مشکل فیصلے آسان نہیں ہوتے ! 176

مشکل فیصلے آسان نہیں ہوتے !

مشکل فیصلے آسان نہیں ہوتے !

تحریر:شاہد ندیم احمد
پا کستان کی بھارت سے تجارت کی تاریخ بڑی عجیب و غریب ہے، ہر چند سال بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت جس جوش و جذبے سے شروع ہوتی ہے، اسی جذبے سے بند بھی ہو جاتی ہے۔ ہم کبھی اسے مادی سود و زیاں کی بجائے حب الوطنی کے ترازو میں تولتے ہیںاور بھارت کو چینی ایکسپورٹ کرنے والی مِلوں کے مالکان کو غدار کہنے لگتے ہیں،حالانکہ اس عمل سے پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے،لیکن ہمارے ہاں کا ایک طبقہ ہمیشہ یہ رائے رکھتا ہے کہ بھارت کے ساتھ ایسی تجارت نہیں ہونی چاہئے کہ جس سے اسے فائدہ حاصل ہو،کیونکہ اس طرح کمائی ہوئی دولت سے بھارت گولہ بارود خریدتا ہے جو مظلوم کشمیریوں پر چلایا جاتا ہے ،بھارت کے ساتھ تجارت کا تازہ ترین فیصلہ محض اپنے مالی فائدے کے لئے کیا گیا،کیونکہ وزیر خزانہ کے بقول اِس وقت کپاس اورچینی پوری دُنیا کی نسبت بھارت میں سستی ہے ،اِس لئے وہاں سے خریدنا دانشمندی ہے۔
یہ امرواضح ہے کہ بھارت سے تجارت بحال کرنے کا فیصلہ غیرمتوقع تو نہیں، البتہ تیز رفتار پیش رفت کہا جا سکتا ہے،تاہم وفاقی کا بینہ نے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے، ایک روز پہلے ہی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زمینی اور بحری راستوں سے چینی‘ کپاس اور سوتی دھاگہ بھارت سے درآمد کرنے کی منظوری دی تھی اور وفاقی وزیر خزانہ نے اس فیصلے کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا

کہ بھارت سے یہ مصنوعات درآمد کرنے کی کیا اہمیت ہے اور یہ فیصلہ کیوں کیا گیا، ان کا موقف بھارتی مصنوعات کی کم قیمتوں کے گرد گھومتا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی خصوصی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ شروع ہی سے غیر معمولی نظر آرہا تھا، ای سی سی کی سطح پر اس تجارت کی منظوری کا مطلب لیا گیا کہ یہ پیش رفت پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ دنوں امن کی بحالی کی خواہشات پر مبنی خط و کتابت کا اگلا مرحلہ ہو سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ کسی ملک سے درآمدات کے معاملات یوں تو معمول کی کارروائی سمجھے جاتے ہیں، مگر یہاں چونکہ معاملہ بھارت کے ساتھ تجارت کا تھا، اس لیے فطری طور پر یہ باور کیا گیا کہ یہ فیصلہ کافی سوچ بچار اورتمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعدہی کیا گیا ہو گا،مگر فیصلے کی گہرائی کی حقیقت چوبیس گھنٹوں میںہی طشت از بام ہو گئی کہ جب کابینہ نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ بھارت کے ساتھ درینہ مسائل حل کیے بغیر تجارت منظور نہیں ہے۔ اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان قابل غور ہے کہ اس فیصلے سے تاثر ابھر رہا تھا کہ جیسے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر آ گئے اور تجارت بحال ہو چکی ہے۔جبکہ اس پر وزیر اعظم اور کابینہ کی متفقہ رائے تھی کہ جب تک بھارت پانچ اگست 2019ء کے یکطرفہ اقدامات پر نظرثانی نہیں کرتا،اس وقت تک تعلقات کا معمول پر لانا ممکن نہیں ہو گا۔
پا کستان خطے میں قیام امن کے ساتھ تجارت کا بھی خواہاں ہے ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کے فیصلے کے ساتھ قدرتی طور پر جڑے معاملات کونظر انداز کر دیا جائے، بھارت سے درآمدات کی اجازت کی سمری اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیجنے سے پہلے خود وزیر اعظم کو ان معاملات کی حساسیت کو دیکھنا چاہے تھا،مگر ایسا نظر نہیں آتا ہے، اگرچہ یہ فیصلہ چوبیس گھنٹے ہی میں واپس لے لیا گیا،مگر اس سے حکومت کے کام کرنے کے طریقے کی وضاحت ہو جاتی ہے، اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ ترین سطح پر کچھ اہم معاملا ت میں فیصلے کس عجلت میں کئے جاتے ہیںاور اسی عجلت سے واپس بھی لے لیے جاتے ہیں،یہصرف اسی فیصلے میں نہیں اور بھی کچھ
ایسے ہی فیصلے کیے گئے ہیں کہ جو ظاہر کرتے ہیں کہ حالیہ دنوں حکومت میں کوآرڈی نیشن کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔
اگرچہ ہر دور اقتدار میں باہمی اعتماد کا بحران رہا ہے، گزشتہ ادوار سے بھی ایسے بحرانوں کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں،لیکن موجودہ سیٹ اپ میں کوآرڈی نیشن کا خلا زیادہ واضح طور پر نظر آتا ہے،اس لیے ایسے حالات میں لئے گئے فیصلے اعتماد کے بحران کا شکار رہتے ہیں اور ہمہ وقت اسی خطرے سے دوچار رہتے ہیں کہ نجانے کس وقت کون سی ڈیل یا منصوبے سے حکومت پیچھے ہٹ جائے گی، پاکستان کی جانب سے بھارت سے

درآمدات کا اعلان دنیا بھر کیلئے اہمیت کی خبر تھی، اس خطے اور مغربی دنیا کے ایک بڑے حصے کے لیے تو اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،مگر تجارت کی بحالی کے فیصلے کی منظوری کی خبر کے اگلے ہی روز اس فیصلے کے مسترد کر دیے جانے سے حکومتی وژن اور ملکی امیج پر حرف آیا ہے۔ حکومتوں کا کام باریک بینی اور احتیاط کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ کسی فیصلے کے لیے ہفتوں،مہینوں غوروفکر کرکے ہر پہلو کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیںاور اس گہری سوچ بچار کے بعد ایک پوزیشن لے کراس پر قائم رہیں،بعض اوقات مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں ،یہ مشکل فیصلے اتنی آسانی سے نہیں ہوتے ،تاہم مشکل فیصلے کرکے قائم رہنا ہی ایک اچھی لیڈر شپ کی نشانی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں