انتطامیہ جا کر گھر سنبھالے
رابعہ بصری
ترقی کی دوڑ میں مصروف وطنِ عزیز کا اہم ترین شہر سرگودھا جو بقائے پاکستان میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور سرگودھا کی عوا م 1965ء سے لے کر اب تک خالصتاً عصمت ِ پاکستان کے لیے اپنی لازوال خدمات کا نذرانہ پیش کرتی آئی ہے جسکی مثال تاریخ کے باب میں تو ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جاتی ہے لیکن اس شہر اور اسکی عوام کو ہمیشہ اقتدار اعلیٰ میں بیٹھے لوگو ں نے نظر انداز کیا ہے ستم ظریفی کے سرگودھا کی سڑکیں اور گلیاں چیخ چیخ کر کسی مسیحا کے انتظار میں تھک ہار چکی ہیں….
یوں تو سرگودھا کے لیے دورہ پر آنے والے ہر وزیر مشیر نے بڑے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا اور فنڈز دیے لیکن سرگودھا کے اعلیٰ افسران اور انتظامیہ اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہونے کے باعث سرگودھا میں اہم ترقیاتی کاموں کی تکمیل مکمل کرنے میں نا کام نظر آتے ہیں.
اسکی سب سے بڑی وجہ سرگودھا کو آج تک کوئی سچا خدمت گار نا مل سکا اور اگر ملا تو اسے اپنی کارگردگی دکھانے کا موقع فراہم نا کیا گیا”
جیسے چل رہا ہے نظام چلاؤ اور ٹائم ٹپاؤ” جیسے اصول پر عمل کیا اور کروایا جاتا رہا.سرگودھا کی ترقی صرف یونیورسٹی روڈ اور کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقہ تک ہی محدود نظر آتی ہے.جبکہ، فاروق کالونی، اقبال کالونی سبروال، کوٹ فرید، گل والا، مدینہ کالونی سلطان ٹاؤن، محمدیہ کالونی اور فیصل ٹاؤن اور مزید دیگر علاقوں کو سرگودھا کا حصہ ہی تصور نہیں کیا جاتا. کیا یہاں انسان نہیں رہتے؟ یا یہاں کے رہنے والوں کے پاس کوئی اقتدار اعلیٰ تک ان کی رسائی نا ہونا اور غریب مزدور اور دہاڑی دار طبقہ ان علاقوں میں رہائش پزیر ہونے کی وجہ سے ان تمام علاقوں کو یتیم اور مسکین سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے.
موجودہ انتطامیہ میں زیادہ تر خواتین کی موجودگی بھی ان مسائل میں دیوار بن رہی ہے جسکی وجہ سے ایک تو لین دین والے معاملات کر کے جو مسلے حل ہو جاتے تھے وہ طول اختیار کرتے جا رہے ہیں دوسرا انتطامیہ میں موجود خواتین اپنی صنفِ نازکی کی وجی سے محدود خدمات انجام دینے پر مجبور نظر آتی ہیں. چونکہ زمانہ عورتوں کا ہے یہ بات مرد حضرات کو بھی ہضم نہیں ہو رہی اور وہ انتطامیہ کو سپورٹ کرنے کے بجائے نیچا دکھاتے پائے جاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ خواتین جب چولہہ چوکا چھوڑ کر انتظامیی امور سمبھالیں گی تو سرگودھا شہر کا حال بھی اس گھر سے مختلف نا ہو گا جسے عورت کے بجائے مرد سمبھالے…
یہاں میں ا یک لکھاری اور ایک عورت ہونے کے ناطہ اپنی صنف کے حق میں بھی بحث کرتی چلوں کہ اگر عورت چاہے تو کیا نہیں کر سکتی انتظامیہ میں بیٹھی خواتین کو سپورٹ کریں نا کہ اپنی جنس کی جنگ میں سرگودھا کا بیڑا غرق کریں ان تک مسائل کی حقیقی تصویر پیش کی جائے اور ان کی انتطامی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر سرگودھا کے لیے فوری اور ضروری اقدامات ہنگامی بنیادوں پر اٹھا ئیں جن میں سیورج کا نظام بہتر بنانے کی سب سے زیادہ اور اشد ترین ضرورت ہے
اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں بھی فوری تعمیراتی کام کروایے جائیں جو کہ گیس پائپ لائن والوں نے تباہ و برباد کر دی ہیں انہیں اب نئے سرے سے تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے جن علاقوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان علاقوں کی عوام سرگودھا انتظامیہ کے لیے سب سے زیادہ ریونیو دے سکتی ہے بشرطیکہ ان کو سہولتیں فراہم کی جائیں. امید ہے خواتین انتظامیہ تک میری آواز ضرور پہنچے گی اور وہ سرگودھا کے لیے کچھ ایسا ضرور کر جائیں گی کہ سرگودھا کی تاریخ میں ان کے لیے سنہرے الفاظ سے ایک باب رقم کیا جا سکے. لیکن اس کے لیے انہیں مردوں کے شانہ بشانہ ہو کر مردو جیسے ہی کام کرنا ہو گا اور اس امر کو محسوص کرنا ہو گا کہ ان کی زمہ داریاں بہت اہم اور غیر معمولی ہیں.