’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 285

’’23 مارچ اور قومی ذمہ داری‘‘

’’23 مارچ اور قومی ذمہ داری‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
1906ء میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا تو پھر 34 سال بعد 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں ایک قرار داد پاس ہوئی، جس میں لفظ پاکستان کا ذکر نہیں تھا، تاہم قرار داد میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کسی ایسے پلان کو قبول نہیں کرے گی جس میں ہندوستان میں موجود مسلم اکثریتی ریاستوں کو مکمل آزادانہ حیثیت میں کام نہیں کرنے دیا جائے گا، قرار داد میں اس ابہام کے باوجود ہندوستان کے اخبارات نے اسے ’’قرار داد پاکستان‘‘ سے تعبیر کیا، اور 24 مارچ 1940ء کو انڈین اخبارات کی اس حوالے سے شہ سرخیاں تھیں،

1940ء سے 1947ء کے عرصہ کے دوران آزادی کی تحریک جس سرد گرم ماحول سے گزری اس دوران کانگریس کی قیادت میں موجود انتہا پسندوں کی ذہنیت اور ان کا کردار کھل کر سامنے آ گیا، جس کے بعد ہندوستان کی مسلم آبادی اور مسلم لیگ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ وہ ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کرے، مگر 14 اگست 1947ء کو جن علاقوں پر مشتمل پاکستانی ریاست کو آزادی ملی اس میں سب سے بڑا المیہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم تصور کیا گیا، جس کے بعد میں نتائج بھی بھگتنا پڑے، سو قیام پاکستان کے وقت دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی،

لاکھوں مسلمان جن میں خواتین بچے بھی شامل تھے نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے، پاکستانی قوم 23 مارچ کو ایک قومی دن کے طور پر مناتی ہے، مگر اس کی طویل تاریخ کا نسل نو کو علم نہیں نہ ہی اس بارے آنے والی نسلوں کو آگاہی دی جا رہی ہے، اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری نسلوں کی اکثریت کو یوم پاکستان اور یوم آزادی کے دن کی افادیت بارے ہی علم نہیں کیونکہ انہیں اس بارے آگاہ کرنے والوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، نوجوان نسل تو اب یہودی لابی کی سازش سوشل میڈیا کے گرداب میں جکڑی ہوئی ہے۔

جس کے نوجوان نسل پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اب تو 23 مارچ کے دن کو صرف ایک قومی چھٹی کے طور پر منایا جاتا ہے تا ہم اسلام آباد میں 23 مارچ کی نسبت سے ایک پروقار تقریب (پریڈ) ہوتی ہے، جس میں مختلف طبقات کے خدمات سر انجام دینے والی شخصیات کو تمغہ جات اور ستاروں سے نوازا جاتا ہے، 23 مارچ کے دن کا ذکر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ہماری نوجوان نسل بالخصوص تعلیمی اداروں، یونیورسٹیز میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کو اس دن کی افادیت بارے آگاہ نہ کیا جائے اور انہیں یہ پتہ نہ ہو کہ 23 مارچ کی تاریخی اہمیت کیا ہے

اور یہ ملک کیسے وجود میں آیا، مگر کسی حکومت یا حکمران نے اس بارے کبھی نہیں سوچا کہ وہ اپنی آئندہ نسل کو اس دن کے حوالے سے آگاہ کریں، 23 مارچ کا دن آتا ہے، سرکاری طور پر اکا دکا تقریبات بڑے شہروں میں اس حوالے سے منعقد ہوتی ہیں اور یہ دن گزر جاتا ہے، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ اگر 23 مارچ 1940ء کو قرار داد پاس نہ ہوتی تو پھر 14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نہ آتا اور آج ان مسلمانوں کی اکثریت جو پاکستان میں سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں اور مختلف ذرائع سے اکٹھے کئے گئے سرمایہ سے پاک وطن میں شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور ملک سے ظالمانہ سلوک کر کے اپنے اثاثوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ آئے

روز اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کے سکینڈل منسلک ہوتے ہیں وہ آزادی نہ ہونے کی صورت میں ہندوستان میں غلامی کی سی زندگی گزار رہے ہوتے؟ نسل نو کو کیا پتہ کہ پاکستان حاصل کرنے کیلئے ہمارے ابائو اجداد نے کیا کیا پاپڑ بیلے اور جتن کئے۔ جس کے نتیجہ میں عالمی نقشہ پر نئی ریاست کی لکیریں ابھری۔ ہمیں اپنی نسل نو کو بتانا ہو گا کہ قائد اعظم محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے، عہدہ کے لحاظ سے ان کی زیر صدارت لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تھا جس میں شیر بنگال مولوی اے کے فضل حق مرحوم نے 23 مارچ 1940ء کے روز تاریخ ساز قرار داد پیش کی جس میں برصغیر کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں مسلمانوں کی

اکثریت آبادی والے علاقوں پر مشتمل جداگانہ آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا، اجلاس میں قرار داد کا منظور ہونا تھا کہ جنوبی ایشیاء کی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی کی دعویدار آل انڈیا کانگریس جو پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہی تسلیم نہیں کرتی تھی کے بڑے چھوٹے رہنمائوں سمیت انڈین پریس نے اس قرار داد کو قرار داد پاکستان کا نام دے کر اس کی بھرپور مخالفت کا بیڑا اٹھا لیا، مگر مکار ہندوبنیا کی سر توڑ کوششوں، مخالفت، سازشوں، انگریز حکومت کی مسلم کش دشمنی اور مکارانہ پالیسیوں کے باوجود قرار داد پاکستان کے منظور ہونے کے تقریبا ساڑھے 7 سال بعد مسلمانوں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں اس مطالبے نے حقیقت کا روپ دھار لیا اور پاکستان ایک آزاد ریاست کی صورت میں وجود میں آ گیا، اس طرح 23 مارچ اور 14 اگست دونوں ملک میں قومی دنوں کے طور پر منائے جاتے ہیں،

اور ان دونوں دنوں کو ہم قومی تہوار کی حیثیت سے بطور یوم پاکستان اور بطور یوم آزادی مناتے ہیں، 23 مارچ کی اہمیت کچھ یوں بھی بڑھی کہ 1956ء میں اس دن کو پہلی بار سرکاری طور پر منایا گیا، اور ملک کے تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کو چھٹی دی گئی اور اس دن کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد ہوا، جس کے بعد پاکستان کے اسلامی جمہوریہ بننے کے الفاظ سننے کو ملے، اس طرح 23 مارچ کے ساتھ یوم جمہوریہ کی نسبت جڑ گئی،

تا ہم 7 اکتوبر 1958ء کو ملک میں پہلے مارشل لاء کے ساتھ 1956ء کا آئین منسوخ کر دیا گیا، پھر پاکستان کا آئین 1962ء میں آیا جس میں انتظامیہ اور انصرامی ڈھانچہ میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں، تا ہم 1965ء میں قومی اسمبلی نے پھر آئین میں ترمیم کی اور پاکستان کے آئینی نام میں اسلامی کا اضافہ کیا، یوں پھر پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے لگا، 23 مارچ وہ دن ہے جس کی اہمیت بارے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن کالم چونکہ مختصر ہوتا ہے اس لئے راقم بھی اسے محدود لکھ رہا ہے۔
یہاں ضرورت اس امر کی ہے

کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو 23 مارچ 1940ء اور 14 اگست 1947ء کے بارے آگاہ کریں کہ پاکستان کا قیام کتنے جتن اور مشکل کٹھن مرحلے کے بعد وجود میں آیا اور اس میں لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل تھا، ملک کو معروض وجود میں آئے ہوئے تقریبا 74 سال ہو چکے ہیں، ہر آنے والا جمہوری حکمران اس ملک کے خزانے سے کھلواڑ کرتا ہے، ہمیں اس دن کی نسبت سے عہد کرنا ہو گا کہ ہم اس ملک کی حفاظت کیلئے آئندہ ایسے حکمران چن کر اسمبلیوں میں بھجوائیں جو ملک اور قوم کے خیر خواہ ہوں، نا کہ وہ ماضی کی طرح ملک کو کھوکھلا کرنے والے۔ ہمیں اس دن کی نسبت سے یہ بھی عہد کرنا ہو گا کہ ہم اس ملک کی حفاظت کیلئے اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے تو پھر یہ ملک بنے گا ریاست مدینہ، کھوکھلے نعروں، جھوٹے وعدوں اور سیاسی بیان بازی سے کبھی ملک ریاست مدینہ نہیں بنتے اس لئے قوم کو عہد کرنا ہو گا کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان دنوں کی افادیت بارے آگاہ کریں اور ملک کی بقاء کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں