عورت مارچ قرار داد پاکستان کے تناظر میں 148

عورت مارچ قرار داد پاکستان کے تناظر میں

عورت مارچ قرار داد پاکستان کے تناظر میں

تحریر: قمرالنساء قمر
[email protected]
مارچ کا مہینہ جو قراد داد پاکستان کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اب یہ عورت مارچ کے حوالے سے بھی پہچان بنا چکا ہے۔ اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ کیا عورت مارچ کا منشور نظریہ پاکستان سے مطابقت رکھتا ہے۔ تئیس مارچ کو نہایت کھٹن حالات اور بے پناہ رکاوٹوں کے باوجود ہمارے راہنماؤں نے قرار داد پاکستان پیش کی۔بنیادی مقصد صرف ایک تھا ایک ایسی مملکت جہاں مسلمان اپنے نظریات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ بعد ازاں اقبال و جناح نے واضح کر دیا کہ نظریہ اسلام ہی دراصل نظریہ پاکستان ہے۔اس لیے وطن عزیز کا آیئن نظریہ اسلام پر قائم ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو اسلامی جمہوریہ کا نام دیا گیا۔مسلمانوں کی بے شمار قربانیوں کے بعد یہ ملک وجود میں آیا۔ اور ایک زندہ قوم بن کر دنیا اسلام کے نقشے پر ایٹمی قوت بن کر نمودار ہوا۔ مملکت خداد پاکستان حاصل کرنے بعد ایک ایسا آئین تشکیل دیا گیا، جس کی اساس ان نظریات کا مجموعہ تھا، جن کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ کسی بھی قوم یا گروہ انسانی کی پہچان اس کے نظریات سے ہی ہوتی ہے۔اس میں تین قسم کے نظریات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ان میں کسی قوم کے مذہبی، ثقافتی و معاشرتی ، اور ریاستی و آئینی، نظریات شامل ہیں۔ عورت مارچ جو پچھلے تین سال سے متنازع حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ان تینوں نظریات کی تناظر میں اس کا جائزہ لے لیتے ہیں۔سب سے پہلے اسے مذہبی نظریہ کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔کہ بقول شاعر مشرق

قوم مذہب سے ہے’ مذہب جو نہیں’ تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں’ محفل انجم بھی نہیں

اس مارچ میں جو نعرے لگائیں گئے ہیں، وہ کسی بھی قیمت پر اسلام کو ماننے والے کے نعرے نہیں ہو سکتے۔ان میں سر فہرست نعرے ،جن میں سرعام یہ کہا گیا کہ ہم چھین لے گے آزادی اور اگلے الفاظ تھے( نعوذ باللہ) اللہ بھی سن لے، رسول بھی سن لے، اولیا بھی سن لے، اقبال بھی سن لے، وغیرہ۔یہ ویڈیو بہت وائرل ہوئی عوام کا سخت ردعمل آیا تو مارچ انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا کہ ویڈیو میں ایڈیٹنگ کی گئی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا تھا اللہ نہیں ’’ملا‘‘ کہا گیا تھا’’ اولیا‘‘ نہیں’’ اوریا‘‘ کہا گیا تھا۔جب کہ رسول بھی سن لے، کی کوئی تاویل پیش نہیں کر سکے۔ ان کی تاویلات میں کجی واضح ہے۔مبادیات دین سے نا واقف ہیں یہ لوگ۔ قرآن کہتا ہے۔ تو آئے محبوب! تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے

جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں،، (النساء 65 )دوسرا ان کی تصحیح کے مطابق اگر مان لیا جائے کہ’’ اللہ‘‘ نہیں ’’ملا‘‘ کہا گیا تھا تو علماء (ملا) تو دین کے وارث اور قرآن و حدیث کے ترجمان ہیں۔ تو جو شخص علماء کو چیلنج کر رہا ہے۔ وہ قرآن و حدیث کو چیلنج کر رہا۔ دوسرا مارچ میں فرانس کے جھنڈے لہرائے گئے فرانس نے نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومتی سطح پر گستاخی کی بلکہ تمام مغربی ممالک اسلام مخالف ایجنڈے پر اس کی چھتری تلے جمع ہو رہے ہیں، اور یہ ان کو لیڈ کر رہا۔ اس حوالے سے عوام کی طرف سے سخت ردعمل آنے کے بعد مارچ انتظامیہ نے کہا کہ یہ فرانس کا جھنڈا ہی نہیں۔ حالنکہ سب کچھ آن ریکارڈ ہے۔اگر اس وڈیو اور جھنڈے سے ایک لمحے کے لیے صرف نظر کر لیں، تو وہ پوسٹرز جن میں اسلام مخالف نعروں کی بھرمار ہیں۔ یہ لوگ ان کے حوالے سے کیا کہے گے

گھٹیا ترین نعرہ ?? میری مرضی،، ( پہلا حصہ لکھتے ہوئیبطور مسلمان بطور عورت مجھے شرم آتی ہے)کے حوالے سے بات کی جائے تو جب کوئی شخص اسلام کی پناہ گاہ میں آتا ہے، تو وہ اور اس کی مرضی دونوں اس کے معبود برحق کی تابع ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ??اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہیکہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا کچھ اختیار رہے۔( احزاب 36)پھر وہ نعرے بھی ان ریکارڈ ہیں ،جن میں مسجد اور خطیب کی بے حرمتی کی گئی اسلام کو چیلنج کیا گیا۔مزید کچھ اس طرح کے نعرے تھے۔ ہم لایئں گے

نیا انقلاب بن داڑھی کارل مارکس، حیا کاتعلق لباس سے نہیں،، حجاب کو پیس آف شٹ کہا گیا۔ ایسے ایسے معاملات ہوئے جو بیان نہیں کیے جا سکتے۔ نا جانے اور کتنے ہی ایسے گھٹیا نعروں کے ذریعے شعائر اسلام کو کھلا چیلنج کیا گیا۔( جن کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔) نکاح کو انگریز کی سازش قرار دینا،ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی موجودگی، ہم جنس پرستی کا مطالبہ بطور اپنا حق کرنا ، پچھلے مارچ میں فطری لباس میں عورت کا روڈ بلاک کر دینا،(عورتوں کے نام پر دھبہ ایسی خواتین کو عورت کہنے پر میں تمام عورتوں سے معذرت خواہ ہوں ) کیا کوئی مسلمان یہ سب سوچ بھی سکتا! کیا یہ انداز ہوتا کسی مہذب قوم کا اپنا حق مانگنے کا! نام نہاد انسانی حقوق، کی تنظیمیں بھی اس مارچ میں شامل تھیں۔

کیا کشمیری خواتین کی لٹتی عثمتوں کا ذکر کیا انہوں نے، کیا برما میں زندہ جلاے جانے والے بچوں کی بات کی گئی۔ فلسطین کے بچوں پر چڑھتے ٹینکوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ کیا مغربی ممالک میں مسلمان عورت پر لگنے والی حجاب کی پابندی پر عورت کے حق حجاب کی بات کی گئی۔ بھارت کے مسلمانوں اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے طلبائ￿ پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ اگر ہم اسے ثقافتی ،معاشرتی ،نظریات کے تناظر میں دیکھیں، تو اس حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ہے، کہ یہ مسلم معاشرے کی عورتیں ہیں، اور اسلام نے جتنے حقوق عورت کو دیئے ہیں، دنیا کیکسی مذہب، اور کسی قوم نے نہیں دیئے۔ نہ قبل از اسلام نہ بعد از اسلام، تو کیا ان عورتوں نے مطالبہ کیا ،کہ جو حقوق اسلام نے ہمیں دیئے ہیں،

ان پر قانون سازی کی جائے، اور ان کو نافذ کیا جائیں۔کیا ان عورتوں کے مطالبات، انداز ،اور نعرے ،ہمارے معاشرے کی خواتین اور ان کے مسائل سے مطابقت رکھتے تھے، یا ہمارے مسائل کی ترجمانی کرتے تھے۔کیا عافیہ صدیقی ،کی رہائی کا مطالبہ تھا۔ کیا ?? تھر،، کی عورتیں جو تین ماہ میں اپنے ننانوے بچے بھوک کی وجہ سے کھو دیتیں ہیں، ان کی بات کی گئی۔ان کی خوراک اور ادویات اور صاف پانی کی دستیابی کا مطالبہ کیا گیا۔کیا تعلیم کی بات کی گیی۔ کیا ہر سال گھروں سے نکل کر یا اغواء ہو کر لاکھوں بکنے والی خواتین ،جو سمگل ہو جاتی، یا بالا خانوں پر بیچ دی جاتی ہیں ،

ان کی بات کی گئی۔اس کی وجوہات اور حل کو موضوع بحث، بنایا گیا۔یا اس کی بجائے وہ آزادی مانگی گئی، جو تحفظ اور حقوق تو نہیں دے سکتی، البتہ طوائف زادی بننے کی راہ ضرور ہموار کر سکتی ہے۔ کیا ونی، کارو کاری، کی بات ہوئی، کیا بیوہ کے دوسرے نکاح کی بات ہوئی، کیا جائیداد میں عورت کے حق کی بات کی گئی، کیا عورتوں کی مردوں سے زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے نکاح میں تاخیر ، اور عورتوں کے بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل کے حل، کی بات کی گئی، کیا جہیز کی قبیح رسم کو ختم کرنے کے لیئے قانون سازی کی بات کی گئی۔ کیا گھر کی کفالت کرنے والی عورت کا نکاح اس کی کمائی کی وجہ سے روک دینے کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔کیا جیلوں میں سزا کاٹتی عورتوں کے ساتھ جیل میں پیش آنے والے مسائل اور فیصلوں میں تاخیر کی بات کی گئی۔ عورت کو سفری سہولیات دینے کی بات کی گئی۔ ان بزرگ ماؤں کے حق کی بات کی گئی،

جو انہی جیسی عورتوں کی وجہ سے ایدھی سینٹر، میں بے یار مدد گار چھوڑ دی جاتی ہیں۔ کیا ان لوگوں کے پاس کوئی منشور نام کی چیز تھی۔ نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی باتوں میں تضاد تھا اور گھٹیا نعروں کی تاویلات تھیں۔ کیا مندرجہ بالا مسائل ہمارے معاشرے کے ہیں یا ہمارا مسئلہ ثالن گرم کرنا، موزہ ڈھونڈنا تھا۔خود کو آوارہ، لوفر ،لفنگی کہلوانا، کیا اس معاشرے کی عورت کا مسئلہ ہے۔ یا پھر ہمارا مسئلہ بے حیائی سے بیٹھنے کا طریقہ ،یا پدر شاہی نظام ہے، یا باپ اور شوہر کو گالی دینے کا حق نہ ہونا یا ان کی آنکھوں پر دوپٹہ باندھوانا ہمارے معاشرے کی خواتین کا مسئلہ تھا۔ کیا سر عام نشہ ،کرتی بے ہودگی سے سگریٹ پھونکتی، نیم برہنہ ناچتی، بے حیائی کے ریکارڈ توڑتی خود کو آوارہ، اور لوفر ،کہتی عورتیں،

اس معاشرے کی عورت اور اس کے مسائل کی ترجمانی کر رہی تھی۔ یا پاکستانی معاشرے کی با عزت عورت کی تذلیل کرنے کا مشن لے کر گئی تھی۔ جن کا نصاب، امریکہ اور یورپ سے آیا ہو وہ ہماری غیور عزت مآب مسلمان عورتوں کی ترجمان ہو بھی نہیں سکتیں۔ ہر باشعور سمجھ سکتا تھا بے حیائی اور فحاشی سے ہٹ کر بات کی ہی نہیں گئی۔ مارچ میں صرف جسم ہی جسم کی بات تھی، اور جسم ہی جسم نظر آتا تھا۔ جب کے عورت روح، عزت، عصمت ،تکریم و توقیر، وقار، پاکیزگی خودی ذات ،عزت نفس، پاکیزہ سوچ، اعلیٰ کردار، شرم وحیا ،کا حسین امتزاج ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ شعائر اسلام، کا مذاق اڑاتی عورتیں آزادی نسواں نہیں اسلام سے آزادی کی علمبردار تھی۔ یہ مشرق کی نہیں مغرب کی ترجمان تھی۔

اور مغرب کے زریں اصولوں کی پیروی کرنا چاہتیں تھیں۔اس مغرب کی جہاں صرف نیو یارک، میں ہونے والے ریپ کی تعداد پورے پاکستان سے کہی زیادہ ہے۔ وہی مغربی ملک جو زیادتی کے واقعات میں دنیا کے ٹاپ ٹین ملکوں میں شامل ہیں، یہ اس امریکہ کے زریں اصول پر چلنا چاہتی ہے ،جو ایک رپورٹ کے مطابق عورت کو اس کے حقوق نہ دینے میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ اس یورپ کی تقلید چاہتی ہیں۔جس میں ایف آر اے سروے کے مطابق یورپ بھر کی خواتین غیر محفوظ ترین قرار دی گئی، یورپ کے ستائیس ممالک میں موجود خواتین پر جنسی اور جسمانی تشدد کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ جانے کا انکشاف کیا گیا۔

،اس رپورٹ کے مطابق یورپ کی خواتین نے گھر سے نکلنا کم کر دیا ہیں۔اسی ماہ امریکی ریاست ٹینیسیی سے تعلق رکھنے والی خاتون نے جامعہ بنوریہ میں ا?کر اسلام قبول کیا ہے۔اس موقع پر نومسلمہ ٹیفنی سلسیٹ اسمتھ نے گفتگوکرتے ہوئے کہا ??اسلام نے خواتین کو سب سے زیادہ حقوق مہیا کیے ہیں،،۔ ذرا غور کریں، مغرب کی عورت اسلام قبول کر کے یہ بیان دیں رہی، اور یہاں کی چند فنڈڈ عورتیں، مسلمان عورتوں، کو راہ سے بھٹکا کر تباہی اور ذلت کے راستے پر چلانا چاہ رہی ہیں۔ اب اس مارچ کو ریاستی اور آئینی حیثیت کے تناظر میں دیکھ لیتے ہیں۔

پاکستان کے آئین کے مطابق ??اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ،اس ملک کا قانون قران و حدیث کے مطابق ہو گا،،۔اقتدار کا مالک اللہ ہے۔ تو مرضی بھی اسی کی ہوگی قانون بھی اسی کا چلے گا۔پھر ??ان فنڈڈ کی مرضی،، چہ معنی دارد، انہوں نے اپنی مرضی کرتے ہوئے ،ہر قسم کی نام نہاد تنظیموں کے جھنڈوں کے ساتھ فرانس کا جھنڈا لہرایا ، صرف پاکستان کا جھنڈا ہی ان کی مرضی میں شامل نہیں تھا۔ پاکستان کو جس نعرے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا اسی نعرے سے ہی اختلاف کس سمت اشارہ کر رہا ہے۔اس نعرے کی توہین کرتے ہوئے کہا، پاکستان کا مطلب کیا ??فوجی۔ ملا۔۔۔۔

، یعنی یہ نہ صرف ہماریے ان نظریات پر حملہ کر رہی، جو ہمارا اثاثہ ہیں بلکہ انہیں اس نظریے سے ہی اختلاف ہیں، جس کی بنیاد پر پاکستان کا حصول ممکن ہوا۔ ہم جنس، پرستی جیسے مطالبے کئے گئے،جو نہ صرف اسلام بلکہ آیئن پاکستان کے بھی خلاف ہے۔اینٹی اسلام اور اینٹی کلچر نعروں کی بھرمار تھی۔ ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ یہ مارچ ہمارے مذہب،ثقافت،اور ریاستی پالیسی سے ہر گز مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس معاشرے کی عورت کے مسائل کی نمائندگی نہیں بین الاقوامی تنظیم کے ایجنڈے?” اسقاط حمل اور ،ہم جنس پرستی، کو قانونی تحفظ دینے کے،،

ایجنڈے کی نمائندگی کر رہا تھا۔ ہمارے معاشرتی و خاندانی نظام پر حملہ تھا۔ اس میں نہ صرف مسلمان عورتوں کی تذلیل تھی، بلکہ خلاف آیئن نعرے وطن عزیز کی توہین پر مبنی تھے۔ سر عام شاعر مشرق اقبال رحم? اللہ علیہ اور پاک فوج کی توہین کی گئی۔ کیونکہ فنڈڈ کا نظریہ قرارداد پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی ایسا مطالبہ کرتا ہے، جو مذہب اور آئین سے ہم آہنگ نہیں تو وہ یقیناً اغیار کی سازش ہے۔ ملک دشمن عناصر عورت مارچ کی آڑ میں گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ملک کی نظریاتی اساس،اور دین کی مبادیات، ان کا ٹارگٹ ہے۔

حکومت وقت کو چاہیے کہ جلد از جلد اس مارچ کی حقیقت کو حکومتی سطح پر بے نقاب کر یں۔ اور ملک دشمن عناصر کو سخت سے سخت سزا دیں۔ ملک دشمن عناصر بھی یاد رکھیں،تاریخ گواہ ہے ہم اس ملک اور اس کے نظریات کے خلاف اٹھنے والے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا جانتے ہیں۔ ہم اس نظریے کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیں گے۔ جس کے بیج کو ہمارے بزرگوں نے سخت مخالفت کے باوجود بویا۔ اپنے لہو سے اسے سیراب کیا۔ اپنی عزت جان و مال کی قربانی دیں کر پروان چڑھایا۔ اور لاکھوں پیاروں کی لاشوں کو چھوڑ کر بے سروسامانی میں ہجرت کر کے اسے جلا بخشی۔ہمارا مشترکہ عہد ہے، اپنی ذات سے، وطن عزیز سے دشمن سے اور اپنے راہنماؤں سے انہوں نے خون کی ندیاں بہا کر جس نظریہ پر اس ملک کو حاصل کیا۔ہم اپنے لہو کے ایک ایک قطرے سے اس نظریے کی پاسبانی کریں گے۔ اپنی ہر سانس پاک سر زمین کے حضور نظر کر دیں گے۔

خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
پاکستان زندہ باد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں