آج کےدورکےہم مسلمان اور ہماراقوی تر ایمان 257

احکام خداوندی کی آدایگی میں انسانیت کی دل آزاری سے بچنا از حد ضروری

نقاش نائطی
۔ +9665044960485

حسن اخلاق سے دعوت دین پھیلانے والے ہم مسلمان، اپنے بے جا اعمال سے برادران وطن کے، دلوں میں نفرت پروان چڑھا رہے ہیں

ایک ایسے ماحول میں جہاں سنگھی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف صف آرا ہیں بلکہ اپنے ھندو اکثریتی ووٹ کو ہتھیانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی بہانے سے نفرت پھیلا کر ،اپنے اقتدار کو حیات دوام بخشنے کو تیار بیٹھے ہیں، اس صورتحال میں ہم مسلمان بھی نادانی میں انہیں کوئی نہ کوئی موقع فراہم کرتے پائے جاتے ہیں

یہ ویڈیو کلپ جھاڑکھنڈ کی جو بتائی جارہی ہے دراصل یہ پیلیوال کی بڑی مشہور و مصروف ہزاری باغ چھاترا مرکزی سڑک پر قائم ابراھیمی جمعہ مسجد کی ہے، جس کے پاس سے گزرنے والی گاڑیوں کو روک کر، سر راہ صرف ایک صف میں کچھ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور انکے یوں سر راہ بیٹھنے سے آتی جاتی مسلم غیر مسلم سواریوں کو تکلیف ہورہی ہے۔ جب کہ سڑک کنارے کافی جگہ خالی ہے جہاں پر یہ مسلمان اپنے بچوں کو لے کر بیٹھ سکتے تھے۔ یہ اور بات ہے اس دن جمعہ نماز کے لئے سڑک پر بیٹھے ان بچوں کی تصویر سائبر میڈیا پر وائرل کر دو مختلف مذہبی دھڑوں میں منافرت پھیلانے کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے وہاں کی مقامی سیکولر پولیس نے سائبر میڈیا پر فوٹو وائرل کرنے والے چند برادران وطن کو وقتی طور حراست میں بھی لےچکی تھی اور اس وائرل ویڈیو پر اسلام دشمن بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین سڑک پر بیٹھے

ان مسلمان بچوں کو بے قصور بتاتے ہوئے، انکے سرپرستوں کو زیر حراست لینے کی صلاح دیتے ٹویٹ کرتے جلتی پر آگ چھڑکنے کا کام کر چکی ہیں۔اور یہ بات بھی ہر کسی کے علم میں ہے کہ ہزاری باغ والا یہ علاقہ ہمیشہ سے ھندو مسلم منافرت کے لئے مشہور رہا ہے۔اللہ نہ کرے، خصوصا کئی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کو پولرائز کرتے ہوئے ہندو ووٹ ہتھیانے کی خاطر،اس واقعہ کو نشانہ بناکر شدت پسند سنگھی قوتیں کوئی دنگا فساد کروا دیتے اور مسلمانوں کی جان و مال کا نقصان ہوتا تو اس کے ذمہ دار کون ہوتا؟

معاملہ ہزاری باغ کا ہو یا بھارت کے کسی بھی مسلم اکثریتی حصہ علاقہ کا، خطبہ جمعہ عموما” بیس پچیس منٹ یا آدھے گھنٹے تک کا ہوتا ہے۔ کیا اس آدھے گھنٹے کے وقفے تک مرکزی شاہراہ پر، یوں بے تکے انداز سڑک بندکر رکھنا، کیا اس سنگھی منافرتی ماحول میں، ہم مسلمانوں کا، ان ھندو شدت پسند قوتوں کو ہمارےاور ہمارے مذہب کے خلاف زہر افشانی پھیلانے کا بہانہ بنا کر، معتدل مزاج برادران وطن کو ہم مسلمانوں کے خلاف ورغلانے بھڑکانے کے لئےان شدت پسند سنگھیوں کو، آ بیل مجھے مار جیسے، موقع فراہم کئے جیسا عمل تو نہیں ہے؟ جبکہ ہمارادین اسلام انسانیت کے ساتھ حسن سلوک کی دعوت ہمیں دیتا ہے، تو کیا ہم داعی اسلام ہوتے ہوئے، اپنے ان بیجا اعمال سے، اپنے برادران وطن کو، اپنے سے اور اپنے دین اسلام سے متنفر کرنے کا غیر ضروری عمل تو نہیں کررہے ہیں؟

اس ویڈیو کلپ ہی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں کے مسلمان سرراہ ایک لمبی صف میں بیٹھتے ہوئے پورا راستہ آنے جانے والی ٹریفک کے لئےبند کرنے کے بجائے، سڑک کنارے دوچار اور انکے پیچھے دوچار بیٹھے رہتے اور آنے جانے والی سواریوں کو آرام سے نکلنے دیا ہوتا تو بہتر ہوتا اور اگر بالفرض جمعہ کی نماز کھڑی ہونے پر دو چار منٹ کے لئے درمیان سڑک میں بھی کھڑا ہو کر نماز پڑھی جاتی تو،

یقینا وہاں کے غیر مسلموں کو بھی اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی اتنی لمبی سڑک آدھے گھنٹے تک بند کرنے سے ہوتی، اور ہم اپنے عمل صالح سے ان کے دلوں میں نہ صرف اپنے لئے، بلکہ دین اسلام کے لئے بھی عزت میں اضافہ کر رہے ہوتے۔ اللہ ہی ہم مسلمانوں کو اس وطن عزیز بھارت میں اور وہ بھی ھندو مذہبی شدت پسندی والے منافرتی دور میں، ہمارے اطراف کثرت سے بسنے والے برادران وطن کے ساتھ، حسن سلوک کے ساتھ رہتے ہوئے، اپنے اعمال صالح سے ان تک دین اسلام کی دعوت پہنچانے کی توفیق عطا کرے۔آمین فثم آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں