’’کرونا اور لاشعوری عوام‘‘ 131

’’مہنگائی،اپوزیشن،اور حکومت‘‘

’’مہنگائی،اپوزیشن،اور حکومت‘‘

*تحریراکرم عامر سرگودھا*
فون نمبر،03008600610
فون نمبر 03063241100
حکومت مخالف احتجاجی تحریک چلانے کیلئے بنائی گئی پی ڈی ایم وفاق، پنجاب، یا کسی دیگر صوبے کی حکومت تو نہ گرا سکی، لیکن حکومت بالخصوص کپتان نے سیاسی چال چلتے ہوئے ایسا سیاسی بائونسر پھینکا کہ چیئرمین سینٹ کا عہدہ بھی حکومت لے گئی اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر حکومت نے نامزد کرکے سینٹ میں بھی پی ڈی ایم کو دو حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا، اب سینٹ اور حکومت مخالف تحریک میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اتنی دوریاں ہو گئی ہیں کہ پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرتا نظر آ رہا ہے اور حکومت مخالف تحریک ثبوتاژ ہو چکی ہے، اور مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اپوزیشن کے جو قائدین ماسوائے پیپلز پارٹی کے حکومت گرانے نکلے تھے اب اپنی بقاء کی الگ الگ جنگ لڑتے نظر آ رہے ہیں، کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی راہیں جدا جدا ہوچکی ہیں

اور دونوں جماعتوں کی نوبلد قیادت حکومت مخالف کم اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف زیادہ لفظی جنگ لڑ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بار بار دونوں جماعتوں کے بڑوں کو لفظی گولہ باری روکنے کیلئے مداخلت کرنی پڑ رہی ہو۔مسلم لیگ ن کی قیادت کہتی ہے کہ پیپلز پارٹی کوسینٹ اور چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں ان کی جماعت نے سپورٹ کیا اور ووٹ دئیے تھے،اور طے پایا تھا کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا ہوگا، مگر حکومت بالخصوص کپتان نے اپنے ساتھی سینٹرز کے دستخط کراکے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر نامزد کردیا، جن کے بارے کہا جا رہا ہے کہ سینٹ میں یہ فرینڈلی اپوزیشن ہو گی، سینٹ میں اپوزیشن لیڈر نامزد ہونے کے بعد یوسف رضا گیلانی نے سیاسی پینترا بدل لیا ہے،

اور موصوف کہتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے، حالانکہ وہ خود اپوزیشن میں تھے اور ہیں۔ موصوف یوسف رضا گیلانی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر حکومت کو کہیں مشکل پیش آئی تو وہ حکومت کی بھی آواز بنیں گے۔ یوسف رضا گیلانی کو ایسا کرنا بھی چاہئے،کیونکہ موصوف تو اپوزیشن لیڈر ہی حکومت کے ارکان کی حمایت سے منتخب ہوئے ہیں، جو کہ کپتان اور اس کی پارٹی کا یوسف رضا گیلانی پر احسان ہے، تو یوسف رضا گیلانی نے ایسا بیان دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ احسان فراموش نہیں ہیں، یوں تو ماضی میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے مفاہمت کی سیاست کو ترجیح دی ہے، جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور میاں نواز شریف کے اقتدار کو جھٹکا لگنے والا تھا تو پیپلز پارٹی جو کہ مسلم لیگ (ن) کی مخالف صف میں تھی نے نواز شریف کو سہارا دے کر اس کی حکومت بچائی تھی۔
سیاسی ذرائع کہتے ہیں

کہ اس طرح حکومت کی مدد سے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوئی ہے، جو یہ ثابت کرتی ہے کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر صرف نام کا ہوگا،کیونکہ اسے نامزد کرنے والوں میں حکمران جماعت کے سینیٹر بھی شامل ہیں تواس صورت میں یوسف رضا گیلانی موصوف ایوان میں حکومت کی مخالفت کیسے کرپائیں گے، یوسف رضا گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی حکومت بالخصوص کپتان کیلئے سکون دہ امر ہے،

اب کپتان کھل کر کھیل سکیں گے،اور ملک میں مہنگائی، ذخیرہ ،کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے،اور مہنگائی، ذخیرہ اندوزی کے مرتکب مافیاز خواہ ان کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہی کیوں نہ ہو کو احتساب کی چکی میں سے گزرنا پڑے گا، رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور کپتان نے رمضان المبارک میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کا ایک بار پھر دبنگ اعلان کیا ہے،چونکہ مہنگائی کپتان اور عوام کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے، عوام تو مہنگائی پر کپتان کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کررہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ کپتان بھی تو تو ملک سے کرپشن ،بے روزگاری،لاقانونیت کے خاتمہ،اور عوام کو گھر کی دہلیز پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے

مگر کپتان کی حکومت کا نصف دورانیہ گزر چکا ہے لیکن وہ (کپتان یا اس کی حکومت) عوام کو کسی بھی سطح پر ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ٹھہری ہے، دوسری طرف کپتان اب بھی حکومت کی کارکردگی سے نہ صرف مطمئن بلکہ پر عزم دکھائی دے رہے ہیں اور عوام سے ٹیلی فون پر براہ راست گفتگو میں کپتان نے کہا ہے کہ وہ مہنگائی پر قابو پالیں گے اور عوام سے کیا گیا ایک ایک وعدہ پورا کریں گے کپتان ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں تبدیلی پل بھر میں نہیں آجاتی، ملکوں اور اقوام کی تقدیر بدلنے کے لیے وقت لگتاہے، اس طرح کپتان کہتے ہیں ملک میں تبدیلی ضرور آئے گی، آپ (عوام) نے گھبرانا نہیں، جبکہ کپتان سے ایک خاتون نے تو مہنگائی اور ملکی حالات کے باعث گھبرانے کی اجازت مانگی تھی

جس کا کپتان کوئی جواب نہ دے سکے۔ شاید کپتان بیوروکریسی اور اپنے وزراء مشیروں کی رپورٹس پر مطمئن ہو کر ایسا کہہ رہے ہیں ،جو یومیہ بنیاد پر بیوروکریسی وزراء اور پھر وزراء کپتان کو پیش کرتے ہیں، شاید کپتان لا علم ہیں کہ بیوروکریسی میں اب بھی پچھلی حکومتوں کی باقیات شامل ہیں جو ہر آنے والی حکومت اور حکمرانوں کو گیند کی طرح گھماتی ہیں، اور ماضی کی ملکی تاریخ گواہ ہے کہ بیوروکریسی کے کل پرزوں نے آج تک کسی حکومت کی رٹ قائم نہیں ہونے دی اور ہر دور میں ملک پر بیوروکریسی کا راج رہااور بیوروکریسی ہر دور میں طاقتور رہی اور رہے گی؟
یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ ملک میں حکومت مخالف تحریک چلانے کیلئے بنائی گئی پی ڈی ایم جو کہ کپتان کی حکومت گرانے نکلی تھی کہ پی ڈی ایم کا اپنا دھڑن تختہ ہوگیا، اب پی ڈی ایم واضح طور پر دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے ،پاکستان مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سینٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا اپوزیشن لیڈر ماننے کو تیار نہیں اور مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی سمیت پانچ جماعتوں نے سینٹ کے ایوان میں نیا اتحاد کر لیا ہے، جس کے جواب میں پیپلز پارٹی کی قیادت قومی اسمبلی کے ایوان میں میاں شہباز شریف،اور پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر ماننے سے انکاری ہو گئی ہے، یوں پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں میں دوریاں اس بات کی دلیل ہیں کہ اب پی ڈی ایم اب زبانی جمع خرچ کی حد تک رہ گئی ہے

عملی طور پر پی ڈی ایم میں سکت نہیں کہ وہ حکومت مخالف تحریک چلاسکیں، اور حکومت کو گرا سکیں، یہاں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ بظاھر تو پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تھے لیکن ان کے اتحاد میں شامل دو جماعتوں کی بچگانہ قیادت نے ایک دوسرے پر ایسی لفظی گولہ باری کی کہ بار بار پی ڈی ایم میں شامل بزرگ سیاستدانوں کو مداخلت کرنا پڑی مگر وہ بھی سود مند ثابت نہ ہوسکی اور پی ڈی ایم کا اتحاد کچے دھاگے کی مانند ثابت ہوا،اس میں کس نے کیا کھویا کیا پایا؟
لیکن یہ بات واضح ہے کہ ماضی کہ طرح موجودہ حکومت کرسی بچانے کی جنگ لڑ رہی ہے اور اپوزیشن اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے،دوسری طرف بات کی جائے ملک میں اپوزیشن اور حکومت کی سیاسی چال کی تو سیاست بڑی بے رحم چیز ہے، اپنے اور پارٹیوں کے مفادات کیلئے سیاست دان پل پل روپ بدلتے رہتے ہیں،اسی تناظر میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ کپتان کی حکومت گرانے کیلئے میدان میں نکلے اپوزیشن کے قافلے کہ سربراہ مولانا فضل الرحمان پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم کے ساتھ رویہ کے بدلہ میں سندھ میں پیپلز پارٹی کے مخالف اتحاد جی ڈی اے جو کہ سندھ میں پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں سے بھی رابطے میں ہیں،اور ذرائع کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے جی ڈی اے کی قیادت کو باور کرایا ہے

کہ سینٹ الیکشن میں پی ٹی آئی نے جی ڈی اے کہ امیدوار سے ہاتھ کیا ہے، جس کی وجہ سے جی ڈی اے کا سینٹر منتخب نہیں ہوا بلکہ پی ٹی آئی کی کے دس ارکان کی جانب سے پارٹی فیصلے پر عمل نہ ہونے سے پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ سے سینٹ کی ایک اضافی نشست لی ہے، جی ڈی اے نے مولانا فضل الرحمان کی پیش کش پر جواب اور مشاورت کیلئے ٹائم مانگا ہے، دیکھنایہ ہے کہ اب جی ڈی اے کیا فیصلہ کرتی ہے؟
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہورہی تھی اپوزیشن اور حکومت کے سیاسی داؤ پیچ کی تو راقم کی ذاتی رائے کے مطابق کپتان نے سینٹ میں اپنے حامی سینیٹرز سے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرا کے اپوزیشن کو کلین بولڈ کر دیا ہے، جس کے نتیجہ میں اب پی ڈی ایم بکھری بکھری نظر آ رہی ہے، پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان بکھری وکٹیں دوبارہ اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس میں وہ کس حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں، یہ آنے والا سیاسی وقت بتائے گا کیونکہ مولانا فضل الرحمان وہ سیاست دان ہیں جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں،وہ دونوں صورتوں میں متحرک رہتے ہیں۔
کپتان جی آپ کی جماعت اور کچھ آپ کے حامی سینٹرز نے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرانے میں مددگار بن کر مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کو جو آفٹر شاک جھٹکا دیا ہے اس سے آپ کو تو سیاسی فاعدہ ضرورہوا ہے لیکن عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں،بے روزگاری،غربت و افلاس،اور مہنگائی کی ماری ملک کی 95فیصد عوام تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے،اور طبی سہولیات کے فقدان کے باعث سسک سسک کردم توڑ رہے، کپتان جی ضرور کیجئے بے رحم احتساب؟ کیجئے گرفتار یاں؟ سب پکڑوا دیجئے مخالفین کو؟ سب زخیرہ اندوز اور سود خور مافیاز کو جکڑ لیجئے قانون کے آہنی شکنجے میں؟ لیکن کپتان جی غریب عوام کے لیے دو وقت کی روٹی آسان بنا دیجیئے تاکہ بھوک افلاس سے اموات اور خودکشیاں رک سکیں،اسی صورت میں ملک بنے گا ریاست مدینہ ،کپتان جی ورنہ غربت وافلاس کے باعث خود کشیاں کرنے والوں کا حساب آپ کو دینا ہو گا کیونکہ آپ حاکم وقت ہیں،اوراپنے دور حکومت کا حساب ہر حاکم وقت کو آخرت میں دینا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں