سیاسی ہوائوں کا رُخ بدل رہا ہے! 222

رمضان میں بے قابو مہنگائی مافیا !

رمضان میں بے قابو مہنگائی مافیا !

تحریر:شاہد ندیم احمد
حکومت کی جانب سے لاکھ کوشش کے باوجود ماہ رمضان میں بڑھتی مہنگائی کو لگام نہیں ڈالی جا سکی، سبزیاں اور پھل سمیت دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ حکومت سٹورز میں کسی حد تک سبسڈی تو دے رہی ہے، لیکن اوپن مارکیٹ میں قیمتیں کنٹرول سے باہر ہیں۔چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عوامی شکایات براہ راست ٹیلی فون پر سننے کا اہتمام کیا گیاتھا،

اس دوران وزیر اعظم کو سب سے زیادہ مہنگائی میں اضافے کی شکایات موصول ہوئیں، وزیر اعظم نے عوامی شکایات سنتے ہوئے بتایا کہ ملک میں کاروباری مافیا عوام کو ارزاں نرخوں پر اشیائے خورو نوش کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں،یہ گروپوں کی صورت میں کام کرنے والے کاروباری افراد اشیا کو غیر قانونی طور پر ذخیرہ کر لیتے ہیں، مارکیٹ میں دستیاب تمام سٹاک جب ان کی تحویل میں آ جاتا ہے تو یہ من پسند نرخوں پر اسے بازار میں لے آتے ہیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ طلب و رسد کا قدرتی بہائو برقرار رکھنے کی بجائے رسد کو روک کر طلب بڑھائی جاتی ہے اورجب چیز کی قلت پڑ جاتی ہے تو من پسند دام وصول کئے جاتے ہیں۔
یہ امر واضح ہے کہ بڑھتی مہنگائی کے اسباب کچھ بھی رہے ہوں ،ہر دور اقتدار میں رمضان المبارک میں ناجائز منافع خوری قابو میں نہیں آ سکی ہے،اس بار بھی حکومت کا سب کچھ جاننے کے باوجود مہنگائی کنٹرول کرنے کے تمام دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، رمضان المبارک سے قبل جو کیلے ساٹھ ستر روپے درجن میں مل رہے تھے، اب ان کے نرخ ڈیڑھ سوکو چھورہے ہیں‘تربوز چالیس روپے اور خربوزہ 80روپے کلو مل رہا ہے۔ مرغی کا گوشت ساڑھے تین سو سے نیچے نہیں آ رہا،جبکہ تمام سبزیوں کے دام قابو سے باہر ہیں،صبح کے نرخ نامے شام کو بدل جاتے ہیں۔،حکومت نے عوام کو سستی اشیاء فراہم کرنے کے لئے اربوں روپے کا رمضان پیکیج متعارف کروایا ، ملک بھر میں رمضان بازار بھی لگائے گئے ہیں، منتخب نمائندے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اشیاء کے نرخوں کی چیکنگ بھی کی جا ری ہے ،اس کے باوجود مہنگائی میں کمی تاحال کہیں دکھائی نہیں دیتی ہے۔
ادارہ شماریات کی نئی رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں 0.54فیصد اضافہ ہوا ہے،گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی مجموعی شرح 18.89کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہے ،اگر چہ یہ اعداد و شمارکبھی سوفیصد درست نہیں رہے اور عام آدمی آئے روز بڑھتی مہنگائی کے عفریت سے لڑ رہا ہے،حکومت اقدامات حوصلہ افزا نہیں رہے ہیں،حکومت بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روایتی طریقے سے کنٹرول کرنے کے باعث مکمل ناکام ہوئی ہے،حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ قیمتوں میں اچانک اضافہ حادثاتی نہیں ،بلکہ اس کے پیچھے منظم کوششیں اور منصوبہ بندی شامل ہے

اس وجہ سے رمضان آنے سے پہلے ہی چیزوں کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھا دیا جاتا ہے ،لہٰذا یہ تمام صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ان تمام غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے اور اس کے لیے ایک ایسا مربوط نظام بنایا جائے کہ جس میں تمام اسباب کو حل کرنے کے لیے ایک منظم پالیسی روبہ عمل لائی جائے، اس سلسلے میں وفاقی، صوبائی اور ضلع حکومتوں کو مل کر ایک پالیسی فریم ورک بنانا ہو گا،چونکہ اس وقت ملک میں ضلع حکومتیں موجود نہیںتو اس ضمن میں بیوروکریٹ اور افسر شاہی سے ہی کام لینا پڑے گا۔
اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان ایک دردمند دل کے مالک ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ مفلوک الحال طبقات کی مشکلات میں کمی لائی جائے،ملک بھر میں لنگر خانوں اور پناگاہوں کا نظام ان کی اسی درد مندی کا مظہر ہے ،لیکن مہنگائی سب سے زیادہ سفید پوش طبقے کی کمر توڑ رہی ہے کہ جس کی آمدن میں پچھلے دو تین سال سے اضافہ نہیں ہوا ہے۔ سکول ہر سال بچوں کی فیس بڑھا رہے ہیں‘ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھ جاتے ہیں‘ کچن آئٹمز کی خریداری کا بل دوگنا ہو چکا ہے، ادویات کی خریداری عام آدمی کی دست رست سے باہر ہے، ان حالات میں معمول کے اقدامات اور نگرانی سے مہنگائی کی شرح کم نہیں ہو سکتی،

حکومت کے پاس ریاستی وسائل اور طاقت ہوتی ہے‘ عوام کا خون چوسنے والوں کو کس طرح قابو میں لانا ہے، یہ حکومت کے لئے چنداں دشوار نہیںہے۔ اس میں حکومت کیلئے مشکلات ضرورہوں گی، پارلیمنٹ میں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے نمائندے بیٹھے ہیں‘ یہ لوگ عوام کے ووٹ لے کر مخصوص مافیاز کے مفادات کا تحفظ کرنے آتے ہیں،اگر وزیر اعظم اپنے اراکین پارلیمنٹ کو بلا کر مہنگائی کے متعلق اعتماد میں لیں تو کم از کم انہیں فیصلہ کرتے ہوئے تسلی ضرور ہو گی کہ جماعت سے وابستہ لوگ ان کے فیصلے سے انحراف نہیں کریں گے۔
یہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے،اس مہینے میں پاکستانی بحیثیت مسلمان دنیا کے لئے خود کو ایک نمونہ بنا کر پیش کرنیکی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر تو ناز ہوتا ہے کہ ہم عالم اسلام کی آواز بنتے ہیں،مگر ہمیشہ رمضان المبارک کے دوران ایک مثالی کردار اور سماجی و کاروباری نظم کا مظاہرہ کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں، اسی کوتاہی نے ہماری شناخت ایک بے حس قوم کی بنا دی ہے ، ہم دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ و خیرات دینے والوں میں شامل ہے، لیکن رمضان جیسے متبرک مہینے میں بھی ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے باز نہیں آتے ہیں

ہم ہر کام کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہیں ،جبکہ ہماری بھی کچھ معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریاں ہیں،رمضان المبارک کے دوران کمزور ومفلوک الحال اور سفید پوش طبقات کی مدد کا ایک طریقہ اپنے کاروباری منافع کم کرنا بھی ہے،لیکن ہمارے ہاں مہنگائی، قانونی‘کاروباری اور سماجی برائی کی شکل میں فروغ پا تی جارہی ہے، اس کا سدباب کئے بغیرپاکستانی سماج کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔وزیراعظم کا مشن بھی عوام کی غربت دور کرناہے،تاہم اس کے لیے مربوط حکمت عملی بھی وضع کرنا ہو گی ، ایک عرصے سے عوام نے توصبر کا دامن تھام رکھا ہے، حکومت کو بھی عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کیلئے بے قابو مہنگائی مافیا قابو کرناہو گا، تب ہی حقیقی معنوں میںخوشحال عوامی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں