سیاسی ہوائوں کا رُخ بدل رہا ہے! 153

عوام جیت کر بھی ہار گئے ہیں !

عوام جیت کر بھی ہار گئے ہیں !

تحریر:شاہد ندیم احمد
ملکی سیاست میں کئی ہفتوں سے ڈسکہ الیکشن بہت گرم تھا ،ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ڈسکہ انتخاب میں پی ٹی آئی کی جان اٹک گئی ہے ،اگرمسلم لیگ( ن) انتخابات جیت گئی تو پی ٹی آئی حکومت گر جائے گی یا پھر پاکستان میں جمہوریت بچے گی یا ختم ہو جائے گی ،لیکن ڈسکہ الیکشن کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، پی ٹی آئی حکومت گری نہ کسی کی جان نکلی، یہ نشست مسلم لیگ( ن) کے پاس تھی، اس کے پاس ہی رہی ہے،ملک میں جمہوریت ختم ہوئی نہ جمہوریت کو فروغ ملا ہے ، اس کا جو حال پہلے تھا، وہی اب بھی ہے ،ڈسکہ الیکشن کے نتیجہ میںصرف اتنا ہوا ہے کہ باپ کی نشست بیٹی کے پاس چلی گئی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں موروثی سیاست کی جڑیں بہت گہری ہیں ، در اصل ڈسکہ انتخاب میں مسلم لیگ( ن) کی کا میابی موروثی سیاست کی کا میابی ہے،قومی اسمبلی کی یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے رکن سید افتخار الحسن شاہ المعروف ظاہرے شاہ کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی، جس پر19 فروری کو ضمنی انتخاب ہوا ،تاہم الیکشن کمشن نے بے ضابطگیوں کی بنیاد پر انتخاب کالعدم قرار دے کر ازسرنو پورے حلقہ کا دوبارہ انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا،اس فیصلے کو پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا

،لیکن عدالت عظمیٰ نے دوبارہ انتخاب کے لئے الیکشن کمشن کا فیصلہ برقرار رکھا، چنانچہ اس حلقے میں دوبارہ پولنگ ہوئی جس میںمسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی سے 19201ووٹ زیادہ حاصل کر کے کامیاب ہو گئی ہیں،بظاہر دونوں پارٹیوں کے امیدواروں میں فتح و شکست کے درمیان ووٹوں کا فرق بہت زیادہ نہیں ، تاہم شکست خوردہ پارٹی کو اپنی ناکامی کی وجوہات اور عوامل کا جائزہ ضرورلینا چاہیے،جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ڈسکہ میں ہمارا مقابلہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں، بلکہ گدی نشینی کی آڑ میں جواری اور کریمنل سوچ رکھنے والوں کے ساتھ تھا، ان کے بقول ڈسکہ میں تحریک انصاف کے منشور کے تحت شفاف،

منصفانہ اور میرٹ پر الیکشن کو یقینی بنایا گیا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ایک منصفانہ اور میرٹ پر الیکشن کے نتیجے میں سارا شور شرابا ختم ہو گیا ،لیکن پاکستانی عوام کی توجہ اصل معاملات سے ہٹانے کے لیے اسی طرح کے ابھی اور ڈرامے ہوتے رہیں گے۔عوام کے سامنے ڈسکہ کے بعد اب کراچی کے حلقہ 249 کاالیکشن جتنا اہم بنایا جائے گا۔ اس پر ایک بار پھر صبح و شام بحث ہوگی اور پھرکوئی ایک جیت جائے گا، یہ بھی ممکن ہے کہ معاملات کی فکسنگ کی جائے۔ پہلا الیکشن ایک پارٹی جیتے گی دوسرا بھی وہی جیتے گی پھر لگاتار دونوںالیکشن ہار جائے گی

اور یوں پانچواںالیکشن بہت اہم قرار پائے گا،جس پر پارٹی کی جیت کا فیصلہ ہوگا، عوام سمجھ رہے ہیں کہ کوئی مقابلہ ہو رہا ہے،اس میں کسی ایک کی جیت سے ان کا بھلا ہوگا ،لیکن ایسا ہر گز نہیں اور نہ ا یساکبھی ہوسکتاہے،کیو نکہ امرود کاشت کرکے آم کی فصل حاصل نہیں کی جاسکتی اور جو نظام پاکستان میں رائج ہے ،یہ عوام کے لیے سراسر کانٹوں کی فصل لاتا ہے۔ عوام گلوں کے رنگ و بو کے دھوکے میں کانٹوں پر زبان رکھ کر لہولہان ہوتے رہتے ہیں ،لیکن بات نہیں سمجھتے کہ اس نظام میں باپ کی جگہ بیٹا یا بیٹی یا کوئی رشتے دار آتا رہے گا ،کبھی کسی پارٹی کا کوئی مخلص بے لوث کارکن نہیں آئے گا، یہ سارا نظام ہی الیکٹ ایبل کے گرد گھومتا ہے اورپھر یہی لوگ اسمبلی میں پہنچ کر پارٹی کو اپنے گرد گھماتے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملکی سیاست میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ،انہیں صرف ووٹ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ،اب ڈسکہ کے بعد کراچی پھر کوئی اور اسی طرح پانچ سال گزارے جائیں گے۔ عوام نان بریانی کھا کر استعمال ہوتے رہیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی ، ہمارا میڈیا بھی کسی دوسری جانب توجہ دینے ہی نہیں دے گا کہ ملک کی معیشت گروی رکھ دی گئی، اسٹیٹ بینک ہاتھ سے گیا، قرضے بڑھتے ہی جا رہے ہیں، ادائیگی کا کوئی راستہ نہیں، عالمی اداروں کے نمائندے ملک پر مسلط ہیں،جنہیں عوامی فلاح سے کوئی سروکار نہیں،اسی لیے عوام کی فلاح کے لیے کوئی قانون سازی بھی نہیں ہو رہی ہے ،لیکن ہر طرف ایک سیاسی ہنگا مہ یوں بر پا ہے کہ جیسے ملک میں کوئی دوسرا مسئلہ ہی نہیں ہے ،جبکہ عوام کا بڑھتی مہنگائی سے براحال ہے، آٹا ایک دفعہ مہنگا ہوا تو پھر نیچے نہیں آیا، شکر مہنگی ہوئی تو نیچے نہیں آئی

،بلکہ مافیا کے خلاف کارروائی کی گئی تو مارکیٹ سے ہی غائب ہو گئی۔ ملک کے اہم اداروں کو بیچا جا رہا ہے، ملکی پیداوار ختم ہو کر رہ گئی ہے ،لیکن یہاں ضمنی الیکشن کا تماشا مسلسل چل رہا ہے، ڈسکہ کے بعد کراچی الیکشن اور دوسرے انتخابات سب اسی نظام کا حصہ ہیں،اس میں بھی وہی لوگ جیتیں گے، جنہوں نے ملک کو تباہ کیا ہے تو ملک میں بہتری کہاں سے آئے گی۔عوام بھی آزمائے ہوں کودوبارہ آزمانے کی روش ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،عوام نے جنھیں تین بار آزمایا ،انہیں دوبارہ مواقع د ینے لگے ہیں،،عوام کل بھی جیت کرہارے ،آج بھی ہار گئے ہیں،سیاست میں ہمیشہ جیت عوام کے نام پر مفاد پرستوں کی ہوئی ہے،تاہم موجودہ حکومت کی جانب سے بھی آئے روز بڑھتی مہنگائی اور بری گورنس نے عوام کو مایوس کر دیاہے ،

حکومت کو اپنی گورننس اور عوامی پالیسیوں سے متعلق معاملات پر بہرصورت غور و فکر کرنا چاہئیے کہ روز افزوں مہنگائی کے نتیجہ میں عوام میں اس کی مقبولیت کا گراف بتدریج نیچے آ رہا ہے ، حکومتی وزراء وزیر اعظم کو سب اچھا دکھانے پر عمل پیراں ہیں، جبکہ عوام اپنے گھمبیر ہوتے روٹی روز گار کے مسائل سے عاجز آ کر انتخابی عمل میں اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں، اگر عوام کی غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل اسی طرح بڑھتے گئے تو آئندہ عام انتخابات میں حکومت کیلئے کا میاب ہونا تو دور کی بات خود کو بچانا بھی مشکل ہو جائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں