اسیرکی توبہ 145

دل اور دلخراش

دل اور دلخراش

جمہورکی آواز ایم سرورصدیقی
دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ایک اور لہر آنے کا شورمچاہواہے یہ وباء اتنی بھیانک ہے کہ ہرطرف خوف وہراس ہے اس سے متاثرین کے لوگ قریب بھی نہیں جاتے جن کے لئے مریض ساری زندگی کما کما کر تھک جاتاہے جن کو ایک خراش لگے تو اس کی نیند حرام ہوجاتی تھی وہ بھی ا س کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں حتیٰ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف بھی ان سے خوف کھاتا ہے گذشتہ سال لاہورکے میو ہسپتال میں کورونا وائرس کا ایک مریض طبی امداد کیلئے کئی گھنٹے چلاتارہاکوئی اس کے قریب بھی نہ پھٹکا اسی دوران بے بسی کے عالم میں اس کی موت ہوگئی اس کی سنگینی کااندازہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ چین،امریکہ ،بھارت اور اٹلی میں ہزاروں افراد دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ ٔ اجل بن گئے

یہ وباء اتنی تیزی سے پھیلی کہ لوگوںکو سنبھلنے کاموقعہ ہی نہ ملا کہیں بچے، کہیں بوڑھے اورکہیںعورتیں سڑکوںپر چلتی چلتی اچانک گرتیں خوفناک انداز میں چیختیں کسی کو قے آتی، کسی کا خون آلودہ تھوک اسی کے کپڑوںپر گرتاکوئی تیڑھا میڑھاہوکر آڑا ترچھاوہیں جان دے دیتا۔سینکڑوں بچوںنے اپنے والدین کے ہاتھوں میں چل بسے اور جن کے ہاتھوںمیں ان کے پیارے جان بحق ہوئے وہ بھی اس وائرس کا شکارہوگئے ان کاانجام بھی اسی انداز سے ہوگیا گھر،بس سٹاپ، سڑکیں،دفاتر،ہوٹل ،شاپنگ مال الغرض ہرجگہ لوگ مرتے چلے گئے شہرکے شہرلاشوںسے بھرگئے گھنٹوں کوئی لاشوںکو اٹھانے والا نہیں آیا سب کے سب خوفزدہ تھے ڈرے، ڈرے،سہمے،سہمے سب پر موت کا خوف طاری تھا جو ایک ایک خراش لگنے پر آسمان سرپر اٹھالیاکرتے تھے ان کے دلخراش واقعات سننے والا کوئی زندہ نہیں بچا کیونکہ یہ وباء یہ مرض کتنا خوفناک ہے

ا س کا اندازہ ان2 واقعات سے لگایاجاسکتاہے جو قیامت سے کچھ کم نہیں ہیں؟ ایک فرانسیسی ڈاکٹر نے “Tv5” نامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: آج ایک گھڑی ایسی آئی کہ مجھے لگا میں “شدت تکلیف سے” اندر ہی اندر جھلس رہا ہوں۔
ہوا یہ کہ “کرونا” کے ایک مریض نے اپنے آخری وقت میں ہم سے درخواست کی کہ وہ آخری مرتبہ اپنی اولاد سے ملنا چاہتا ہے۔ پہلے تو ہم نے صاف انکار کر دیا۔لیکن جب وہ بری طرح رو رو کر اصرار کرنے لگا کہ اب زندگی کا کیا بھروسہ میں آخری وقت اپنے پیاروںکو دیکھناچاہتاہوں ان سے باتیں کرنے کو دل مچلتاہے تو ہمیں اس پر بہت ترس آیا اور ہم نے اس کی بات ماننے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ ہم ایک جگہ کاانتخاب کیا خصوصی طور پر صفائی اور دیگرحفاظتی انتظامات کئے تاکہ مریض کے گھر والوں کے لئے کوئی خطرہ نہ رہے۔ پھر “بطور ڈاکٹر” جب ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ اب “وہ ” کسی اندیشہ کے بغیر آسکتے ہیں تو ہم نے “موت کی آغوش میں آخری سانسیں لیتے شخص کی ” آخری خواہش ” پوری کرنے کیلئے ” اس کے گھر والوں کو فون کیا۔
لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ مریض کے گھر والوں نے باپ سے آخری مرتبہ ملنے سے انکار کردیا کہ کہیں ان کو بھی یہ وائرس نہ لگ جائے۔ ہم نے ان سے بہت التجا کی اور لاکھ یقین دلایاکہ ہم نے حدسے زیادہ احتیاطی تدابیر کر لی ہیں اور آپ کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن وہ نہیں مانے اور فون کاٹ دیا۔ یہ کہتے ہوئے فرانسیسی ڈاکٹر آبدیدہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قیامت کا ہولناک منظر کھینچتے ہوئے فرمایا: یہ وہ دن ہے کہ جس دن انسان اپنے بھائی سے بھاگے گا،اپنے ماں باپ اور اپنی بیوی بچوں سے دور بھاگے گا۔ میرے نزدیک تو یہ قیامت کاسا منظر تھا۔۔دوسرا واقعہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک دلخراش تصویر ہے جس نے دنیا کی بے ثباتی آشکارکرکے رکھ دی ہے

اس کی آنکھوں کی یہ بے بسی لاکھوں آنکھوں کو نم کرگئی یہ تصویر انڈونیشیا کے ڈاکٹر علی کی آخری تصویر ہے جوکروناوائریس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود کو کرونا وائریس سے نہیں بچا سکے تو اس عظیم ڈاکٹر جب ا لگاکی اب وہ زندہ نہیںبچیں گے تو انہوںنے اپنی اہلیہ کو فون کرکے تمام صورت ِ حال سے آگاہ کیا انڈونیشیا کے ڈاکٹر علی نے اسے کہا تم بچوںکو لے کر گیٹ کے سامنے آجائو میں اپنے پیاروںکاآخری دیدار کرناچاہتاہوں لیکن خبردار تم یا بچے بھول کربھی میرے پاس آنے کی غلطی نہ کرنا تم نہیں جانتی یہ غلطی کتنی بھیانک ثابت ہو سکتی ہے یہ میری تم لوگوںکے ساتھ آخری ملاقات ہوگی ا سکے بعدمیں جتنے دن بھی زندہ رہوں مجھے ملنے کی ضدنہ کرنا ان شاء اللہ ہماری ملاقات جنت میں ہوگی

بس میں جی بھرکر تمہیں دیکھنا چاہتاہوں ۔ ڈاکٹر علی اپنے گھر گئے اور گیٹ کے باہر کھڑے ہوکر اپنے بیوی بچوں کا جی بھر کے آخری دیدار کیا اور دور کھڑے رہے وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ بیماری بیوی بچوں کو لگے یہ تصویر انکی اہلیہ نے اپنے موبائل فون سے لی تھی ڈاکٹر علی انسانی روپ ایک فرشتہ ثابت ہوئے مرنے سے پہلے گھر آئے بچوں کو گیٹ کے باہر سے دیکھا اور چل دیا اسکے بعد دنیا کو الوداع کہہ دیا ذراتصورکی آنکھ سے دیکھئے دل ہی دل میں محسوس کیجئے کتنا تکلیف دہ وہ لمحہ رہا ہوگاجب اپنے معصوم بچوں کو اپنے سینے سے بھی نہیں لگا سکے، نہ پیار کرسکے اور نہ ہی چوم سکے ڈاکٹر علی اپنے فرض پرقربان ہوگئے یقینا انسانیت ڈاکٹر علی کی ہمیشہ مقروض رہے گی۔پاکستان میں گلگت بلتستان ڈاکٹر اسامہ ریاض کروناوائرس کے مریضوںکا علاج کرتے کرتے خودمریض بنکر چل بسے اب دنیا میں درجنوں ڈاکٹراور پیرا میڈیکل سٹاف میں

اس خطرناک مرض کے وائرس کانکشاف ہواہے اللہ تبارک تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ سب متاثرین کو صحتِ کاملہ سے نوازے( آمین) اس وقت دنیا بھرمیں12لاکھ سے زائد افراداس وباء کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لاکھوںمتاثرہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب میڈیکل ٹیمیں اس وباء سے محفوظ نہیں رہ سکیںتو عام آدمی کو تو اور بھی زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے آپ بھی احتیاط کیجئے کہ احتیاط ہی اس وباء سے بچنے کا واحدطریقہ ہے۔ اپنے ،اپنے خاندان اور اپنے پیاروںکی خاطر احتیاط ہی عافیت ہے لہذا اپنی حفاظت کیلئے اپنی حکومت کا ساتھ دیجئے اورڈاکٹروںکی تجاویز پر عمل کیجئے یقین اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے ایک بار پھر گذارش ہے احتیاط کیجئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں