"پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن فراڈ" 234

’’جہانگیر ترین اور شوگر سکینڈل‘‘

’’جہانگیر ترین اور شوگر سکینڈل‘‘

تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون۔۔۔۔۔03008600610
وٹس ایپ،03063241100
حکومت کی جانب سے اب تک اپنی ہی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر جہانگیر ترین اوران کے بیٹے علی ترین کے خلاف شوگر سکینڈل کے تین مقدمات درج کئے گئے ہیں حالانکہ شوگر سکینڈل کی انکوائری کرنے والی (جے آئی ٹی)نے اپنی رپورٹ میں حکومت وقت اور اپوزیشن میں شامل کئی بڑے ناموں کو شوگر سکینڈل میں گنہگار ٹھہرا کرانہیں ذمہ دار قرار دیتے ہوئے متذکرہ شخصیات پر شوگر کے حوالے سے مختلف طریقوں سے اربوں روپے کمانے کا الزام عائد کیا ہے، یہ رپورٹ (جے آئی ٹی )نے مارچ 2020 میں وزیراعظم عمران خان کو پیش کی تھی جس پر کپتان نے اعلان کیا تھا کہ اس معاملے پر احتساب بلا امتیاز ہوگا ،اور پھر یہ انکوائری دس ماہ تک فائلوں میں دبی رہی اور اس دوران سکینڈل میں ملوث کسی حکومتی یا اپوزیشن کی شخصیت کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی،اور پھر عوام سمجھنے لگی کہ شوگر سکینڈل کی رپورٹ بھی دوسرے ریفرنسز کی طرح ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا؟ اچانک سال رواں کے ابتدا میں شوگر سکینڈل بارے ہونے والی انکوائری رپورٹ پر پیش رفت ہوئی

اور جہانگیر خان ترین ،ان کے بیٹے علی ترین،اور نجی ملازموں کے خلاف یکے بعد دیگرے تین مقدمات درج کر لیے گئے، اور بقول سیاسی زرائع حکومت وقت کے اعلی ارباب اختیار نے جہانگیر ترین اور دیگر کی گرفتاری کا عندیہ بھی دے دیا جس پر جہانگیر اور ساتھیوں نے بینکنک کورٹ سے عبوری ضمانتیں کروالیں،اس طرح عدالت نے متذکرہ افراد کو تین مئی تک گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے،یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات ایف آئی اے میں درج ہیں جبکہ ایف آئی اے وفاق کا ادارہ ہے اور وفاق کے ادارے کے مقدمات کی سماعت کیلئے وفاق کے ججزپر مشتمل ملک کے بڑے ڈویژنوں میں عدالتیں موجود ہیں تو اس کے باوجود جہانگیر ترین اور ساتھیوں نے بینکنگ کورٹ سے کیوں رجوع کیا؟

سو اس سے کسی کو کیا غرض، یہ عدالتی معاملہ ہے اور عدالتیں اور ججز اس بارے میں بہتر جانتے ہیں کہ قانون کیا ہے اور اس پر عمل کیسے کرنا یا کرانا ہے، یہاں یہ بات نہ لکھنی زیادتی ہوگی کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، الیکشن 2018 میں پی ٹی آئی کو انتخابات میں کامیاب کرانے اور پھر بالخصوص وفاق میں کپتان کو وزیراعظم بنوانے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت اور عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنوانے کے لئے جہانگیر ترین نے تمام وسائل جھونکے تھے، اور پوری قوم نے دیکھا کہ ہر دو وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بنانے میں جہانگیر ترین کے طیارے نے بھرپور کردار ادا کیا، جس کے نتیجہ میں قومی اسمبلی اور پیجاب اسمبلی میں آزاد حیثیت سے جیتنے والوں کی اکثریت نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور وہ کپتان کے کھلاڑیوں میں شامل ہوئے، یوں جہانگیر ترین نے عمران خان سے دوستی کا بھرپور حق ادا کیا ،

جس کے صلہ میں جہانگیر ترین سیاسی ،بیوروکریسی،اور ہر حلقے میں سیکنڈ وزیراعظم کہلانے لگے،جو بقول سیاسی زرائع پی ٹی آئی میں جنوبی پنجاب کی کچھ شخصیات کو بوجھ محسوس ہونے لگی، اور دسمبر 2019 میں یہ شخصیات اپنے تئیں سمجھنے لگیں کہ اگر حالات اسی طرح رہے توآنے والے وقت میں جہانگیر ترین جنوبی پنجاب میں ان کی سیاست کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں،اور پھر بقول سیاسی زرائع جنوبی پنجاب کی ان شخصیات نے ایسا سیاسی کھیل کھیلا کہ جہانگیر ترین اور عمران خان میں دوریاں پیدا ہوگئیں،اور جہانگیر خان ترین ایوان وزیراعظم،

اور وزیراعظم ہاؤس جانے سے منہ موڑ کر عدالتوں میں پہنچ گئے، یہاں آفرین ہے جہانگیر ترین کے ان سیاسی ارکان قومی وصوبائی اسمبلیز پر جو مشکل کی گھڑی میں اپنے پارٹی سربراہ کپتان عمران خان کو للکار کر جہانگیر ترین کے حمایت میں صف آرا ہوگئے ہیں اور 31 ارکان قومی وصوبائی اسمبلیز نے ہر فورم پر جہانگیر ترین کے ساتھ جینے مرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفیٰ ہونے کا بھی عندیہ دے دیا، اور ساتھ یہ بھی اعلان کر دیا کہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن،اور ق لیگ کے ساتھ بات کی جائے ،پنجاب میںعدم اعتماد کی کامیابی پر وفاق میں کپتان کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے، جہانگیر ترین کے ساتھی ارکان اسمبلی نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو آخری وارننگ دے رہے ہیں ،انصاف نہ ملا تو فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔
سیاسی زرائع کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے عشائیہ میں گو کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلیز کی تعداد 31 تھی لیکن ان کے علاوہ حکومت وقت کے وفاق اور پنجاب میں لاتعداد ارکان قومی وصوبائی اسمبلیز اور وفاقی وصوبائی وزراء جہانگیر ترین اور پی ٹی آئی کے سردست باغی گروپ سے رابطے میں ہیں،جس کا کپتان عمران خان اور اس کی کابینہ کو بخوبی علم ہے،کیونکہ جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلیز نے کپتان کو باور کرایا ہے کہ وہ انہیں اپوزیشن نہ سمجھیں وہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں ،مگر جہانگیر ترین کو انصاف دلانے کیلئے سب کچھ کرگزریں گے،

ان حالات وواقعات میں جہاں ایک طرف اپوزیشن جماعتیں حکومت گرانے اور کپتان کو گھر بھجوانے کیلئے سراپا احتجاج ہیں اور دوسری طرف تحریک لبیک پاکستان کے معاملہ پر مذہبی جماعتوں کا حکومت پر شدید دباؤ تھا، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے یوٹرن لے کر تحریک لبیک پاکستان کی قیادت سے مذاکرات کیے جس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے، اور تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین کے ایشو پر پارٹی میں وفاق اور پنجاب میں بڑا فارورڈ بلاک جہانگیر ترین کی حمایت میں معرض وجود میں آچکا ہے تو اس صورت حال میں کپتان اور اس کی کابینہ کے کھلاڑی اب پہلے سے زیادہ دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ جہانگیر ترین اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کیلئے ہر تیر آزمائیں گے، اور پی ٹی آئی کا ایک بڑا دھڑا انہیں کھل کردامے درمے سخنے سپورٹ کررہا ہے ، زرائع کہتے ہیں کہ کابینہ میں شامل وزراء نے کپتان کو مشورہ دیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کی طرح جہانگیر ترین

اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بھی مل بیٹھ کرمعاملہ کا حل نکالا جائے پارٹی کے قیمتی اثاثہ جہانگیر ترین کو راضی کرکے پارٹی میں واپس لایا جائے،زرائع کہتے ہیں کہ وزراء کے مشورہ پر کپتان نے جہانگیر ترین اور اسکے ساتھیوں سے بات چیت کرنے کا عندیہ دیا لیکن کپتان کا بیانیہ اب بھی یہی ہے کہ شوگر مافیا کیخلاف کارروائی ہو گی۔ جبکہ حکومتی صف میں شامل بڑوں نے سردست یہ بھی واضح نہیں کیا کہ جہانگیر ترین سے ملاقات میں عمران خان شامل ہوں گے یا نہیں،یا پھر یہ فرض حکومتی وفد نبھائے گا،تاہم جہانگیر ترین گروپ کا کہنا ہے کہ وہ کپتان کے علاوہ کسی سے مذاکرات نہیں کریں گے؟ لیکن کپتان چونکہ شوگر مافیا کے خلاف کارروائی کا بار بار عزم ظاہر کر رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ کپتان سے پہلے حکومتی وفد جہانگیر ترین گروپ سے ملاقات کرے۔ اور یہ ملاقات ہفتہ رواں میں متوقع ہے ،اس ملاقات کے کیا نتائج نکلیں گے

یہ کہنا قبل ازوقت ہے کیونکہ کہ جہانگیر ترین سے معاملہ فہمی ہوجانے پر شوگر کرپشن سکینڈل کے حوالے سے(جے آئی ٹی )کی رپورٹ جس میں دیگر حکومتی اور اپوزیشن شخصیات کے نام شامل ہیں ایک بار پھر فائلوں میں دب جائے گی،یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جہانگیر ترین ان کے بیٹے اور ساتھیوں پر درج تین مقدمات حکومت کے لئے بھاری ثابت ہورہے ہیں،اور کپتان کو اس معاملہ پر بھی یوٹرن لینا پڑے گا،کپتان شاید یہ بھول گئے تھے کہ اس ملک میں حکمران تو دیکھنے اور بیانیہ بیان کرنے کے مہرے ہوتے ہیں،اصل حکمران تو بیوروکریسی اور ملک کے وڈیروں اور سرمایہ دار ٹولہ ہے جو حکومتیں بنانے اور انہیں کسی بھی وقت گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،کپتان جی آپ کوبھی یاد ہونا چاہیے تھا کہ آپ کو اقتدار میں لانے کیلئے جہانگیر ترین نے سو جتن کئے تھے،اس لیئے کپتان جی دانش مندی کا مظاہرہ کیجئے یہ نہ ہو کہ آپ کی بھی داستان نہ رہے داستانوں میں،اور پھر آپ اور کھلاڑی کہتے پھریں کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہورہی تھی جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات کی جسے جہانگیر ترین دس سال پرانے قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان کیسوں میں شوگر کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی میں نے کسی دور میں کوئی غیر قانونی ریلیف لیا ہے، تو اب یہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہیں جہاں استغاثہ نے جہانگیر ترین کو مجرم ثابت کرنا ہے اور ملزمان نے اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہے،اور پھر سزاجزا کا تعین عدالت نے کرنا ہے،لیکن یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ جہانگیر ترین اور ساتھیوں کے خلاف درج مقدمات نے حکومت اور حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اگر کپتان نے معاملہ فہمی سے کام نہ لیا تو پھر وفاق اور پنجاب کی سیاست میں ان کی پارٹی کے اپنے ہی کھلاڑی نیا کھیل شروع کر سکتے ہیں؟ اس طرح حکمران جماعت پی ٹی آئی اب اس دوراہے پر کھڑی ہے کہ پیچھے گڑھا اور آگے کھائی ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں