گورنمنٹ ہاسپٹل حکومتی سہولیات کے استفادہ سے احتراز کیوں ؟
نقاش نائطی
۔ +966504960485
کیا گورنمنٹ ہاسپٹل علاج کرنا ہمارےبھٹکلی یا مسلم شان کے خلاف عمل ھے؟ماشاءاللہ شہر بنگلور کے گورنمنٹ ہاسپٹل میں مصروف معاش ڈاکٹر سراج کی طرف سے جاری کردہ آڈیو کلپ کے ذریعہ مسلم مریضوں کو اچھے صلاح مشورے مل رہے ہیں۔ مریض اس کو غور سے سنیں اور اس پر عمل پیرا پائے جائیں تو بہت حد تک مریضوں کا نہ صرف بہت بڑا سرمایہ بچت ہوسکتا ہے بلکہ ہمارے ہی ٹیکس پیسوں سے ہمارے لئے حکومت کی طرف سے عطا کردہ سہولیات سے استفادہ کر،ہم ایک اچھے بھارتی شہری ہونے کا ثبوت بھی فراہم کررہے ہوتے ہیں
غالبا بیس پچیس سال قبل کا واقعہ ہے الجبیل گورنمنٹ ہاسپٹل کے ایک پاکستانی ڈاکٹر سے ضروری ملاقات کرنے ڈیوٹی کے وقت ہم پہنچے ہوئے تھے. اس ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے ایک اچھی خاصی لمبی لائین لگی ہوئی تھی چونکہ ہمارے تعلقات ڈاکٹر صاحب سے خاص تھے کسی مریض کے کمرے سے نکلتے ہی ہم ڈاکٹر کے کمرے میں گھس گئے. ایک دو منٹ گفتگو کے بعد کمرے سے باہر نکلے تو الجبیل کے اس وقت کے ایک معزز بڑے تاجر، بڑی ھائپر مارکیٹ اور کئی ایک کپڑے کی دوکانوں کے مالک، اپنے باری کے منتظر باہر کهڑے تھے. علیک سلیک ہوئی ڈاکٹر سے ہمارے تعلق خاص کو دیکھ کر،
ہم سے ڈاکٹر سے تعارف کرانے کی درخواست کی. ہم نے بے تکلفی میں طنزیہ ان سے شکایت کی کہ ماشاءاللہ آپ اتنے بڑے تاجر ہیں کسی پرائیوٹ ہاسپٹل میں جانے کے بجائے گورنمنٹ ہاسپٹل کی لمبی قطار میں منتظر کیوں کهڑے ہوئے ہیں؟ اس معمربڑے تاجر نے جواب دیا حکومت ہمارے لئے کروڑوں ریال خرچ کرکے اتنے معیاری ہاسپٹل بناتی ہے، ہم ہی اس کی بے قدری کریں گے اور پرائیوٹ ہاسپٹل کا رخ کریں گے تو پهر ہم میں سے ہر کوئی حکومتی سروس کا استفادہ حاصل کرنے کو هیج تر اورکمتر سمجھے گا. جب کہ سعودی حکومت عوام سے ٹیکس وصول کرکے ان کے پیسوں ہی سے ہاسپٹل کی سہولت عوام کو مہیا نہیں کرتی ہے. بلکہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ حکومتی ریسورسز سے حاصل آمدنی سے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کیا کرتی ہے
ہندستان میں حکومت ہم سے مختلف اقسام کے ڈائرکٹ انڈائرکٹ ٹیکس وصول کرکے ہاسپٹل جیسی سہولیات ہمیں مہیا کراتی ہیں. بھارت میں صرف مالدار اور متوسط طبقہ کے لوگ ہی انکم ٹیکس یا ویلتھ ٹیکس حکومت کو نہیں دیا کرتے بلکہ بھارت کی اکثریت غریب و مفلک الحال بے روزگار بھی اپنے روز مرہ کی ضروریات خریدی کرتے وقت ان اشیاء پر لگے ویٹ ٹیکس اور دیگر ریاستی حکومتوں کے ٹیکس کے بہانے ہماری خریدی جانے والی کسی بھی چیز کے لئے اچھا خاصہ تناسب انڈائرکٹ ٹیکس کی صورت حکومت کو ادا کررہے ہوتے ہیں۔ مشہور فلم اداکار عامر خان کے انکے اپنے ٹی وی شو “ستیہ مئے جیہ دے” پروگرام میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ دیش کے متوسط و مالدار انکم ٹیکس اور ویلتھ دائرکٹ ٹیکس جو ادا کرتے ہیں
اس سے دو تہائی گنا زیادہ دیش کے غریب متوسط لوگوں سے انکی روزمرہ ضروریات کی خریدی ہوئی چیزوں کے ذریعہ حکومت انڈائریکٹ ٹیکس حاصل کیا کرتی یے۔ اسی لئے حکومت نے ہم بھارتیہ باشندوں کی بھلائی کے لئے صرف شہروں ہی میں نہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں میں معیاری ہاسپٹل قائم کئے ہوئے، اچھے سے اچھے ڈاکٹروں کی وہاں پوسٹنگ کیا کر ہمیں طبی سہولیات مہیہ کرایا کرتی ہے. لیکن پھر بھی ہماری قوم میں ایک عجیب قسم کا تفخر پایا جاتا ہے کہ حکومتی سہولیات ہم لیں گے تو لوگ ہمارے بارے میں کیا خیال کریں گے؟ گورنمنٹ ہاسپٹل میں جاتادیکهیں گے
تو لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے؟ اس لئے قرض لے کر اچھےاور مہنگےڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں معمولی بخار وغیرہ کے لئے بار بار منگلور بھاگ جاناہم مناسب سمجھتے ہیں. بلکہ مجبوری میں مقامی ڈاکٹروں کے پاس جانا بھی پڑے تو اس بات کا اظہار کرنے میں ہم کو کوئی قباحت یا عارمحسوس نہیں ہوتی ہے کہ ہمکو منگلور جانے سے ہی اطمینان ہوتا ہے. یہاں مقامی ڈاکٹروں کے پاس ہفتہ بھر علاج کرکے تھک کر بعد میں منگلور جانے سے اچھا ہے بیماری کے شروع میں ذرا تکلف ہی کیو ں نہ ہو منگلور جاکر علاج کرتے اطمینان حاصل کیا جائے.*
*الجبیل میں ہمارے ساتھ رہنے والے ہمارے ایک عزیز اپنا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں.کہ گذشتہ ماہ چهٹی پر جب وطن گئے تھے تو ان کے چهوٹے صاحب زادہ کو ڈایوریہ ہوگیا. رات بھر برداشت کرنے کے بعد صبح مقامی ایک دو ڈاکٹرکےمطب پہنچے تو لمبی قطاروں سے گهبراگئے.ایک ڈاکٹر کا ویٹنگ نمبر لیکر دوسرے کے پاس پہنچے وہاں سے بھی نمبر لیتے لیتے اپنے اسکوٹر پر ایسے ہی فقط دیکھنے کے لئے مجبوری میں گورنمنٹ ہاسپٹل پہنچ گئے. بچوں کی ماہر ڈاکٹر بالکل فارغ بیٹھی ہوئی تهیں. پرچی کٹوائی أور ڈاکٹر سے معائنہ کروایا. ڈاکٹر نے دوائی باہر سے بھلے ہی لکھ کر دی لیکن پچیس روپیہ کی دوائی سے بچہ مکمل صحت یاب ہوگیا. دوسری اہم بات جو ہمارے دوست نے بتائی وہ یہ تھی.
مقامی ڈاکٹروں کے یہان جو ہجوم تھا وہاں اتنی گندگی اور گهٹن تھی مجبوری میں وہ وہاں کچھ وقت انتظار میں کهڑے تھے. اگر ایک دو گهنٹہ انتظار کے بعد بچے کو ڈاکٹر کو دکھانے میں کامیاب بھی ہوتے تو ڈاکٹر کی فیس باہر کی دوائیوں کے ساتھ سو دیڑه سو تو خرچ کرچکے ہوتے. اگر ڈائیوریا کی وجہ گلوس لگانا پڑتا تو تین چار سو کا پٹکا یا صرفہ ضرور لگتا.اور وہ بھی ایک دن کی دوائی میں مکمل صحتِ یاب ہونا تقریباً ناممکن تھا. ان مقامی ڈاکٹروں کے تعفن زدہ ماحول سے گورنمنٹ ہاسپٹل ہزار گنا صاف ستھرا تھا. اور وہ بھی ہمارے ہی ٹیکس پیسوں سے بنایا گیا تھا
جب سے دہلی میں کیجریوال کی “آپ” سرکار نے دہلی واسیوں کو نہ صرف گورنمنٹ ہاسپٹل میں بلکہ جن بڑی بیماریوں کا علاج گورنمنٹ ہاسپٹل میں موجود نہ ہو ان مریضوں کو پرائویٹ ہاسپٹل میں حکومتی خرچ پر جو مکمل علاج فری دینا شروع کیا ہے اس وقت سے اب کئی صوبائی حکومتوں نے بھی یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ جن مریضوں کا علاج گورنمنٹ ہاسپٹل میں موجود نہ ہو، انہیں گورنمنٹ ہاسپٹل انچارج ڈاکٹر کے ریفر کردہ تحریر کے ساتھ، کسی بھی پرائییٹ ہاسپٹل میں فری علاج کے لئے لے جایا جاسکتا ہے۔یہاں تک کے گورنمنٹ ہاسپٹل کے ریفرکردہ مریضوں کو قریب کے شہر والے پرائیویٹ ہاسپٹل میں بھی فری علاج کیا جا سکتا ہے خصوصا کسی بھی حادثے کے شکار مریض یا ہاٹ اٹیک یا لقوہ مارے مریض کو ایمرجینسی طور گورنمنٹ ہاسپٹل کے ریفر سے پرائیویٹ ہاسپٹل میں فری علاج کیا جاسکتا ہے
آخر پھر کیوں نہ صرف ہم بهٹکلی احباب بلکہ ذرا خوشحال ہم مسلمانوں کی اکثریت گورنمنٹ ہاسپٹل کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرنا اپنی شان کے خلاف تصور کرتے ہیں؟ علاج کے لئے رشتہ داروں اور انجان لوگوں سے مدد مانگنے میں ہمیں عار محسوس نہیں ہوتی لیکن گورنمنٹ ہاسپٹل سے استفادہ حاصل کرنا اپنی شان کے خلاف تصور کرتے ہیں . جبکہ حکومت خود ہم سے لئے گئے ٹیکس ہی سے آئے۔پیسوں سےایسے ہاسپٹل کی سہولیات ہمیں پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں. اور ہم ان سہولیات کی کما حقہ قدر نہیں کرتے اور ناشکروں میں سے ہو جاتے ہیں. نتیجتا ہمارا بے تحاشہ پیسہ بھی خرچ ہوتا پے اور ہم سکون وچین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.
اس کے علاوہ جوان یا ادھیڑعمر کے لوگ کسی بیماری کا شکار بننے سے عین قبل حکومتی یا پرائیویٹ اسکیم کے تحت اپنا میڈیکل انشورنس کرکے رکھیں اور سالانہ ایک مخصوص معمولی سی رقم انشورنس پریمیم بھرتے رہا کریں تو بعد کے دنوں میں کسی بھی بڑی جان لیوا بیماری کا شکار بننے پر،اس انشورنش کمپنی کے تصدیق شدہ کسی بھی پرائیویٹ ہاسپٹل میں،ہر قسم کی بیماریوں کا فری علاج کیا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے تاجر گھرانے یا صنعت کار اپنے یہاں کام کرنے والے ہزاروں لاکھوں ملازمین کا اچھی سی انشورنس کمپنی میں انکا ہیلتھ بیما کروا دیا کرتے ہیں۔ اور ان کے کسی ملازم کے بیمار پڑنے پر انکے علاج پر اٹھنے والے لاکھوں روپیوں کا خرچ وہ انشورنس کمپنی ادا کیا کرتی ہے۔ دس بیس سال قبل بھٹکل مسلم خلیج کونسل کی کانفرنس میں قائد قوم جناب سی اے خلیل الرحمن صاحب نے کسی چیرٹیبل ادارے کے ماتحت کسی گاؤں یا کسی علاقے کے تمام تر جوان و ادھیڑ عمر لوگوں کا میڈیکل انشورنس کرنے کا سجھاؤ دیا تھا جس سے اس گاؤں یا محلے یا علاقے کے تمام لوگ اگر وہ بیمار ہوتے ہوئے پائے جائیں تو انہیں علاج کے کثیر رقم خرچ کی فکر سے آزاد، جینے دیا جاسکے۔آج بھی کسی بھی گاؤں یا شہر کا کوئی چیریٹیبل ادارہ اپنے علاقے کے غرباء و مساکین و متوسط طبقے کے لوگوں کا ایک ساتھ ایک کثیر تعداد میں کسی انشورنس کمپنی سے رابطہ قائم کر انکا میڈیکل انشورنس کرتا ہے تو سالانہ یا ماہانہ معمولی رقم پریمیم ادا کرتے ہوئے انکے علاج معالجہ پر ہمہ وقت اٹھتے رہنے والے لاکھوں کروڑوں روپیوں کی نہ صرف بچت کی جاسکتی ہے بلکہ آج کل ہر گلی محلہ میں علاج معالجہ کے لئے پرچیاں تھامے گھومنے والے فقراء سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ میڈیکل انشورنش کی بھی درجہ بندی ہے متوسط ،اچھی یا معیاری میڈیکل انشورنس۔ اسی درجہ بندی کے حساب سے بڑی سے بڑی بیماریوں کا علاج فری کیا جاسکتا ہے۔ صوبائی یا مرکزی حکومت کی پالیسی کے تحت فری میڈیکل انشورنس بھی کیا جاتا ہے ۔ حکومتی دفتروں میں ہمہ وقت آتے جاتے رہنے والے رضاکار ایسی حکومتی فری انشورنش پالئسیز سے مقامی ادارے کے توسط سے عوام کو آگاہ کرتے رہیں تو ہمارے ہی ٹیکس پیسوں سےحکومت کی طرف سے دئیے جانے والی سہولیات سے کما حقہ مستفید ہواجاسکتا ہے
ایک سچے اور پکے مومن مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس بات کا ہمیں یقین ہے کہ کسی بھی بیماری کے لئے شفا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن عمل کا معاملہ جب آتا ہے تو ہم اپنے ایمان کو پرے رکھ دیتے ہوئے جاتے ہیں.اور اللہ پر توکل کو چھوڑ بڑے سے بڑے ڈاکٹر اور اچھے سے اچھے ہاسپٹل کے چکر کاٹتے ہم پائے جاتے ہیں۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس جهوٹی شان سے آمان میں رکهے اور اللہ رب العزت کی طرف سے ، اپنے آس پاس ہمیں مہیا حکومتی سہولیات سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کی توفیق دےآمین ثم آمین وما علینا الا البلاغ