نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 242

سیاسی تصادم کی بجائے ادارتی اصلاحات !

سیاسی تصادم کی بجائے ادارتی اصلاحات !

کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
ایک عرصہ سے نیب کی کارکردگی اور قوانین کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے،محترم عدلیہ کی طرف سے بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، اپوزیشن تو نیب کا سرے سے خاتمے کا مطالبہ کررہی ہے،جبکہ حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی نیب پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔ نیب ملک میں احتساب کا سب سے بڑا ادارہ ہے، اس پر تنقید کے ساتھ کارکردگی کو سراہنے والے بھی حلقے موجود ہیں، اس ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ارکان پارلمنٹ کاکردار ادا متنازع رہا ہے ، تاہم اس بار حکومت اصلاحات لانے میں سنجیدہ نظر آتی ہے، وزیراعظم عمران خان نے نیب قوانین میں ترامیم پر غور کیلئے 10 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے،یہ کمیٹی انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین میں ترمیم پر اپوزیشن سے مذاکرات کرتے ہوئے

روزانہ کی بنیاد پر پیش رفت سے وزیراعظم کو آگاہ کرے گی۔ نیب قوانین اور انتخابی اصلاحات کے معاملہ پر پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے معاملہ پر سپیکر اسد قیصر نے سینٹ اور قومی اسمبلی کے تمام پارلیمانی رہنمائوں کو خط لکھ دیا ہے، اُمید کی جانی چاہئے کہ نیب اور انتخابی اصلاحات کیلئے حکومت اور اپوزیشن اپنا کردار بہتر طور پر ادا کرے گی۔اس میں شک نہیں کہ اداروں کے قوانین میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے ،لیکن حکومت اور اپوزیشن اداروںمیں اصلاحاتی عمل کی افادیت محسوس کرتے ہو ئے

بھی مشاورت سے گریزاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی رہی ہیں، تاہم اب وزیر اعظم نے نیب قوانین کو موثر، شکایات سے پاک بنانے اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے 10رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے، یہ کمیٹی قومی معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا فریضہ انجام دے گی‘ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعظم سے ملاقات کرے گی اور اپوزیشن کے ساتھ بات چیت سے متعلق امور پر آگاہ کرے گی، سیاسی کمیٹی معیشت‘روزگار‘ریلیف پیکیجزاور سبسڈیز کے متعلق بھی تجاویز دینے کی ذمہ داری ادا کرے گی،تا ہم حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹیوں میں نیب کو مطلوب ارکان شامل کرنے سے گریز کر نا بھی ضروری ہے۔
وزیر اعظم کو جانب سے کمیٹی کے قیام کا فیصلہ خوش آئند ہے ،تاہم اس وقت حکومت کو جن انتظامی اور سیاسی مشکلات کا سامنا ہے، اس کی وجہ تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت خود رہی ہے ،اس نے جہاں خود کو دوسری سیاسی جماعتوں سے الگ تھلگ رکھا ،وہیںحکومتی وزراء نے بھی وزیر اعظم کا بوجھ بٹانے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ملک میں بڑھتی مہنگائی‘ سیاسی رابطے اور اصلاحات جیسے اہم ترین معاملات کی ذمہ داری کمیٹی کے سپرد کرنے سے ممکن ہے کہ اس کی کارکردگی سست روی کا شکار ہو جائے ،اس لئے بہتر ہو گاکہ ہر ہدف کے لئے الگ کمیٹی بنا دی جائے،

تاکہ ذمہ داری میں ابہام کے ساتھ دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے،تاہم اپوزیشن کی شکایت رہی ہے کہ حکومت نیب اور احتساب کو سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کر رہی ہے،وزیر اعظم کئی بار وضاحت کر چکے ہیں کہ نیب اور عدالتی نظام مکمل آزاد ہیں، حکومت کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں،قومی ادارے آزادانہ اپنا کام کر رہے ہیں،لیکن اپوزیشن ماننے سے انکاری ہے۔حکومت اور اپوزیشن کانیب سے لے کر انتخابات تک اصلاحاتی حوالے سے کردارار حوصلہ افزا نہیں رہا ہے ،دسمبر 2019ء میں حکومت نے نیب قوانین میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا،اس موقع پر مناسب ہوتا کہ حکومت اور اپوزیشن مشاورت سے اصلاحاتی عمل کو یقینی بناتی، مگر اپوزیشن اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کرتی رہی اورحکومت نے

بھی صورتحال کو معمول پر لانے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا، بعدازاں حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ اپوزیشن اپنے رہنمائوں کے خلاف رعائتیں لینا چاہتی ہے‘ ایسا ہی رویہ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ روکنے کے لئے پیش کردہ مسودہ بل کے موقع پر سامنے آیا، اس ہنگامہ آرائی کے باعث صدارتی آرڈی ننس نافذ کر دیا گیا، حکومت کو اپوزیشن کے عدم تعاون کے باعث قانون سازی کی بجائے آرڈی ننس کا سہارالینا پڑا ہے ،جبکہ اپوزیشن کا گلہ رہا ہے کہ حکومت جب بھی قانون سازی میں تعاون طلب کرتی ہے، اس میں نیت نیتی شامل نہیں ہوتی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شروع سے اعتماد کا فقدان رہا ہے ،اس بے اعتمادی کی فضا میں قانون سازی میں مشاورت مشکل ضرور رہی ہے ،تاہم اگر اس بارانتخاب اور احتساب کے معاملات کو شفاف اور قابل بھروسہ بنانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کسی مسودے پر متفق ہو جاتے ہیں تو سیاست میں گھلی کشیدگی اور بدزبانی کا عنصر دور ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کی اب تک حکمت عملی تصادم پر مبنی رہی ہے، اس تصادم نے کشیدگی‘ محاذ آرائی اور بسا اوقات ہاتھا پائی کو رواج دیا ہے، اسی لیے سیاست خدمت خلق کی بجائے عوامی انتشار کا باعث بنے لگی ہے

، عوام کی زندگی جب تک آسان نہیں ہو گی، سرکاری دفاتر میں کام نہیںہو گا، احتسابی اور انتخابی عمل کو ایسا شفاف نہیں بنایا جائے گا کہ ہر شخص اس پر بھروسہ کرنے لگے ، ملک میں تب تک تبدیلی کے آثار نظر آنا نہ ممکن ہیں۔وزیر اعظم نے تبدیلی کی سوچ کے زیر اثر ایک بار پھر اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کردی ہے، اس پر اپوزیشن نے بھی مثبت ردعمل کا ظاہر کیا ہے، لیکن کچھ رہنمائوں کی جانب حرف تنقید بنانا ضروری سمجھا جارہا ہے ،انہیںنیب و انتخابی اصلاحات پرخوشی کی بجائے لانگ مارچ منسوخی کا افسوس ہے ۔اس وقت حالات کا تقاضا ہے

کہ ملک کی سیاسی قیادت جمہوریت کی روح کو سمجھے، نیب اورانتخابی اصطلاحات کے لیے تمام رنجشیں، شکوے بھلا کر ایک میز پر بیٹھیںاور باہمی مشاورت سے اداروں میں اصلاحاتی عمل کو یقینی بنائیں ،ملک کی سیاسی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے درمیان نا اتفاقی کو ہوا دے کر کسے فائدہ پہنچا رہے ہیں، سیاستدان الزام تراشی کے جس عمل میں ڈوب چکے ہیں، اس سے باہر نکلنا ہو گا، سیاسی تصادم کی بجائے ادارتی اصلاحات کو فروغ دینا ہو گااپنی ناہلیوںکا الزام اسٹیبلشمنٹ کو دینے کے بجائے سیاسی قوتوں کو خود احتسابی کے عمل سے، گزرنا ہو گا ،تبھی ملک میں ووٹ کو عزت اورجمہوریت کو فروغ ملے گا اور ادارے بھی اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے سے گریز کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں