ماہ صیام اور دھرنوں کی حقیقت 166

دھرنوں کی حقیقت اور ماہ صیام

دھرنوں کی حقیقت اور ماہ صیام

تحریر: قمرالنساء قمر
[email protected]
بے شک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی،اور اگر پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد رسی ہو گی اس پانی سے کی چرخ دیے (کھولتے) ہوئے دھات کی طرح ہے کہ ان کے منہ بھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا ہے اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ۔ (الکھف 29) تحریک لبیک کی جانب سے پندرہ نومبر 2020 کو ریلی نکالی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ فرانس نے ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سرکاری سطح پر کی ہے۔ اس لیے جواب بھی سرکاری سطح پر دیا جائے۔ اور احتجاجاً فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں 16 نومبر کو فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاہدہ حکومت وقت اور تحریک لبیک کے درمیان طے پایا یاد رہے

،یہ معاہدہ مرکزی رہنما علامہ خادم حسین رضوی کی زندگی میں ہی ہوا ،اس معاہدے کی تکمیل کے لیے دوبارہ دو ماہ کا وقت 20 اپریل تک مانگا گیا ،جس کا باقاعدہ اعلان وزیراعظم پاکستان نے پوری قوم کے سامنے میڈیا پر کیا، یوں پوری قوم اس معاہدے کی گواہ ٹھہری۔ تحریک لبیک نے اعلان کیا کہ اگر 20اپریل تک حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو 20اپریل کو تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم مارچ کا آغاز کیا جاے گا۔ جس کے نتیجے میں گیارہ اپریل کوتحریک کے مرکزی امیر حافظ سعد حسین رضوی کو ایک جنازے سے واپسی پر گرفتار کر کے ، گویا پاکستانی قوم کو رمضان المبارک کی آمد کا تحفہ دیا گیا۔یہ ہے مختصر حقیقت موجودہ دھرنوں اور ملکی صورتحال کی لیکن اس پر مزید کوئی بھی بات کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں

کی ایسے احتجاج کی حیثیت کیا ہے۔ پوری دنیا میں احتجاج کا ایک مسلمہ ضابطہ مانا جاتا ہے ،کہ کسی ملک کے سفیر کو مراسلہ پکڑایا جائے ،اور اسے ملک بدر کیا جائے۔ کہ ہم باضابطہ احتجاج کرتے ہیں کہ آپ اور آپ کے ملک کی پالیسی ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ کسی بھی ملک کے سفیر کو احتجاجاً نکالنا کوئی بہت بڑی بات نہیں ،جیسے کہ انڈیا و پاکستان میں بھی احتجاجاً دونوں طرف سے سفیروں کو نکالا جاتا رہا ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلام کے نام پر لیا گیا، اور جسے ہمارے راہنماؤں نے اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا۔اگر اس ملک میں عاشقان رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے احتجاجاً اس ملک کے سفیر کو نکالنے کی بات کی ،جس نے نہ صرف سرکاری طور پر اعلی اعلان ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی، بلکہ آئے روز گستاخی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ تو اس میں کونسا بڑا مطالبہ تھا، جسے پورا نہیں کیا جا سکتا تھا۔بلکہ یہ تو اسلامی جمہوری حکومت کو خود ہی کر لینا چاہیے تھا۔کہ مسلمان کی غیرت ایمانی ملی کا تقاضا تھا۔ اور ہمارا قانونی حق تھا۔

نماز اچھی روزہ اچھا زکوۃ اچھی حج اچھا
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں محمد عربیؐ کی عزت
پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا

لیکن پاکستان کے بائیس کروڑ مسلمانوں کے مطالبے اور اس کے جواب میں ان سے کیے گئے دوہرے عہد کے باوجود سفیر نکالنے کی بجائے نہتے عاشقان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل عام کر کے تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لینا بھی ضروری ہے۔ کہ کسی ملک میں کوئی پارٹی جب اپنے مطالبات پراحتجاج کرتی ہے۔ تو اس کی مجموعی صورتحال کو کیسے دیکھا جائے گا۔پاکستان کے آئین دفعہ 4 یقینی بناتی ہے، کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو، دفعہ 9 کہتی ہے قانون کی اجازت کے بغیرکسی کو زندگی اور آزادی سے محروم نہ کیا جائے گا۔اس قانون کی رو سے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا۔ ہر شہری پر امن احتجاج کا حق رکھتا ہے،

اسی کے تحت 2017میں عمران خان نے فیصل آباد بند کروں گا ،لاہور بند کروں گا ،اسلام آباد بند کروں گا کراچی بند کروں گا ،اور پاکستان بند کروں گا کے مشہور زمانہ نعرے لگائے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ چار حلقوں کی خاطر ایک سو چھبیس دن ڈی چوک پر دھرنا دیا گیاان دھرنوں میں لا قانونیت کی انتہا کی، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا ،اور خود عمران خان نے پولیس والوں کے لیے احکامات دیئے پی ٹی وی پر قبضہ کر کے سول نافرمانی کی تحریک چلائی ریاستی عمارتوں پر حملے کیے، اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔قوم کی بیٹیاں احتجاج کے نام پر سڑکوں پر ناچتی رہی شیخ رشید نے کہا جلاؤ! گھیراؤ! اسمبلی کو آگ لگا دوں گا، ملک کو آگ لگا دونگا (ان ریکارڈ ہیں)عمران خان نے کہا

اگر کسی نے ہمارے احتجاجی مظاہرین کو ہاتھ بھی لگایا تو میں انہیں خود پھانسی دونگا(اب مظاہرین کو ہاتھ لگانے والوں کو بلکہ روزے کے ساتھ شہید کرنے والوں کو کون پھانسی دے گا) اب آئین کی دفعہ چار کے تحت (یکساں قانون) موجودہ حکومت وقت کے ذاتی قانون کے مطابق اس وقت اس طرح کے نعرے لگانے والوں کو کالعدم قرار، دے کر سرعام قتل نہیں کیا گیا تھا ، نہ ہی عمران خان کو جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر دہشت گردی کے مختلف مقدمے قائم کر دئیے گئے تھے۔ ماضی کی حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا ، تو موجودہ حکومت کو بھی ایسا کچھ کرنے کا آئینی اور قانونی طور پر کوئی حق نہیں تھا۔وہ بھی ان لوگوں پر جو بہت پر امن لوگ ہیں۔اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے با مقصد مشن پر نکلے ہیں۔ جو کار کنوں کو ملک کا ایک پتا بھی نہ توڑنے کی تنبیہ کرتے رہتے ہیں۔جب کہ پی ٹی آئی تو ماضی میں اسمبلی اور ملک کو آگ لگا دینے کا اعلان کرتی رہی ہے

۔ لیکن اس کے باوجود اسے کالعدم قرار نہیں دیا گیا، نہ ہی ان کو تشدد اور دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کیا گیا ،نہ ہی دو ،دو سو لوگوں کو زندہ جلانے والی پارٹیوں اور ان کے گینگ وار گروپوں کو تحفظ دینے والی پارٹیوں، کو کالعدم قرار دیا گیا ،نہ انہیں دہشت گرد کہا گیا، تو کیا ساری دشمنی اسلام سے ہے۔کیا پاکستانی عوام کے لیے یہی دن دیکھنا رہ گیا تھا کہ معاشرے کے معزز ترین طبقہ علمائ￿ سے جیلوں کو بھر دیا جاتا۔ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثوں کو دہشتگرد کہا جاتا۔ حکومت وقت بائیس کروڑ عوام کو بھی یہ سمجھا دیں کہ وہ کس قانون کے تحت تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر مارچ کرنے والے نہتے پاکستانیوں پر سیدھی گولیاں چلا رہی ہے۔ کس قانون کے تحت اٹھ نو سال کے بچوں کو شہید کیا گیا، ان کے اوپر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئیں۔کس قانون کی رو سے بزرگوں کو لاٹھیوں سے مار مار کر شہید کیا گیا۔

کس قانون کے تحت جیلوں میں قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ،کس قانون کے تحت شیخ رشید نے کہا کہ ہم مظاہرین کے بینک اکاؤنٹ شناختی کارڈ پاسپورٹ بند کریں گے۔ کس قانون کے تحت پاکستان کی پانچویں اور پنجاب کی تیسری بڑی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے منظور شدہ جماعت کو کالعدم قرار دینے کی خبر چلا رہے ہیں۔ رجسٹرڈ پارٹی پر پابندی کا معاملہ آئین اور قانون میں طے شدہ ہے۔ آرٹیکل 17 میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے ،کہ اگر فیڈرل گورنمنٹ کسی پارٹی کو کالعدم کرنا چاہتی ہے۔تو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا، اور اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کریں گی۔ کہ پارٹی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا یا نہیں تو آپ کس قانون کے تحت نظریہ پاکستان کی نمائندہ پاکستان کی پانچویں بڑی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کا غیر آئینی غیر جمہوری طریقہ اختیار کر رہے ہیں۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوئی پورے ملک سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا

سیکڑوں راہنماؤں اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر کے دہشت گردی کی اور مختلف مقدمات کی دفعات لگا کر سینٹرل جیل اڈیالہ اور مختلف عقوبت خانوں میں منتقل کر دیا گیا۔رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ سے اور پاکستان کے علماء سے عقوبت خانے بھر گئے ہیں۔ اور ان پر تشدد سے مسلمانوں کے دل دکھ سے زخمی ہو گئے ہیں۔ پر امن مظاہرین اور شہریوں کی املاک کو جلایا میڈیا بلیک آؤٹ کیا،(سچوں کو میڈیا بلیک آؤٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے)اسے پیمرا کے حکم پر چلایا۔ سعد رضوی اور دیگر راہنماؤں کے نام پر جھوٹے بیانات نشر کروائے گئے۔ نہتے عاشقان پر پولیس اہلکاروں کو اغواء کرنے کے بھونڈے الزامات لگائے گئے۔اور مسلسل جھوٹ بولا جا رہا ہے۔اگر چہ چند غیور اور ذمہ داران صحافیوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ لیکن عمران خان جیسے صحافی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کے ہونٹ سلے ہوئے ہوتے ہیں،

اور جو کہنا چاہتے ہیں کہہ نہیں پاتے ہیں۔ ماضی میں تحریک لبیک کے ساتھ کھڑا ہو کر ، خود کو مجاہد ختم نبوت کہنے والے شیخ رشید نے خود قوم کے سامنے کتنے ہی جھوٹ بولے ہیں، سوشل میڈیا پر پابندی لگائی ہے۔ اور نہتے مسلمانوں پر گلیوں میں کیمیکل اور تیزب ملا پانی چھوڑ دیا گیا ہے۔ آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، مگر بات کالعدم قرار دینے ،دہشتگرد ی کے مقدمات قائم کرنے ،جیلوں میں بد ترین تشدد کرنے، نمازیوں اور روزے داروں پر پر بد ترین شیلنگ آنسو گیس ،تیزاب ملے پانی چھوڑنے تک محدود نہیں رہی، ریاستی ظلم کی انتہا کے اپنے ہی پاکستانی مسلمانوں کوزخمی حالت میں تڑپتا چھوڑ دیا گیا۔ ایمبولینس سروس موجود ہونے کی باوجود زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے سے روک دیا گیا۔

رہتی دْنیا تک انسانیت اس گھناونے فعل پر شرمندہ رہے گی۔اور بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوئی۔ اٹھارہ اپریل کی صبح یتیم خانہ چوک میں اقتدار کے نشے میں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے 47 عاشقان رسول اللہ صلی اللہ کو شہید کیا گیا۔ اور ایک اندازے کے مطابق سو سے زیادہ معذور کر دیئے گئے ملک بھر میں تقریباً اب تک 114شہادتیں ہو چکیں ہیں۔ اور سیکڑوں لوگ زخمی ہیں۔آج دھرنے کے نویں روز تک یہ ظلم جاری ہے۔ لیکن سلام ہے ان مجاہدوں پر گولیاں کھا کر تاجدار ختم نبوت کی صدائیں بلند کر رہے ہیں کیا پاکستانی قوم یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ ہمیں بتایا جائے یہ سب کس قانون کے تحت کیا گیا۔ کیوں غیر آئینی طور پر اتنے لوگوں سے زندگی اور آزادی کا حق چھین لیا گیا۔ آئین شکنی تو غداری کے زمرے میں آتی ہے۔

اگر آئین کو ہٹا دیں تو وفاق بھی ٹوٹ جاتا ہے اور پاکستانیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔’ دوہری وعدہ خلافی تو آپ نے کی اور الٹا ظلم یہ کہ رمضان کے مقدس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی لوگوں پر بد ترین ظلم توڑنے شروع کر دیئے لوگوں کو مجبور کر دیا کہ وہ سڑکوں پر تراویح پڑھ رہے ہیں۔سڑکوں پر تلاوت کر رہے ہیں۔لیکن کن الفاظ میں اس ظلم کو بیان کیا جائے کہ اس پر بس نہیں ہوئی ان نہتے روزے داروں کے خون سے لاہور کی سڑکیں رنگین کر دی گئیں۔ اقتدار کی ہوس میں آئین کو ٹھکرایا گیا قانون میں اس کی سزا موت ہے۔۔۔۔ اب آئین سے انحراف کے تحت اور اقدام قتل کے تحت ان غداران وطن کو سزا ملتی ہے یا نہیں لیکن خدا کے قانون میں اس کی عدالت سے نہیں بچ سکتے۔ مظلوم کی آہ رائگاں نہیں جاتی۔ آج امریکہ نیویارک میں فرانسیسی کونصلیٹ کے سامنے مظاہرہ ہوا جبکہ منگل سے جمعرات برطانوی قونصلیٹ کے سامنے دھرنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔

کشمیر میں احتجاج ہو رہا۔ قومی اسمبلی میں علی محمد اور دیگر وزراء نے اپنی ہی تحریک کے خلاف آواز اٹھائی ہیں۔تحریک انصاف کے کچھ لوگوں نے استعفے بھی دئیے ہیں۔ ملک بھر سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تاجر برادری نے تحریک لبیک کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔ آج اس قوم کو اپنے مستقبل کے لیے سنجیدہ ہو جانا چاہیے تحریک لبیک کا نظریہ ،نظریہ اسلام، اور نظریہ پاکستان، ہے جس نظریہ کے لیے ہمارے راہنماؤں نے اتنی قربانیاں دیں آج تحریک لبیک اسی نظریہ کی اپنے لہو سے آبیاری کر رہی ہے۔آج اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا حال قوم کے سامنے ہیں۔ تمام ارباب اہل دانش سمجھ چکے ہیں، اگر تحریک لبیک کمزور پڑ گئی تو پھر پاکستان اسلامی جمہوریہ نہیں رہے گا۔

پاکستانی قوم کو اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء اور نظریہ پاکستان کے لیے انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔اور اس ملک کی فلاح و بقا کے لیے لڑنا اب ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کی جائے۔ امام اعلی مقام نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب وقت کا حاکم حرام چیزوں کو حلال کرنا شروع کر دے۔ اور اللہ کے عہد کو توڑ کر رکھ دے۔اور اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو توڑ دے۔ لوگوں پر ظلم و زیادتی شروع ہو جائے۔ اس دور میں جو بندہ چپ رہا اور اس نے اپنے قول اور فعل کے ذریعے اس شخص کی مخالفت نہ کی اور قول اور فعل کے ذریعے اس شخص کی مدد کرتا رہا اللہ عزوجل پر یہ بات حق ہے کہ اللہ عزوجل اس شخص کو دوزخ میں ڈال دیں(الکامل فی التاریخ ) ہم سب کو بالعموم اور میڈیا کو بالخصوص اس

حدیث کی روشنی میں اپنا اپنا تجزیہ کرنا چاہیے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے انداز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظلم کی مدد ہوتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں