’’منشیات معاشرے کیلئے زہر قاتل ‘‘
تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون…..،03008600610
وٹس ایپ،03063241100
وطن عزیز میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال نے خطرے کا الارم بجا دیا ہے، کچھ عرصہ قبل تک منشیات کے استعمال سے ایک محدود طبقہ متاثر تھا، لیکن اب یہ لعنت کالجوں، یونیورسٹیوں، حتیٰ کہ مڈل، ہائی سکولوں کے طلباء و طالبات کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں رہنے والے طلباء و طالبات میں منشیات کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے، اس طرح منشیات کی لعنت مستقبل کے معماروں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر رہی ہے۔ وطن و قوم کے دشمن منشیات فروشوں نے طلباء و طالبات کو منشیات کی لعنت میں مبتلاء کرنے کیلئے باقاعدہ گروہ تشکیل دے رکھے ہیں جو تعلیمی اداروں اور ہاسٹل کے عملہ سے ملی بھگت کر کے نسل نو کو منشیات فراہم کر کے تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہیں،
دنیا کی کل آبادی کے 5 فیصد افراد منشیات کی لت میں مبتلاء ہیں اور یہ تعداد آئے روز بڑھتی جا رہی ہے، اس وقت دنیا میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 26 کروڑ کے لگ بھگ ہے، جبکہ 31 دسمبر 2020 تک پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 76 لاکھ تک تھی، جس میں ہر سال تقریباً 10 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے، منشیات کے عادی افراد میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو مرد، خواتین یا نوجوان اس بیماری میں مبتلاء ہو جاتے ہیں ان کی صحت مند معاشرے میں واپسی آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے، کیونکہ سرکاری سطح پر منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجہ کے لئے سہولتیں نا پید ہیں جبکہ نشہ کی لت میں مبتلاء ہونے والے 75 سے 80 فیصد افراد غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو پرائیویٹ سیکٹر میں علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔
طبی ماہرین کے مطابق منشیات کے مسلسل استعمال سے انسان مختلف قسم کی جسمانی و ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے، منشیات کے عادی مریض کا مزاج و قوت مدافعت و شخصیت متاثر ہو جاتی ہے، اس کے دماغ کی کارکردگی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے، اور جسم میں ناقابل برداشت تکلیف محسوس ہوتی ہے، منشیات کی لت میں مبتلاء مریض آنت و پیٹ کی بیماریوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں، اور ان میں دل کے امراض کے چانس بڑھ جاتے ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے نے منشیات کے عادی مختلف طبقات کے حوالے سے تحقیق میں بہت کم دلچسپی لی ہے،
حالانکہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس بیماری کی زد میں آ چکا ہے، دنیا میں اس وقت صنفی اعتبار سے67 فیصد مرد 18 فیصد خواتین اور 15 فیصد نو عمر بچے منشیات کی لت میں مبتلاء ہیں، جبکہ 75 فیصد منشیات کے عادی افراد کی عمریں 18 سے 35 سال کے لگ بھگ ہیں، ہر سال منشیات کے عادی افراد میں سے 4 سے 5 فیصد موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
وطن عزیز میں زیادہ تر چرس، بھنگ، افیون، گانجا، حشیش، ہیروئن، کوکین، ماری جوانا، ایمفی ٹیمائن کا نشہ کیا جا رہا ہے، جبکہ شیشہ کیمیکل اور شراب کا استعمال بھی کثرت سے ہو رہا ہے، نشہ کے عادی افراد میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تین اقسام ہیں جن میں پہلی قسم اعصابی تنائو کو کم کرنے کیلئے نیند یا سکون کی گولیاں استعمال کرنے والوں کی ہے، جس کے استعمال سے اعصاب آہستہ آہستہ کمزور ہو جاتے ہیں، جبکہ دوسری قسم کے استعمال سے لوگوں میں چستی اور پھرتی آ جاتی ہے، یہ قسم بہت سی جنسی ادویات میں بھی استعمال ہوتی ہے،
اس قسم کی منشیات کے عادی افراد میں دل کا مرض لاحق ہونے کا ہر وقت خدشہ موجود رہتا ہے، اور اس نشہ کو ترک کرنے پر خطرناک نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، نشہ کی تیسری قسم ابتداء میں غم مٹانے کیلئے استعمال کرنے والوں کی ہے لیکن بعد میں اسے استعمال کرنے والے مستقل عادی ہو جاتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز کو اپنے نشہ سے کم تر سمجھتے ہیں، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے
اور یوں یہ بیمار ذہن لوگ قبر کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔ منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ ملک میں منشیات فروشوں کیلئے سزا کا کم ہونا ہے، کیونکہ ملک میں قانون اس حد تک کمزور ہے کہ بڑے بڑے منشیات فروش پکڑے جانے پر کچھ عرصہ بعد ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں، کئی بار تو پکڑی جانے والی منشیات لیبارٹری سے فیل ہو جاتی ہے جس سے انسانی جانوں سے کھیلنے والے سمگلر باعزت بری ہو جاتے ہیں، اور پھر اپنے مکروہ دھندے میں لگ جاتے ہیں۔
جس طرح منشیات کے استعمال کے تدارک کے کئی طریقے ہیں اسی طرح اسے استعمال کرنے کے محرکات بھی بہت زیادہ ہیں، ان میں ایسا کوئی محرک نہیں جو اس مسئلے کی پوری تشریح کر سکے، جس ملک میں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، اور لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں، بچے بھوک سے بلک رہے ہوں، تعلیم یافتہ نوجوان ڈگری فائلوں میں تھامے بیروزگار گھوم رہے ہوں، بنت حواء کو کوچہ بازار کی زینت تصور کیا جاتا ہو، جہاں خواہشیں، حسرتیں ہر کسی کے ذہن پر سوار ہوں وہاں منشیات کے استعمال کو روکنا کس طرح ممکن ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کے عادی لوگوں سے نفرت کی بجائے لوگوں میں منشیات سے نفرت کا شعور اجاگر کیا جائے، یہ لوگ تو در حقیقت محبت و خلوص کے مستحق ہوتے ہیں، ہم اپنے اچھے رویوں سے ان کی لڑکھڑاتی زندگی کے خلاف نبردآزما ہونے اور ان کے جینے کی نئی امنگ پیدا کر سکتے ہیں، اکثر نشہ کے عادی اس بری عادت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، لیکن ان کی قوت مزاحمت دم توڑ چکی ہوتی ہے، یا وقت نکل چکا ہوتا ہے،
لہٰذا گرتوں کو تھامنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد کا کردار اہمیت کا حامل ہے، عالمی ادارے، ریاستیں، غیر سرکاری تنظیمیں اور رفاعی ادارے اپنے طور پر اس لعنت کے خاتمے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، لیکن بہتر نتائج اس وقت تک سامنے نہیں آ سکتے جب تک ہر فرد انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے۔ یہاں حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ انسداد منشیات آرڈیننس میں ترمیم کر کے سزائوں میں اضافہ کیا جائے اور ان سزائوں پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے جبکہ منشیات کے استعمال میں مبتلاء مریضوں کے علاج معالجے کے لئے ہر تحصیل و ضلع سطح کے
ہسپتالوں میں یونٹ قائم کیے جائیں جن میں تجربہ کار ماہر انسداد منشیات و ماہرین نفسیات تعینات کیے جائیں پوری قوم کو ذمہ داری سمجھتے ہوئے منشیات جیسی لعنت کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے، اگر ایسا نہ کیا جا سکا تو پھر آنے والے چند سالوںمیں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منشیات کے عادی افراد میں اس حد تک اضافہ ہو جائے گا کہ پھر اس لعنت پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا اور اس لت میں مبتلاء مریضوں کی لاشیں چوکوں چوراہوں سے ملیں گی۔