“انصاف کی متلاشی بارہ سالہ خولہ وحید”
تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون…..،03008600610
وٹس ایپ،03063241100
وطن عزیز میں آئے روز بچوں اور بچیوں کے اغواء اور ان سے زیادتی کے واقعات کی شرح اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہر شریف آدمی اپنے بچوں کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے، کیونکہ اب تو کئی شہروں میں یہ مکروہ دھندہ بااثر شخصیات کی سرپرستی میں چل رہا ہے ،کوئی گروہ کمسن بچوں کو اغواء کرکے انہیں زندگی بھر کیلئے معذور کرکے بھیک منگوا رہا ہے تو کوئی گینگ نوعمر لڑکیوں کو پھانس کریا اغواء کرکے ان سے مکروہ دھندہ کرا رہا ہے،یہی نہیں ملک کے کئی علاقوں میں ایسے گینگ بھی کام کر رہے ہیں جو پاکستان سے کمسن اور نوعمر بچیوں کو اغواء کرکے بیرونی ممالک بالخصوص عرب ریاستوں کے کلبوں میں ناچ گانے کے ساتھ ان سے گندا دھندہ کرانے میں مصروف ہیں،
ملک میں ایسے ایک دو نہیں سینکڑوں گینگ موجود ہیں، جو ملک میں کمزور قانون ہونے کے باعث ڈنکے کی چوٹ پر اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ ایک تو ان کے لمبے ہاتھ ہوتے ہیں اور دوسرا انہیں بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، جس کے عوض یہ گروہ بااثر شخصیات اور ان کے دوستوں کی مغوی لڑکیوں کے وساطت سے جنسی اور جسمانی تسکین پوری کرنے کے ساتھ ہر طرح کا معاوضہ اپنا مکروہ دہندہ جاری رکھنے کیلئے انہیں ادا کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج تک ایسے دھندے میں ملوث کسی گروہ یا ملزم کو وہ سزا نہیں مل سکی جو کہ ایسے جرائم میں ملوث ملزموں کے لئے ضابطہ فوجداری کی کتابوں میں درج ہے، اور اکثریت معمولی سزا بھی صرف غریب ملزم کو ہوتی ہے
جس کے پیچھے کوئی پیروی کرنے والا نہیں ہوتا یا پھر وہ کچہریوں کی بھول بھلیوں سے واقف نہیں ہوتا، یہاں قانون تو سرمایہ دار کے گھر کی باندی کا کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے اور قانون پر عملدرآمد کرانے والے و قانون کے محافظ ہمیشہ سرمایہ دار کے گھروں کے طواف کرتے ہیں اور سرمایہ دار ،جاگیردار،وڈیرے اب بھی ملک کے قانون پر حاوی ہیں اور اپنے علاقوں میں بڑی شخصیات کا اپنا سکہ چلتا ہے، اور کمزور قانون کے پاس ایسی کوئی دفعات نہیں ہوتیں کہ وہ جرم کرنے والے سرمایہ دار، جاگیردار ،وڈیرے کو گرفت میں لاسکیں، ملک میں آئے روز ایسے لاتعداد واقعات سامنے آتے ہیں جن میں قانون پر عملدرآمد کرانے والے قانون کے محافظ ہی مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دیکر مظلوم کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، جان کی امان پاؤں تو میرا مقصد کسی مقدر ادارے پر تنقید کرنا نہیں بلکہ معاشرے میں ہونے والے ایسے واقعات جو تاریخ کا حصہ ہیں جن میں ہونے والا انصاف خود ہی انصاف کا منہ چڑا رہا ہوتاہے، اورمظلوم سر جھکائے معاشرہ کی بے ڈھنگی طنزیہ باتیں سن کر دل ہی دل میں۔ کڑھتا رہتا ہے اور بالآخر یا تو خود کشی کرلیتاہے، یا اندر ہی اندر سسک سسک کر دم توڈ دیتا ہے۔
راقم آج اسی نوعیت کے ایک واقعہ میں ملوث گینگ پر قلم کشائی کررہا ہے، 25 فروری 2021 کے روز پاکستان کے سب سے بڑے روشنیوں کے شہر کراچی سے اغواء کاروں کے ایک گینگ نے قلم کار قبیلے سے تعلق رکھنے والے عبدالشکور المعروف وحید منظر کی بارہ سالہ بیٹی خولہ وحید کو اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا،جس کامقدمہ اے وی سی سی نے درج کیا،اس المناک اور درد ناک واقعہ پر کراچی سمیت ملک کے صحافیوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا تو قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ بڑھ گیا، جس کے نتیجہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رحیم یار خان سے مغوی بچی کو بازیاب کراکر تین ملزمان کو گرفتار کرلیا، عدالت نے ملزمان اور بچی کا ڈی این اے کرانے کا حکم دیا تو پولیس نے صرف میڈیکل کروانے کہ بعد ڈی این اے کروانے کیلئے متاثرہ بچی کہ باپ سے بھتہ مانگ لیا جو وہ دینے کی سکت نہ رکھتا تھا، ذرائع کہتے ہیں
کہ ملزمان نے دوران تفتیش حیرت انگیز انکشافات سے پردہ اٹھاتے ہوئے تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ وہ (ملزمان) سابقہ پولیس انسپکٹر ارشد کے کارندے ہیں ،اور ملک سے کمسن بچیوں کو اغواء کرکے دبئی کے نائیٹ کلبوں کے دلالوں کو فروخت کرتے ہیں اور خولہ وحید کو بھی اسی تناظر میں اغواء کیا گیا تھا،ملزمان نے اس بات سے بھی پردہ اٹھایا کہ سابقہ پولیس انسپکٹر ارشد کی سرپرستی میں وہ کئی بچوں اور بچیوں کو اغواء کر کے ان کے ورثاء سے تاوان وصول کر چکے ہیں۔ اتنے بڑے انکشاف کے بعد ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ سابقہ پولیس انسپکٹر ارشد کو گرفتار کرکے گروہ سے تفتیش کی جاتی اور پتہ چلایا جاتا ہے کہ اس گروہ نے کتنی بچیوں کو عرب امارات کے نائیٹ کلبوں کی زینت بنایا ہے اور کن کن کے بچوں کو اغواء کرکے ان سے بھتہ وصول کیا، لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ مرکزی ملزم تو پولیس کا سابقہ پیٹی بھائی تھا جس کے ہاتھ لمبے تھے
جبکہ متاثرہ بچی خولہ وحید کا والد تو غریب قلم کار قبیلے سے تعلق اور پولیس کو کچھ دینے کی سکت نہ رکھتا تھا، اور پھر انصاف کا خون اسی طرح ہوا جس طرح اکثر ہوتا ہے، پولیس نے سابقہ پولیس انسپکٹر ارشد کو گرفتار نہ کیا اور نہ ہی اس کی گرفتاری کے لئے سنجیدہ نظر آرہی ہے، یہاں انصاف کا جنازہ اس وقت اٹھتا نظر آیا جب بارہ سالہ خولہ وحید کے اغواء میں گرفتار تین ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس فائل میں قانونی سقم ہونے پر معزز عدالت نے تینوں ملزمان کو تیس تیس ہزار کے مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے (ملزمان) کو رہا کرنے کا حکم دے دیا،حالانکہ دوسری طرف اعلیٰ عدالتیں آئے روز بچوں اور بچیوں کے اغواء اور زیادتی کے ملزمان کو کڑی سزائیں دینے کے احکامات جاری کررہی ہیں
اور وزیراعظم پاکستان اور وفاقی کابینہ نے تو اس نوعیت کے کیسوں میں سزائے موت اور عمرقید تک کی سزا دیناتجویزکی ہے اور اس سلسلے میں پچھلے دنوں باقاعدہ قانون سازی بھی کی گئی تو ان حالات میں بارہ سالہ خولہ وحید کے اغواء کاروں کا اس طرح رہا ہونا ملک میں قانون کے ساتھ کھلواڑ اور ایسے واقعات میں ملوث گروہوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ کبھی ننھی زینب سے زیادتی کے بعد قتل جیسا واقعہ رونما ہوتاہے تو کبھی موٹر وے پر بچوں کے سامنے ماں کو زیادتی کانشانہ بنادیا جاتاہے، جس سے ریاست مدینہ میں بسنے والی ماؤں بیٹیوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ انصاف نہ ملنے پر راولپنڈی کی عدالت میں خاتون جج کو جوتامارتی ہے، یہ جوتا دراصل خاتون کے خلاف فیصلہ کرنے والے جج پر نہیں مارا جاتا بلکہ اس بوسیدہ نظام پر مارا گیاجو سرمایہ دار کی خواہش پر بدل جاتا ہے
جناب کپتان عمران خان صاحب اسی نظام کی متاثرہ کراچی کی بارہ سالہ معصوم خولہ وحید آپ سمیت قانون نافذکرنے اور انصاف فراہم کرنے والے ہر شخص اور ادارے کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے اور انصاف کی منتظر ہے کہ شاید اس دنیا میں کوئی مسیحا آئے اور اسے انصاف فراہم کردے ورنہ یہ معصوم بچی آخرت میں کپتان جی آپ، مجھ سمیت معاشرے کے ہر فرد کا گریبان پکڑے گی اور سوال کرے گی کہ آپ جب ریاست مدینہ کے سربراہ تھے تو مجھ سے ظلم ہوا تھا، ظالموں کوسزا دلوانے میں کردار ادا کرنا آپ کا بطور حاکم وقت فرض تھا، تو کپتان جی آپ مجھ سمیت اس وقت کسی کے پاس معصوم خولہ وحید کے سوال کا کوئی جواب نہ ہوگا؟ تو کپتان جی اب بھی وقت ہے کہ اس بھیانک واقعہ کا نوٹس لے کر خولہ وحید اور اس کے ورثاء کو انصاف فراہمی کیلئے اقدامات کردیجیے، تب بنے گا کپتان جی یہ ملک ریاست مدینہ۔ ورنہ تو پرانی پاکستان ہی اچھا تھا۔