حلف نہیں اٹھایا کو ڈی سیٹ کرایا جائے گا، سینٹ کی نشست سے اسحاق ڈار کے علاوہ سابقہ دور کے وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد جو کہ 2018ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے، اور ایم پی اے بن گئے تھے بھی ڈی سیٹ ہو جائیں گے، کیونکہ چوہدری نثار احمد نے 2018ء سے اب تک ایم پی اے کا ایوان سے حلف نہیں اٹھایا،

اور موصوف اس نشست پر حلف اٹھانے کے خواہان بھی نظر نہیں آ رہے۔ اس طرح حکومت بالخصوص کپتان عبدالحفیظ شیخ کو پنجاب کی سینٹ نشست سے سینٹ کا ممبر بنوانے جا رہے ہیں، تا کہ عبدالحفیظ شیخ کو بطور وزیر خزانہ عہدے پر براجمان رکھا جا سکے۔ اپوزیشن اس کی روک تھام کیلئے کیا اقدام اٹھاتی ہے، یہ کہنا قبل از وقت ہے تا ہم اپوزیشن نے سردست 26 مارچ کو دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا تھا، حکومت نے اپوزیشن کو چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں شکست دے کر قانونی جنگ لڑنے کی طرف دھکیل دیا ہے، اب اپوزیشن کا دھیان دو طرف بٹ چکا ہے، اور اسے ایک ٹائم میں حکومت کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کے ساتھ 26 مارچ کو اسلام آباد لانگ مارچ کی بھی تیاری کرنا ہے،

دوسری طرف اب پھر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے نیا اعلان کر دیا ہے، کہ اپوزیشن کے ارکان قومی، صوبائی اسمبلیز کے استعفوں کے بغیر لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں، اس نوعیت کا اعلان پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے کچھ عرصہ بعد کیا تھا، اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی ارکان اسمبلی کے مشترکہ استعفوں پر یوٹرن لے لیا تھا، اور ضمنی، سینٹ الیکشن بھی اسی الیکشن کمیشن کے زیر سایہ لڑا، جسے اپوزیشن جانبدار قرار دیتی آ رہی ہے، اپوزیشن جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت مولانا کے حالیہ فیصلے متفق نظر نہیں آ رہی، پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے تو واضح کہہ دیا ہے

کہ اس نے والدہ (بے نظیر بھٹو) سے سیکھا ہے کہ بائیکاٹ اور استعفوں کی بجائے سسٹم میں رہ کر مقابلہ کرنا چاہئے اور یوں پی ڈی ایم سربراہ کو اس اعلان پر بھی یو ٹرن لینا پڑے گا۔ یوں اپوزیشن کے لانگ مارچ کی چمک ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہے، ڈپٹی چیئر مین سینٹ پر مولانا عبدالغفور حیدری کو دس ووٹ کم ملنا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) میں اندرون خانہ اختلافات ہیں، اپوزیشن اتحاد میں شامل ایک بڑی جماعت مولانا فضل الرحمان سے ماضی کا بدلہ چکانا چاہتی ہے چونکہ مولانا فضل الرحمان نے ملک میں عورت کی حکمرانی کو غیر مناسب قرار دیا تھا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی عبدالحفیظ شیخ کے سینٹ الیکشن ہارنے سے کپتان اور حکومت کو لگنے والے جھٹکے کی تو ملک میں ایک اور صدارتی آرڈیننس جاری ہونے کو ہے، جس کے تحت پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار کی چھٹی کرا کے اس نشست پر عبدالحفیظ شیخ کو ایوان میں لانے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جا رہا ہے، کیونکہ کپتان عبدالحفیظ شیخ کو ہر صورت سینٹ کے ایوان میں دیکھنا چاہتے ہیں،

جس کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔سواسی تناظر میں آئینی ماہرین ایک اور صدارتی آرڈیننس کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دے رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں سینٹ سے اسحاق ڈار اور صوبائی اسمبلی سے چوہدری نثار کی نشست خالی ہو جائے گی۔ چونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو برتری حاصل ہے اس لیے یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے تا کہ عبدالحفیظ شیخ کو سینٹ کے ایوان میں لایا جا سکے۔ جو کپتان کی خواہش اور مجبوری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں