سیاسی ہوائوں کا رُخ بدل رہا ہے!
تحریرشاہد ندیم احمد
تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کیلئے اہم ترین کردار نبھانے والے جہانگیر ترین،اس وقت اپنے لئے انصاف مانگ رہے ہیں،اگر ان کی داد رسی نہ ہوئی تو لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں جہانگیر ترین گروپ سیاسی میدان میں تحریک انصاف کے مدمقابل ہوگا۔11 اراکین قومی اسمبلی اور 22 اراکین پنجاب اسمبلی نے جہانگیر ترین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنا الگ گروپ تشکیل دیا ، جسے ترین گروپ کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ان تمام اراکین اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا،انہوں نے وزیر اعظم کو جہانگیر ترین کے خلاف درج ایف آئی اے مقدمات کے حوالے سے جہانگیر ترین کے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کون سے افراد ایف آئی اے تحقیقات پر اثر انداز ہو کر جہانگیر ترین کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، یہ ابھی واضح نہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ ایف آئی اے مقدمات اور تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان نے سیاست کے آغاز سے لیکر آج تک ایک ہی بیانیہ پیش کیا ہے کہ وہ غیر جانبدار یکساں احتساب کے حامی اور امیر و غریب کیلئے ایک ہی قانون ہونا چاہئے،اس کا اظہار جہانگیر ترین کی حمایت کرنے والے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات میں بھی کیا گیا ہے،وزیراعظم نے ارکان پر واضح کیا کہ میری واضح پالیسی ہے کہ احتساب میں مخالفین کے ساتھ بھی زیادتی نہ ہو نے پائے ،جہانگیرترین میرے ذاتی دوست اورپارٹی کے اہم رہنماہیں،انصاف کاتقاضاہے کہ ہم سب قانون کے سامنے جوابدہ ہیں،ہم میرٹ اورانصاف کے مقصدکیلئے اقتدارمیں آئے ہیں،چینی کی قیمت میں اچانک اتنے اضافے پرپو چھنا توپڑے گا،آپ سب یقین رکھیں کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی،قانون کی بالادستی کے بغیرکوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا،انصاف کاتقاضاہے کہ سب کوصفائی کاپوراموقع ملے،شہزاداکبرکی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں،وہ میرٹ پرکام کررہے ہیں۔
سیاست میں تعلقات اور دوستیاں ذات سے مفادت تک ہی جڑی ہوتی ہیں،اس میں ڈراڑیں مفادات کے ٹکرائو سے آتی ہے، جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان غلط فہمیوں کا آغاز 2019 ء میں اس وقت ہوا تھا کہ جب ایوان وزیر اعظم کے ایک سینئر ترین بیوروکریٹ نے حکومتی معاملات میں جہانگیر ترین کی مداخلت پر اعتراض کرنا شروع کیا،جہانگیر ترین کے حامیوں کے مطابق اس بیوروکریٹ کے ساتھ اینٹی ترین افراد شامل ہوتے گئے
اور یہ ایک مضبوط گروپ بن گیا ، اسی دوران ایک سویلین خفیہ ادارے نے جہانگیر ترین فیملی کی ایک ریکارڈنگ وزیر اعظم کو پیش کی، جس میں مبینہ طور پر ترین فیملی کی خواتین وزیر اعظم کی اہلیہ کے بارے میں سخت ترین الفاظ میں گفتگو کر رہی تھیں،سیاسی حلقوں کے مطابق اسی ریکارڈنگ کے بعدسے ہی جہانگیر ترین کے خلاف ایک باضابطہ محاذ وجود میں آیا ہے۔جہانگیر ترین نے حالات کو بھانپتے ہوئے کچھ عرصہ کیلئے بیرون ملک قیام کیا، 7 ماہ بعد جب مقتدر حلقوں نے انہیں واپسی کا گرین سگنل دیا تو واپس آ گئے، لیکن اینٹی ترین لابی تازہ دم ہو کر میدا ن میں اتر پڑی اور اس نے شوگر سکینڈل کی آڑ میں ترین کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کر کے وزیر اعظم اور ترین کے درمیان کم ہوتے فاصلوں کو ناقابل عبور خلیج میں تبدیل کردیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جہانگیر ترین بڑی فہم و فراست سے اب تک بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ،لیکن اینٹی ترین لابی زیادہ متحرک ہے ،اس لیے جہانگیر ترین کو سیاسی دبائو کا راستہ اختیار کرنا پڑا ہے،جہانگیر ترین کے ساتھ جس تعداد میں اراکین اسمبلی موجود ہیں،وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر وفاق اور پنجاب میں حکومت گراسکتے ہیں۔ بعض با خبر حلقوں کا دعوی ہے کہ جہانگیر ترین از خود میدان میں نہیں اترے اور نہ ہی تمام اراکین اسمبلی بنا کسی اشارے کے کھل کر سامنے آئے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تبدیلی سرکار کیلئے بھی کہیں اور تبدیلی پروگرام تیار ہو رہا ہے۔ اس وقت ترین گروپ شاید کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل نہ ہو، لیکن اپنی الگ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے
(ق) لیگ،( ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مستقبل کی سیاست میںایک پیج پر آ سکتا ہے۔
اس پیچیدہ صورتحال کا وزیر اعظم عمران خان کو بھی بخوبی اندازہ ہے،اسی لئے ابھی تک جہانگیر ترین کے کسی فیملی ممبر کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور فی الوقت معاملات مقدمات کی تفتیش تک محدود رکھے گئے ہیں، لیکن اگر مستقبل میں ٹکراو کی صورتحال بنتی ہے تو حکومت بھی تمام آپشن استعمال کرے گی۔ تحر یک انصاف میں جہاںفواد چوہدری اور چوہدری غلام سرور مصالحت کیلئے کوشاں ہیں تو وہیں شاہ محمود قریشی اور علی امین گنڈا پور نے کھل کر ترین کی مخالفت کرر ہے ہیں۔ ممکن ہے کہ اراکین اسمبلی کے ایک بڑے گروپ کی وجہ سے جہانگیر ترین کو عارضی ریلیف مل بھی جائے اور نئے مقدمات درج نہ ہوں نہ ہی نئی تحقیقات کی جائیں،جہانگیر ترین کو موجودہ مقدمات کا سامنا کرنے دیا جائے لیکن یہ واضح ہے کہ جہانگیر ترین اورعمران خان اب ایک پیج پر نہیں رہے ہیں ۔
تحریک انصاف کیلئے جہانگیر ترین کی خدمات اور قربانیوں کا موازنہ کسی دوسرے رہنما سے نہیں کیا جا سکتا، اس کی تنظیم سازی سے لیکر انتخابی منصوبہ بندی تک ہر معاملے میں جہانگیر ترین نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا ہے، میاں نواز شریف کی نا اہلی کو بیلنس کرنے کیلئے جہانگیر ترین کو نا اہل کیا گیا
تو بھی شکوہ شکایت نہیں کیا،لیکن اگر آج ناراض ہو کر کچھ کہہ رہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ اپنے دوست کے برتاوسے دل گرفتہ ہیں۔جہانگیر ترین کو یقین ہے کہ ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے بارے وزیر اعظم با علم اور شاید رضامندی بھی ہوں گے لیکن ابھی تک جہانگیر ترین نے براہ راست عمران خان کو مورد الزام نہیں ٹھہرا یاہے ،تاہم وزیر اعظم عمران خان کی جہانگیر ترین گروپ سے ملاقات کا نتیجہ جانچنے کیلئے کچھ روز انتظار کرنا پڑے گا،اگر ایف آئی اے تحقیقات کی رفتار سست ہوجاتی ہے تو یہی اخذ کیا جائے گا کہ مفاہمت غالب آچکی ہے، لیکن بادی النظر میں ایسا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں،اس عید کے بعد ملکی سیاست بھی گرما گرمی ہو گی اور ترین گروپ کی سرگرمیاں بھی اپنا رخ بدلیں گی ، اس وقت ہی معلوم ہوگا کہ تبدیلی کی ہوائیں اپنا رخ کس سمت بدل رہی ہیں۔