افسانہ : بارش میں چائے
حفضہ یوسف سیالکوٹ
کھڑکی کے پاڑ ہوتی ہوئی بارش کی آواز مسلسل اس کے کانوں کو اچھی لگ رہی تھی اور وہ بغیر کسی حرکت کے مسلسل کھڑکی کے پاڑ بارش کے قطروں کو پھولوں اور پتوں پر گرتے ہوئے دیکھی جا رہی تھی۔“یہ لو چائے” کی آواز نے اسے اس سوچ سے نکالا جس میں وہ مکمل گم تھی۔ ” ہاں ٹھیک ہے ادھر رکھ دو تم، میں پی لوں گی” صدف نے انم کو جواب دیا۔
انم نے کہا” اچھا ٹھیک ہے میں ادھر رکھ دیتی ہوں پر یاد سے پی لینا”. “ٹھیک ہے میں پی لوں گی” صدف نے مسکراتے ہوئے کہا۔پھر انم کمرے سے باہر چلی گئی۔اور صدف پھر اسی سوچ میں گم ہو گئی۔اسے یاد تھا وہ بارش میں کھیلنا۔بارش سے بہت محبت تھی اسے۔بارش کا دن اس کے لیے عید کا دن ہوتا تھا۔بارش میں نہانا،کاغذ کی کشتیاں بنانا وغیرہ۔
اور اب صدف اور بارش کا تعلق صرف اتنا ہی رہ چکا تھا کہ وہ کھڑکی سے اسے پھولوں، پتوں پہ گرتے دیکھ لے۔ اسے وہ دن بھی یاد تھا جب حمزہ اسے بارش والے دن لونگ ڈرائیور پر لے کر گیا تھا۔ حمزہ اور صدف دونوں ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔دونوں نے اسکول اور کالج میں اکھٹی ہی پڑھائی کی۔اور پھر اس کے بعد حمزہ مزید پڑھائی کے لیے باہر کے ملک چلا گیا۔وہ اک شام جب بارش ہو رہی تھی صدف نے حمزہ کو کو ویڈیو کال کی۔کال اٹھاتے ہی “اسلام علیکم! حمزہ کیسے ہو؟” صدف نے کہا۔ “وعلیکم السلام! صدف،میری جان میں بلکل ٹھیک۔تم سناؤ” حمزہ نے جواب دیا۔ صدف: میں بھی بلکل ٹھیک۔
حمزہ: آج بڑی حوش لگ رہی ہو صدف؟” ہاں بہت خوش ہوں۔”صدف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ حمزہ نے کہا” ضرور آج بارش ہو رہی ہو گی؟”صدف ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا”ہاں نہ ،ظاہر ہے اس لیے تو اتنی خوش ہوں۔ پتہ نہیں پر کیوں بارش تو ایسے جیسے میری ساری پریشانیوں کو بہا کر لے جاتی ہے۔”
حمزہ حیرانگی سے تمہیں اور پریشانی اللہ تعالیٰ خیر کرے۔ صدف حمزہ کو گھورتے ہوئے: “کیوں مجھے پریشانی نہیں ہو سکتی کیا۔”نہیں! نہیں! میں اب ایسا بھی نہیں کہا، ہو سکتی ہے کیوں نہیں ہو سکتی ہو گی۔” حمزہ نے جواب دیا۔صدف منہ بناتے ہوئے: واپس کب آرہے ہو؟
حمزہ: کہتی ہو تو ابھی آ جاتا ہوں۔صدف: نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ اچھا یہ تو بتاؤ بات کیا ہے؟کیوں پریشان ہو؟” حمزہ نے پوچھا۔ کچھ نہیں تم بس جلد از جلد واپس آ جاؤ۔ صدف نے کہا۔
.. صدف ، اچھا تو کیا کر رہے ہو؟حمزہ ، کچھ نہیں آپکے خیالوں میں ہیں اور جب ہم آپ کے خیالوں میں ہوتے ہیں تو کچھ کر ہی نہیں پاتے.
صدف ، اب میں بچی نہیں رہی اب میں نہیں آٶں گی تمہاری ان باتوں میں .حمزہ ، میں تو ابھی بھی بچہ ہوں .صدف ، رہنے دو…!
صدف ، موسم کیسا ہے وہاں کا؟حمزہ ، موسم بہت ہی اچھا ہے بارش ہو رہی ہے.صدف ، کیا ؟ بارش ہو رہی ہے …حمزہ ، جی بلکل اور وہ بھی بہت زور کی …
ابھی حمزہ کا اتنا کہنا تھا کہ صدف (اپنی کھڑکی کی طرف جاتی ہے اور پردہ ایک طرف کرکے آسمان کی طرف نگاہ کر کے ) نجانے ہماری طرف کیوں نہیں ہوتی.حمزہ ، ہو جاۓ گی جناب آپکی طرف بھی بارش …اچھا یہ سب باتیں چھوڑو، چاۓ پینی ہے.صدف نے حمزہ کو جواب دیتے ہوۓ کہا کہ چاۓ پینی ہے تو بنا لو اور پی لو . یا پھر باہر کسی دوکان سے پی آٶ مجھے کیا کہ رہے ہو.
حمزہ نے کہا جناب چاۓ تو ہم بنا لیں گے پر ہمیں چاۓ آپکے ساتھ پینی ہے.
صدف ، تو پھر آ جاو واپس مل کر چاۓ پییں گےحمزہ پیتے ہوۓ ، واپس بھی آ جاٶں گا پہلے چاۓ تو پی لیں ہم .اور مزید حمزہ نے کہاکہ تم اپنے لۓ جا کے چاۓ بناٶ اور میں اپنے لیے اور دونوں ویڈیو کال کر کے ایک دوسرے کے سامنے چاۓ پی لیتے ہیں۔ اور اس طرح جناب آپ بارش بھی دیکھ لینا۔ اور آپ کی ڈھیر ساری خواہشوں میں ایک چھوٹی سی خواہش بارش میں چاۓ پینا بھی پوری ہو جاۓ گی۔
صدف ہاں میں سر ہلاتے ہوۓ۔ ہاں یہ طریقہ ٹھیک ہے۔ میں ابھی چاۓ بنا کر لاتی ہوں۔ اور تم بھی اپنے لیے چاۓ بنالو۔ اور ہاں مہربانی کر کے جلدی چاۓ بنانا تمہیں پتا ہے نا کے مجھے ٹھنڈی چاۓ بلکل نہیں پسند۔ حمزہ مسکراتے ہوۓ جی بہتر میری جان پوری کوشش کروں گا کے چاۓ جلدی بن جاۓ۔
اور دونوں چاۓ بنانے چلے جاتے ہیں۔ صدف چاۓ بنا کے حمزہ کو کال کرتی ہے۔ لیکن حمزہ کال نہیں اٹھاتا اور پھر پانچ منٹ بعد حمزہ کی ویڈیو کال آتی ہے۔ صدف کال اُٹھاتے ہی غصے میں میں نے تمہیں بولا تھا جلدی چاۓ بنانا مجھے ٹھنڈی چاۓ نہیں پسند“ حمزہ سوری سوری سوری معاف کر دو نہ۔
تمہے تو پتا ہے نہ کے مجھ سےاتنی جلدی کام نہیں ہوتے چلو اب غصہ چھوڑو اور آٶ دونوں مل کر چاۓ پیتے ہیں۔ اور چاۓ پینے کے بعد میں تمہیں بارش دکھاتا ہوں۔
صدف مجھے نہیں پینی چاۓ تم خود ہی پیو۔ حمزہ تو چلو میں بھی نہیں پیتا اور پھر دونوں طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ کچھ دیر بعد ٹھیک ہے لیکن یہ آخری دفعہ میں ٹھنڈی چاۓ پیوں گی۔ اس کے بعد کبھی نہیں۔
حمزہ مسکراتے ہوئے: جی جناب جو آپ کا حکم۔ پھر دونوں چائے پینا شروع کر دیتے ہیں۔ چائے ختم ہی صدف چلو اب مجھے بارش دکھاؤ۔ اچھا تو میں اب ایسا کرتا ہوں کہ باہر سڑک پر جاتا ہوں اور تم کو بارش دکھاتا ہوں۔
صدف: پھر تو تم بھیگ جاؤ گے۔ حمزہ : بچپن میں بھی تو بھیگتے تھے نہ تو آج میں اکیلا ہی بھیگ جاتا ہوں۔
“پر تب ہم اکھٹے ہوتے تھے نہ اور اب ہم اکھٹے نہیں ہے اور دیکھو نہ میں بھی تو تمہارے۔ بغیر بارش میں نہاتی اور تم؟”صدف نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔
حمزہ: اوکے اگر تم کہتی ہو تو میں بارش میں نہیں نہاتا اور کچھ۔ صدف: نہیں! نہیں! تم نہا لو پر یہ آخری دفعہ۔ اور پھر حمزہ مسکراتے ہوئے سڑک کی طرف نکل جاتا ہے اور صدف کو بارش دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی آتی ہے اور حمزہ کو اپنی ذد میں لے لیتی ہے،حمزہ کی چیخ صدف کے کانوں میں پڑتی ہے۔ صدف حمزہ حمزہ کہتی رہی پر حمزہ کی طرف سے کوئی آواز نہ آئی۔
“ابھی تک تم نے چائے نہیں پی صدف؟” انم حیرانگی سے بولی۔ صدف اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی ” ہاں بس پینے ہی لگی ہوں۔” انم : چلو میں چائے گرم کر دیتی ہو ، تم ٹھنڈی چائے نہیں پیتی۔ صدف: اس کی ضرورت نہیں مجھے ٹھنڈی چائے پسند ہے۔اور پھر مسکراتے ہوئے صدف چائے پینا شروع کر دیتی ہے۔