Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

قبر میں مدفون زندہ پیر پاکستان پولیس کے ہاتھوں گرفتار

جو ڈر کیا سو وہ مرنے سے پہلے مرگیا

جو ڈر کیا سو وہ مرنے سے پہلے مرگیا

قبر میں مدفون زندہ پیر پاکستان پولیس کے ہاتھوں گرفتار

نقاش نائطی
۔ +966504960485

بیس ایک سال قبل یوپی کے کسی گاؤں سے سعودی کی ایک کمپنی الدوسری سیرامک میں ایک پڑھا لکھا ھندو برہمن نوجوان اچھی نوکری پر آیا تھا۔ دو چار سال نوکری کے بعد خود سے استغفی دے ویزہ کینسل کر بھارت لوٹنا چاہا تو کمپنی نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ خروج پر جانے بضد رہا اسکےدوست کے پوچھنے پر خروج جانے کی جو وجہ اس نے بتائی آج پاکستان پنجاب کے ایک ولی کی قبر سے اپنے مردیدوں سے ہم کلام ہوتے اور انکی مشکل کشائی کرتے مدفون ولی کو قبر کھود پنجاب پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے دیکھ اس واقعہ نے، ہمیں بیس پچیس سال قبل اس ھندو برہمن بھائی کے خروج پر جاتے وقت کہی بات یاد دلا دی
اس وقت اسنے کہا تھا اسکے گاؤں کی پشتینی زمین جو اسکے والد کے حصہ میں آئی تھی اس زمین سے متصل ہائی وے جب بن رہی تھی تو والد صاحب نے انکی اپنی پشتینی زمین کے کمپاؤنڈمیں ہائی وے والی سائیڈ پر ایک پیپل کا پیڑ بویا تھا اور کہا تھا مستقبل میں جب یہ پیپل کا پیڑ بڑا ہوجائے گا تو اسکو لگی جگہ پر ہنومان جی کا ایک مندر بنائیں گے اور چونکہ وہ خاندانی برہمن پنڈت تھے اور اسی مندر میں پوجا پاٹھ شروع کروائیں گے ہائی وے پر رہنے کی وجہ سے، آنے جانے والی گاڑیاں پوجا پاٹھ کے لئے رکیں گی اور مستقبل میں ان کے کھان پان کا اچھا خاصا بندوبست ہوجائیگا۔انکے والد صاحب کا عین جوانی میں انتقال ہونے کی وجہ سے مندر بنانے کا پروگرام ملتوی ہی رہا تھا اسکی ماں نے بڑی مشکل سے اسے پڑھا لکھا کر قابل بنایا

چونکہ اس کے پاس والدصاحب کی پلاننگ مطابق مندر بنانے کی رقم نہ تھی اسلئے پیسہ جمع کرنے کی نیت سے وہ سعودی آیا تھا اب ان پانچ چھ سالوں میں مندر بنانے لائق تیس چالیس لاکھ جمع ہوچکے ہیں اس لئے جاکر اپنے باپ کی خواہش مطابق اپنی پشتینی زمین پر پیپل کے پیڑ کو سٹے مندر بناؤنگا اور زندگی بھر دان پیٹی میں جمع پیسوں سے عیش کرونگا۔
اس کے دوست نے جب اسے سمجھایا کہ یہاں تمہاری اچھی خاصی تنخواہ ہے کچھ سال اور نوکری کرلو پھر جاکے مندر بنالینا۔ تو اسوقت اس نے کہا تھا اپنوں سے دور اس پردیش میں اتنی محنت مزدوری کرکے جو دو تین ہزار ریال بچتے ہیں اسکے ہندستانی بیس پچیس ہزار روپیہ ہونگے کیا تمہیں پتا ہے کہ ہمارے مندر بننے کے بعد دان پیٹی کمائی مہینے کی کتنی ہوجائیگی؟ کم از کم چار پانچ ہزار روپیہ روزانہ کا بھی جوڑو تو مہینے کا ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ کہیں نہیں گیا۔ پھر اپنے بیوی بچوں کے بیچ رہتے اپنے پشتینی پوجا پاٹھ کا کام کرتے اتنی رقم جب ملے تو اپنوں سے دور پردیش کی کمائی کے بیس تیس ہزار کی کیا وقعت؟
وہ تو ھندو پنڈت تھا اپنے اصل آسمانی سناتن دھرم کے ایشور اللہ کے پیغام ویداور منو اسمرتی کی تعلیمات سے نابلد، مورتی پوجا کو غلط سمجھنے کے بجائے مورتی پوجا پاٹھ ہی کو وہ پونیہ کا کام سمجھتا تھا۔ اس لئے لوگوں کی آستھا کو استعمال کر دان پیٹی ملی دولت کو کھانا صحیح سمجھتا تھا۔ لیکن ہم مسلمان ہمارے خالق و مالک پر ہمارے ایمان کامل، اسکے رزاق ہونے اور ماقبل ہماری پیدایش کے لوح قلم سے ہمارے لکھ دئیے گئے

مقدر پر یقین و ایمان رکھنے والے ہم مسلمان، ہم کیسے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مذہبی آستھا ویقین سے کھلواڑ کر، غیر شرعی دولت کما سکتے ہیں؟ اللہ کے رسول محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ وعلیہ وسلم نے مکرر ہمیں لا تشکرک باللہ کہتے شرکیہ اعمال سے بچنے کی تعلیم دی تھی۔ اس کے باوجود ہم غیب کی باتیں بتاکر اور وہ بھی خود کی موت بعد قبر میں مدفون ہونے کا ناٹک رچاتے ہوئے، بزرگ ولی کے، بعد الموت ہم کلامی ظاہر کر، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو لوٹنے والے یہ نام نہاد ولی کا انجام توپاکستان پنجاب پولیس کی بر وقت کاروائی سے ہم جیسےلاکھوں مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ کس طرح مسلمان ہی مذہبی لبادہ اوڑھے اپنے شرکیہ اعمال سے اپنوں ہی کو دھوکہ دے پیسہ لوٹا کرتے ہیں

دراصل شیطان رحیم نے ہم مسلمانوں کو اپنے دین اسلام سے دور کرنے کے لئے، ہمیں دین اسلام ہی کے لبادے میں شرک و بدعات کا عادی بنایا ہوا ہے کہ ہم ان پڑھ توان ہڑھ، ہم مسلمین کا پڑھا لکھا طبقہ بھی ایک حد تک شرک و بدعات سے لپت جی رہا ہے۔ یوپی ہی کے ایک درگاہ کتے پیر کا واقعہ اپنے استاد سے ہم نے سنا تھا کہ یوپی کے کسی گاؤں کے ایک رئیس نے ایک السیشئین چھوٹی ذات کے سفید کتے کو پالا ہوا تھا۔ اپنے کتے سے انہیں بڑی محبت تھی ہر وقت اسے اپنی کارمیں لئے گھومتے تھے۔ موت برحق ہے انکے کتے میاں کو بھی ایک دو دن کی علالت بعد موت واقع ہوگئی۔چاہئیے تو یہ تھا کہ اس مردہ کتے کو گلی کے نکڑ پر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے، لیکن اس کتے سے اپنی محبت کے باعث انہوں نے گاؤں سے باہر شہر جاتے ملنے والے جنگل میں سر راہ ایک جگہ دفن کردیا۔ اور شروع کے کچھ دنوں تک شہر سے آتے جاتے،

اس کتے کی مدفون جگہ پر تھوڑی دیر کھڑے ہوکر اس کتے سے اپنی محبت کا حق ادا کیا کرتے تھے۔ ان کے گاؤں ہی کا دوسرا غیر قانونی آشیاء کا اسمگلر تاجر کئی مرتبہ اس رئیس کو شہر آتے جاتے جنگل میں ایک مخصوص جگہ کھڑے ہوتے دیکھ چکا تھا ۔ ایک دن اسکا اسمگلنگ سامان کا بہت بڑا شپمنٹ آنے والا تھا اسلئے اس شپمنٹ کے صحیح سلامت پہنچنے کی پریشانی کے عالم میں اچانک اسے اس رئیس کے جنگل میں ایک مخصوص جگہ کھڑے ہوکر کچھ مانگنا یاد آیا۔ بس پھرکیا تھا شہر سے آتے ہوئے اس جگہ گاڑی روک اس نے اس مخصوص جگہ پر کھڑے ہوکر یہ دعا کی کہ آئے بزرگ آپ کون ولی ہیں؟ اس کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن فلاں رئیس جب سے چپکے چپکے آپ سے مانگتے ہیں انکا کاروبار خوب چل نکلا ہے لیکن انہوں نے آج تک آپ کی قبر پر کوئی مزار بھی تعمیر نہیں کیا ہے۔ آئے فلاں بزرگ آج میرا بہت بڑا شپمنٹ آنے والا ہے

آپ دعا کریں میرا مال بخیر و عافیت اپنی جگہ پہنچ گیا تو مجھے کروڑوں کا فائیدہ جو ہوگا، میں اپنی اس کمائی سے آپ کی قبر اطہر پر ایک شاندارمزار یا درگاہ تعمیر کر دونگا۔ اللہ کی مصلحت اس اسمگلر کا مال خیریت سے پہنچ گیا۔ مارے خوشی کے اس نے کچھ دنوں بعد ہی اس مخصوص جگہ پر ایک شاندار درگاہ کی تعمیر شروع کردی۔ کچھ دنوں بعد اس رئیس کو جب اس جگہ کسی انجان ولی کی قبر پر درگاہ تعمیر کرنے کی خبر ملی تو وہ اس اسمگلر کے پاس پہنچے اور اپنا پورا ماجرا بتاکر اسے درگاہ تعمیر کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اسمگلر اپنی بات پر آڑا رہا۔ اس نے کہا اولا” آپ ہم سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اگر اس جگہ پر کوئی ولی یا بزرگ مدفون نہیں ہیں تو پھر ہمارا شپمنٹ کیسے اپنی جگہ بخیر وعافیت پہنچ گیا۔ ثانیا” اس کے بعد بھی ہم نے ان بزرگ کی قبر پر کئی منتیں مانگی تھی سب ہوری ہوگئی پیں اور اگر آپ کے کہے مطابق اس جگہ پر آپ کی کتیہ دفن ہے تو کوئی بات نہیں اب تو آدھی درگاہ تعمیر ہوچکی ہے اب تو میں پیھے ہٹ نہیں سکتا۔ گاؤں میں میری کیا

وقعت باقی رہ جائیگی۔ اس لئے اس جگہ پر مدفون کتیہ تو کتیہ وہ میرے لئے کسی پیر یا بزرگ ولی سے کم نہیں ہیں اب اس جگہ پر مزار یا درگاہ بن کر رہے گا چاہے اس کا نام مجھے کتا پیر ہی رکھنا کیوں نہ پڑے۔اس رئیس کے ہزار سمجھانےقسمیں کھانے کے باوجود آپنی آن بان شان کے لئے،اس اسمگلر نے وہ کتے پیر والا مزار یا درگاہ نہ صرف تعمیر کر ہی دیا بالکہ ہر سال بڑی شان سے عرس بھی منایا کرتا تھا اور یوں ایک جاھل ان پڑھ اسمگلر کی وجہ سے، اس کتیہ مدفون جگہ پر نہ صرف کتا پیر نامی شاندار درگاہ بن چکا ہے بلکہ بیسیوں سال سے اس جگہ پر سالانہ عرس بھی منعقد ہوتے ہوئے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو شرک و بدعات میں زندگی بسر کرتے اپنی عاقبت خراب کرواچکا ہے

یہ ایسا اکلوتہ مزار یا درگاہ نہیں ہے بلکہ ھند و پاک بنگلہ دیش کے کئی گاؤں دیہات میں، گھڑیالی (مگرمچھ) بابا، چوڑی والے بابا،چمٹے والے بابا، بچھو بابا، کچھوے بابا، گھڑی بابا، ڈفلی والے بابا؛ گھوڑے پیر، پاگل (مجذوب) پیر وغیرہ مختلف ناموں سے بڑے بڑے مشہور مزارات و درگاہیں ہیں اور یہ سب سابقہ تین چار صد سے، خصوصا سقوط غرناطہ کے بعد ایمان کی محنت کے بجائے اعمال کی محنت کے نتیجہ میں اور خاص کرکے انگریز زمام حکومت والے تمام علاقوں میں، منظم سازش کے تحت ہم مسلمانوں کے آباء و اجداد کو دانستا” شرک و بدعات والے اعمال میں ملوث و مہمک کرنے کی وجہ سے ہم۔مسلمانوں میں شیعیت رافضیت والے اعمال کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں

اللہ کابڑا فضل وکرم ہے کہ اسی کے دیے بعد خلیج کے ممالک پیٹرو ڈالر بہتات کے چلتے تقریبا سارے عالم کی اکثریت آبادی خصوصا برصغیر ھندو پاک کے ہم مسلمان جہاں خلیج کے۔ممالک میں برسر روزگار رہتے، معشیتی طور مستحکم ہوئے ہیں وہیں پر بہت بڑی حد تک اہل سلف کے اصل دین حنیف سے ایک حد تک قریب ہوتے ہوئے، بہت حد تک شرک و بدعات سے آمان پاچکے ہیں۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ عالم کے تمام مسلمانوں کو اعمال کی محنت کے ساتھ ہی ساتھ ایمان و یقین علی اللہ کی محبت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ وما علینا الا البلاغ

Exit mobile version