یوم قراردادِ پاکستان
مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ نے ایک تاریخی فتویٰ دیا جس میں قرآن و سنت کے دلائل سے دو قومی نظریے کو ثابت کیاگیا
دو قومی نظریہ کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ ہندووں کا مذہب، عقیدہ اور رسم و رواج سب مسلمانوں سے الگ ہیں
مولانا محمد الیاس گھمن
دو چار دنوں کی بات نہیں بلکہ آج سے پون صدی سے بھی کچھ زائد عرصہ پہلے 23مارچ 1940ء کو اقبال پارک لاہور میں مسلمانان برصغیر نے ایک الگ اسلامی ریاست کی قرارداد پیش کی جو قرارداد لاہور (قرارداد پاکستان)کے نام سے تاریخ کے صفحات پر چمک رہی ہے۔ جسے اگلے ہی دن 24 مارچ 1940ء کو متفقہ طور پر منظور کر لیاگیا۔ اس کا اولین مقصد مسلمانان برصغیر کی اسلامی تہذیب اورنظریاتی اقدار کا تحفظ تھا۔اس قرارداد کے ذریعے پہلی مرتبہ یہ واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔
ان کا مذہب، عقیدہ اور رسم و رواج سب مسلمانوں سے الگ ہیں۔ وہ ایک الگ وطن چاہتے ہیں جہاں وہ کھل کے آزادی کے ساتھ سانس لے سکیں اور اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے زندگی گزار سکیں۔اس موقع پر قائد اعظم نے اجلاس کے اختتام پر اپنے صدارتی خطاب میں کہا: ’’ہندووں اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف فلسفوں، سماجی رسوم اور ادبی روایات سے ہے۔وہ نہ تو باہمی شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے جو بنیادی طور پر متصادم نظریات و تصورات پر مبنی ہیں ان کا تصور حیات ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان کے ہیرو اور تاریخ الگ الگ ہیں ایک فریق کے ہیرو اکثر صورتوں میں دوسروں کی ناپسندیدہ شخصیتیں ہیں۔ ان کی تاریخ میں ایک فریق کی شکستیں دوسرے کی فتوحات رہی ہیں، ان دو قوموں کو اکثریت اور اقلیت کی حیثیت میں ایک ہی ریاست میں اکٹھا رہنا ملک میں بے اطمینانی کے فروغ کا باعث ہوگا۔مسلمان ہر اعتبار سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور انہیں اپنا وطن اپنا علاقہ اور اپنی ریاست ملنی چاہیے۔ ‘‘
سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع دیوبندی کا دوقومی نظریے کی حمایت میں وہ تاریخی فتویٰ آج بھی محفوظ و موجود ہے جو تحریک ِپاکستان کے دوران دیا گیا تھا،جس میں مسلمانوں کو تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی تحریک پاکستان میںیہ فتویٰ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو واضح اکثریت نہ ملی تھی کیونکہ کئی مسلمان تقسیم کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار تھے، لیکن مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ نے اپنے اس تار یخی فتویٰ میں قرآن و سنت کے دلائل سے دو قومی نظریے کو ثابت کیا اور یہ واضح کیا کہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ فتویٰ قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر 1945ء میں لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیاگیا۔ جس کے نتیجے میں1946ء کے انتخاب میں مسلم لیگ کو کئی علاقوں میں واضح اکثریت سے کامیابی ملی۔ مسلمانوں کے شکوک و شبہات زائل ہوگئے۔اس حیثیت سے یہ فتویٰ تحریکِ پاکستان کی اہم ترین دستاویز ہے۔ اس کا مطالعہ حقیقت ِحال کے بہت سے پہلووں کے لیے کافی ہے۔
جہد مسلسل نے نشان منزل کو حصول منزل تک بہت جلد پہنچادیا۔ آزادی کے متوالوں نے غلامی کے بتوں کو پاش پاش کیا۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد کو سامنے رکھتے ہوئے قائد اعظم اور آپ کے ہمراہ سربراہان تحریک آزادی نے بھرپور محنت کی۔ 7 اپریل 1946ء کو دہلی میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین لیجسلیٹو اسمبلی کا ایک تاریخی کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس موقع پر قائداعظم نے فرمایا:برصغیر کے مسلمان ایک ایسے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر شعبہ زندگی خصوصاً تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے
اور جو محض رسومات، روحانیت اور رواجوں پر مبنی نہیں ہے اور ہندو دھرم کے فلسفہ کے بالکل متضادہے۔ ہندوؤں کے ذات پات پر مبنی فلسفہ نے بھارت کے 6کروڑ انسانوں کو اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان، عیسائی اور دوسری اقلیتں سماجی اور معاشی طور پر انتہائی پسماندہ ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہندو ذات پات کا نظام قومیت، مساوات، جمہوریت اور اسلام کے سنہری اْصولوں کے منافی ہے۔ مسلمان اکثریتی صوبوں میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکیں گے کیونکہ مرکز میں ہندوؤں کی بالادستی ہو گی۔ مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب،سرحد، سندھ اور بلوچستان زونز پر مشتمل پاکستان کی آزاد اور خودمختار ریاست بنائے جائے
ہندوستان اور پاکستان کی اقلیتوں کے حقوق کا 1940ء کی قرارداد لاہور کی روشنی میں تحفظ کیا جائے۔1940ء سے 1947ء تک کا سات سالہ آزادی کا یہ سفر سرفروشان آزادی کے اخلاص کی دلیل ہے، لیکن افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ جب سے قرارداد لاہور نے پاکستان بننے کی راہ ہموار کی۔بھارت کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جس سے پاکستان کو نقصان نہ پہنچ رہا ہو۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 19ستمبر 1960ء کو سندھ طاس نامی ایک معاہدہ ہوا جس پر پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دستخط کیے تھے۔ 11دفعات پر مشتمل اس معاہدہ کے تحت دریائے جہلم،دریائے چناب اور دریائے سندھ پر پاکستان کا مکمل کنٹرول ہوگا جبکہ راوی ستلج اور بیاس بھارت کے پا س ہوں گے۔معاہدے میں درج ہے کہ پاکستان کو ملنے والے دریاؤں پر بھارت آبی ذخائر بنا سکتا ہے نہ اس کے قدرتی بہاؤ میں تبدیلی لانے کا مجاز ہے
اور یہی شرط پاکستان پر عائد ہے کہ وہ مشرقی تین دریاؤں میں ردوبدل نہ کرے جس سے بھارت کی حق تلفی ہو۔ لیکن بھارت مسلسل معاہدوں کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، دریائے جہلم کا پانی روک لیتا ہے تو کبھی دریائے چناب کا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل بھارت نے پاکستان کا پانی روکنے کے لیے مختلف ڈیمز اور نہریں بنانے کی منصوبہ بندی کا اعلان کیا ہے، جس کی وجہ سے اہلیان پاکستان پانی کی قلت سے دوچار ہیں بالخصوص زراعت کا پیشہ شدید نقصان کا شکار ہے۔
پاکستان میں سی پیک کی بدولت معاشی استحکام سے بھی بھارت خوفزدہ اور اپنی گھٹیاحرکات پراْترا ہواہے، پاکستان کو غیرمحفوظ باور کرانے کیلیے سرجیکل اسٹرائیک،پلوامہ حملہ ، ممبئی اور اْڑی حملے، سرحدی قوانین بالخصوص فضائی حدود کی خلاف ورزیاں، مقبوضہ کشمیر میں فوجی کارروائیاں کرکے بے گناہ نہتے شہریوں کو زخمی اور شہید کرنا اور اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کو غیر مستحکم پاکستان بنانے کا ٹاسک دینا وغیرہ سارے ایسے زمینی حقائق ہیں جو اقوام عالم کے سامنے واضح ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے کرم کے ساتھ ساتھ درجہ اسباب میں اگر ہمارے حساس اداروں کے زیرک نوجوان اور افواج پاکستان کے سرفروش سپاہی نہ ہوتے تو خاکم بدہن بھارت کب کا پاکستان کو تر نوالہ سمجھ کر نگل چکا ہوتا۔ غیروں کی سنگ باری سے وہ تکلیف نہیں ہوتی جو اپنوں کی گْل باری سے ہوتی ہے۔ افسوس کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے،دہشت گردی اور فرقہ واریت پھیلانے والے، کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے،سرکاری اداروں اور عدلیہ کو غیر موثر بنانے والے، پارلیمنٹ کے تقدس کو روندنے والے، معاشی و اقتصادی طور پر کھوکھلا کرنے والے الغرض پاکستان کو اپنی اساسی بنیادوں سے دور کرنے والے اپنی اپنی سرگرمیوں میں سرگرم ہیں۔ اللہ اسے اندیشہ زوال سے محفوظ فرمائے۔
23 مارچ ہمارے جداگانہ اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کی تجدید عہد کا دن ہے، یہ دن حصول منزل کیلیے اتحاد، تنظیم اور یقین ِ محکم کا درس دیتا ہے اور نگاہ بلند، جاں پرسوز اور سخن دلنوازی کے اصولوں پر چلنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ آزاد اسلامی مملکت کی حفاظت، استحکام اور بقاء کے لیے جدوجہد کا پیغام بھی اس میں موجود ہے۔اس موقع پر ہمیں تحریک پاکستان کے محرکات، قربانیاں اور اس کے اساسی نظریے پر اپنے یقین کی تجدید کرنی چاہیے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک آزاد اسلامی اور فلاحی مملکت بنانے کیلئے اپنے تمام تر صلاحیتوں بروئے کار لانے کا عزم کرنا چاہیے۔