تیسری قید
(فاطمتہ الزہرہ،لاہور)
امتحان کے کڑے وقت کی ایک دفعہ پھر ابتدا ہو گ?ی۔ایک عرصے سے تعلیم کے لیے مارچ اپریل کا مہینہ امتحانات کے لحاظ سے موزوں ہوا کرتا تھا لیکن پچھلے دو سالوں سے چائنہ میں کرونا وائرس کی آمد اور مختلف ممالک میں اس کے پھیلاؤ نے عملی زندگیوں کو بھی سخت امتحانات سے دوچار کررکھا ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس مشکل دور میں لوگ محنت شاقہ اپنانے کے بجائے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ایسے وقت میں جبکہ قوم تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور بچوں کے روشن مستقبل تاریکی میں ڈوب رہے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ محنت اور ہنر کو اپنا کر وقت کی ضرورت کے مطابق زندگیوں کو ڈھالا جا سکے۔ہر حال میں محنت کو اپنا شعار بنانے سے ہی اصل کامیابی مل سکتی ہے۔
بچے ایک قوم کا مستقبل ہوا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی راہنمائی اور بہترین تربیت کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ذہنوں سے گرد ہٹا کر انہیں محنت کے راستوں سے متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت سونا ہے۔ جتنا سو کر گزاریں گے اتنا ہی گنوا دیں گے اور جو کارآمد بنائیں گے اتنا ہی کندن بنائیں گے۔ محنت مزدوری میں کوئی عار نہیں اور کوئی شعبہ معیوب نہیں۔ اگر بچپن میں بچے بھوکے سو سکتے ہیں تو روٹی بھی پکا سکتے ہیں۔ اگر پھٹے پرانے کپڑے پہن سکتے ہیں تو کپڑے سی بھی سکتے ہیں، بنا بھی سکتے ہیں، بُن بھی سکتے ہیں اور بیچ بھی سکتے ہیں۔ اگر فٹ پاتھ پر سو سکتے ہیں تو وہاں دکان بھی لگا سکتے ہیں۔ اگر دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں بھیگ مانگ سکتے ہیں تو پیسے بھی کما سکتے ہیں۔
صرف محنت و ہنر کے راستے اپنانے کی ضرورت ہے۔ منزل ویران پڑی ہے اور مسافر کانٹوں کے ڈر سے حوصلہ چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ہمیں ایک قوم بن کر جز بے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ کمائی کا ایک راستہ بند ہو تو دوسرے پر دستک دو، دوسرا بند ہو تو تیسرے پر دستک دو اور محنت ایسے کرو گویا یہ وراثت ہو۔ منزل تک پہنچنے کے لیے کانٹے سمیٹنے پڑیں تو سمیٹو اور کانٹوں پر چلنا پڑے تو بچ کر چلو پر سفر نہ چھوڑو۔ اگر لاک ڈائون کی قید ہے تو کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ سونے کے پنجرے میں قید طوطا بھی اس امید پر پر پھڑپھڑاتا رہتا ہے کہ کبھی تو وہ بھی موسم بہار میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُڑے گا۔ وہ یہ سوچ کر خوش نہیں ہوتا کہ سونے کا پنجرہ میری ملکیت ہے بلکہ آزادی کی امنگ لیے جوش و جذبے کے ساتھ جیتا ہے۔ پھر! آخر اشرف المخلوقات نے کیا سبق سیکھا طوطے سے؟ اگر سامان مہیا نہیں تو کیا؟
سرمایہ نہیں تو کیا؟ یا مواقع نہیں تو کیا ہنر کو زنگ آلود ہونے کے لیے چھوڑ دیں؟ محمد بن قاسم کی نسل اپنی مہارت کو تالے لگا لے؟ ابوالقاسم زاہراوی کی قوم صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر غفلت کی نیند سوتی رہے یا یوں کہوں کہ اقبال کے شاہین موبائل پر گیمز کھیلتے رہیں؟ یہ موبائل جسے آدھی دنیا وبال جان کہتی ہے یہ کروڑ پتی بھی بنا دیتا ہے۔ جو بچے موبائل کے پروگرامز کو جانچنے میں مہارت رکھتے ہیں وہ فری لانسگ اور ایمازون کے کورسز کریں۔گرافکس ڈیزائن کریں۔ موبائل بہت کچھ ہے بس اسے سمجھیں۔ بچوں کو اس وقت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بہت سی ارفع کریم اور بہت سے اقبال چھپے بیٹھے ہیں۔ ذہانت اور عقل سے ملک کو آگے بڑھانا ہمارے عمل پر منحصر ہے۔ تجارت اگر بند ہو گئی تو آن لائن ہر حال میں کھلا ہے جو کبھی بند نہیں ہو سکتا اور بچے اس فرق کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھیں کہ لڑکے کھانا نہیں پکا سکتے ہیں یا لڑکیاں نازک ہوتی ہیں۔ صرف آٹھ مارچ کو احتجاج کرنے سے ہی عورتوں کو حقوق نہیں ملیں گے نا ہی حجاب والی پروفائل لگانے سے جنت ملے گی۔ ہر فرد کی محنت پاکستان کی حالیہ ضرورت ہے۔ قدرت میں ہوتا اگر تو میں ارض وسماں کو بھی کہہ دیتی کہ کچھ کام کرلو مگر ان کا کام کھڑے رہنا ہے اپنی جگہ پر۔ جب وہ ہلتے ہیں تو انسان کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔نیند بہت دلچسپ مشغلہ ہے مگر طلوع آفتاب کا نظارہ بھی کم
پر لطف نہیں ہوا کرتا۔ مزدور تو صبح سے نکل گیا بچوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر۔ جو گاؤں سے آئے تھے لڑکے نام روشن کرنے وہ شہر آکر روشنی کی کرنوں کا سامنا نہ کرسکے۔ غرض نیند نے انہیں پناہ اور رات نے سکون دیا۔ یوں ہی تو عذاب خدا نازل نہ ہوا۔ آج بھی وقت ہے قوم مسلم توبہ کرلو۔ان ممالک نے تمہارے ضابطے اپنا کر دنیا کو تسخیر کیا ہے۔ جھگڑے کرنے کے لیے تو عمر پڑی ہے لیکن توبہ کے لمحات تو کم ہی بچے ہیں۔ بابرکت مہینے رمضان کی آمد اور لاک ڈائون کی قید ساتھ ساتھ ہیں۔ یہ تیسری قید ہے کہ مسجد میں اذان گونجے گی اور مسلمان گھر میں نماز پڑھے گا
۔ اقبال کہہ گئے کہ جوش و جذبہ بدر جیسا پیدا کرو فرشتے آج بھی مدد کو اتریں گے۔ توبہ ہم آج کریں گر صاف نیت کے جذبے سے تو بخشش کے دروازے آج بھی کھلیں گے۔ عمل گر عوام اپنے سدھار لے تو اورنگزیب جیسے حکمران بھی پیدا ہوں گے۔ قرآن کو حفظ کرنا بڑی نیکی ہے مگر اسے سمجھ لینا بڑے اجر کا کام ہے۔ اور یہ جنت کی راہوں میں سے پرکشش راستہ ہے غرض محنت کا ایک نام بھی ہے۔ اللہ ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!