سزاکے خوف سے جنسی جرائم کا سد باب !
تحریر:شاہد ندیم احمد
لاہور موٹر وے لنک روڈ پر پر تین بچوں کی والدہ کے ساتھ جنسی زیادتی کا انتہائی درد ناک واقعہ ہوا، کراچی میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کردیاگیا، اسلام آباد میں سائیکلسٹ ثمر خان کو جس طرح بھری سڑک پر ہراساں کیا گیا،یہ سب غلط ہے،لیکن اس غلط کو صرف غلط کہنا کافی نہیں،ہر تھوڑے عرصے بعد ایسا کوئی دلخراش واقعہ میڈیا کی زینت بنتا ہے، سب اس پر کہتے ہیں کہ غلط ہوا اور پھر کوئی دوسرا واقعہ ہونے تک بات کہیں دب جاتی ہے،ہم جب تک ان دبی ہوئی باتوں کو روزانہ کی بنیاد پر معاشرے کے سامنے نہیں لاتے رہیں گے،
سخت قوانین کی عملداری کو یقینی نہیں بنائیں گے ،اس وقت تک ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ یہ غلط کبھی ختم بھی ہو گا۔
اس میں شک نہیں کہ معاشرتی برائی کو سب کے سامنے لانے کے ساتھ سزاو جزا کی فوری عملداری سے ہی جرائم کے سد باب کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ، لاہور موٹر وے لنک روڈ پر پر تین بچوں کی والدہ کے ساتھ جنسی زیادتی کیس میںقانون کے تمام اداروں نے چیلنج کے طور پر لیتے ہوئے منتقی انجام تک پہنچایا ہے ،انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج ارشدحسین بھٹہ نے موٹروے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے مقدمہ میں جرم ثابت ہونے پر عابد ملہی اور شفقت محمود کوموت کی سزاکاحکم سنا دیا،فاضل جج نے کیمپ جیل میں تقریباً 6 ماہ کی عدالتی کارروائی کے بعدمحفوظ کیا گیا
فیصلہ کیمپ جیل لاہور جاکرسنا یا ہے۔فیصلے میں مجرموں کی جائیدادیں ضبط،50،50 ہزار روپے جرمانہ،ڈکیتی کے جرم میں14،14 سال قید،2،2 لاکھ روپے جرمانہ اور گاڑی توڑنے پر5 سال قید اور50 ہزار جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے ،اس فیصلے پروزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان کاکہناہے کہ اس کیس کا منصفانہ اور ریپڈ ٹرائل پاکستان میں زیادتی جیسے بہیمانہ جرائم کو روکنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔
یہ امر واضح ہے کہ اس گینگ ریپ کیس کے فیصلے سے متاثرین کو انصاف تو مل گیااور مجرم جلد ہی کیفرِ کردار تک بھی پہنچ جائیں گے،تاہم قانونی اداروں کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیںہے، اس مسئلے کا صائب حل یہی ہے کہ آئندہ ایسے واقعات رونما ہی نہ ہونے دیئے جائیں، اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنی سڑکوں اور شاہراہوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے، اکثر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ فلاں دور میں امن و امان کی صورتحال اتنی اچھی تھی یا اس قدرقانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا گیا تھاکہ زیورات سے لدی پھندی خواتین ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تنِ تنہا سفر کیا کرتی تھیں اور کوئی ان کی طرف بُری نظر سے نہیں دیکھ سکتا تھا،اگر اگر ایسا کچھ ماضی کے پسماندہ ادوار میں ممکن ہو سکتا تھا تو آج کے جدید دور میں ممکن کیوں نہیں ہے، جبکہ مواصلات کے حوالے سے بے حد ترقی یافتہ ایجادات سامنے آ چکی ہیں،قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میںکیا امر مانع ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہی امن و امان کی اطمینان بخش صورتحال کا راز مضمر ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں خواتین کے ساتھ زیاتی کا پہلا واقعہ نہیں ہے ،ملک بھر کے مختلف شہروں میںآئے روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور حکومتیں سد باب کے وعدے ،دعوئے بھی کرتی رہی ہیں ،مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد گرد کی دھول میں سب کچھ کہیں گم ہو جاتا ہے،حالا نکہ قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ادارے اور حکام بخوبی آگاہ ہوں گے کہ کسی بھی طرح کے جرم کے مرتکب افراد کا تعلق چاہے کسی معاشرے کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو،ان کے خلاف قانون کے تحت یکساں سلوک کیا جائے گا تو اس سے خصوصی طور پر جرائم پیشہ افراد کے دلوں میں قانون
اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دھاک بیٹھے گی اور وہ پکڑے جانے اور کڑی سزا کے خوف سے کوئی معاشرتی واخلاقی اورقانونی حد ود پار نہیں کریں گے ،لیکن جب تک جرائم پیشہ افراد کو قانون کی زد میں آنے سے بچنے کے چور راستے ملتے رہیں گے ،رشوت یا سفارش کا سہارا لے کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو تے رہیں گے ،اس وقت تک ملک بھر میں وارداتیں زیادہ بڑی اور پہلے سے زیادہ دیدہ دلیری سے ہوتی ر ہیں گی ۔
اس میںکوئی دورائے نہیں کہ اس موٹر وے گینگ ریپ کے مجرموں کو جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچانے سے جہاں ایسے مزید سانحات کا سدِ باب ممکن ہو سکے گا، وہیں سزاکے خوف سے اب کوئی قانونی حد پار بھی نہیں کرے گا،تاہم یہاں ایک توجہ طلب معاملہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ بالا کیس میں مجرموں کا سراغ جائے واردات سے ملنے والے سیمپلز اور مجرموں کے ڈی این اے ڈیٹا کو میچ کرنے کے نتیجے میں ملاہے، اگر اس کیس کی تفتیش کی روشنی میںپہلے سے ہی جرائم پیشہ افراد کا ڈی این اے ڈیٹا، اپ ٹو ڈیٹ رکھنے کے اقدامات کیے جائیں تو اس سے مجرموں تک پہنچنے ،
انہیں عدالت کے کٹہرے میں لانے، سزا دلوانے،سزا پر عمل درآمد کرنے میں آسانی ہو گی اور یوں سنگین جرائم کے گراف کو بھی نیچے لایا جا سکے گا۔ اس سانحے کے بعد ملک بھر میں شاہراہوں کو محفوظ بنانے کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کا آغاز اب تک ہو جانا چاہیے تھا، اگر نہیں ہوا ہے تو اب اس حوالے سے اقدامات میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، اس سلسلے میں بہترین اقدامات نا گزیر ہیں، اگرقانون اپنا کام درست طریقے سے کرتا رہے گاا ور سماجی رویوں میں تبدیلی کی کوششیں بھی جاری رہیں گی تو یقینی طور پر ایسے جرائم کے تعداد میں کمی ضرورآکر رہے گی،بس غلط کو غلط کہنے کے ساتھ صحیح سمت قدم اٹھاتے رہنے کی دیر ہے۔