میں نہ مانوں کی بجائے حل ڈھونڈنے میں بھلائی !
تحریر:شاہد ندیم احمد
ہمارا سیاسی مزاج کچھ اس طرح کا بن گیا ہے کہ انتخابات کتنے ہی پرامن،شفاف، آزادانہ اور منصفانہ ہوں، ہارنے والا ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتاکہ ہارا ہے ،ماضی میں نہ مانوںکی رٹ بڑے بڑے قومی سانحات کا سبب بنی ہے،لیکن اس کے باوجود آج تک ہمارا سیاسی کلچر تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی ہم اتنے عالیٰ ظرف ہوئے ہیں کہ ہار کو تسلیم کرکے جیتنے والے کو مبارکباد دیں اور نظام جمہوریت کو رواں دواں رکھنے کیلئے بقدر حبثہ اپنا حصہ ڈالیں، بلکہ یہاں تو ہارنے والے کا کردار ہی بالکل متضاد ہوتا ہے، وہ ہار نے بعددھاندلی کا الزام لگا نے میں دیر نہیں کرتا ہے، کراچی کے این اے 249 کے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بارے میں یہی کچھ کہا جارہا ہے ۔
کراچی کے ضمنی انتخاب بھی ہر الیکشن کی طرح متنازع ہوگئے ہیں،انتخاب میںجیتنے والی جماعت کے سوا تمام دوسری جماعتوں کے اُمیدواروں نے نتائج مسترد کردیئے ہیں۔ پی ڈی ایم میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ آئینی بالادستی کی خاطر جمع ہونے کا دعویٰ کرنے والی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں کراچی کے انتخابی نتائج پر ایک دوسرے سے لفظی جنگ میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف بھی الیکشن کے نتیجے پر مسلم لیگ (ن) کی ہم آواز ہے ،مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے امیدواروں نے انتخابی نتائج کو چیلنج کرتے ہوئے ریٹرننگ افسر سے تحریری طور پر شکایت کردی ہے، جبکہ جیتنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ دھاندلی کے الزامات لگانے والے ثبوت پیش کریں، ورنہ خاموش رہیںتو بہتر ہے۔
ڈسکہ میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخاب کے تجربے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ کراچی کے ضمنی انتخاب میں ایسی کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہیں ہوگی، انتخابی نتائج کی تیاری میں شفافیت کا ایسابے داغ اہتمام ہوگا کہ کسی کے لیے انگلی اٹھانے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ،لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا،انتخابی نتائج کو مشتبہ قرار دینے والوں کا موقف ہے کہ آغازمیں پولنگ اسٹیشنوں کی بڑی تعداد سے جو نتائج موصول ہوئے ،اس میں مسلم لیگ (ن) کا پلہ واضح طور پر بھاری تھا ،لیکن پھر کئی گھنٹوں کے لیے نتائج کی آمد کا سلسلہ رک گیا
اس کے بعد سارا نقشہ ہی بدل گیا ،پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کو دھاندلی کے ذریعے کا میاب کروایا گیا ہے۔انتخابی نتائج سے غیرمطمئن جماعتوں کو قانونی جنگ لڑنے کا پورا آئینی حق حاصل ہے، اگر اپنا موقف ثابت کرنے میں کامیاب ہوئیں تویہ توقع بے جا نہیں کہ ڈسکہ کی طرح کراچی کے ضمنی الیکشن پر بھی منصفانہ فیصلہ سنایا جائے گا، تاہم ملک میں تقریباً ہر الیکشن کے بعد رونما ہونے والی یہ بدنما صورت حال جس کی وجہ سے ہمارے انتخابات عملاً مذاق بن کررہ گئے ہیں،یہ ناقابل برداشت ہے، اسے جلد از جلدختم ہونا چاہیے۔شفاف انتخابی عمل کے بغیر حقیقی اور مستحکم جمہوریت کا قیام ناممکن ہے،عشروں سے جاری اس کیفیت کے باعث انتخابات اور جمہوریت پر سے لوگوں کا اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے ،لہٰذاانتخابی عمل کو ہر خامی سے اس طرح پاک کیا جانا چاہیے کہ کسی بھی قسم کی دھاندلی اور ووٹ چوری کا کوئی ادنیٰ امکان بھی باقی نہ رہنے پائے،ورنہ میں نہ مانوں کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔
اس تناظر میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اوروزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی خاطر حکومت کے ساتھ تعاون کی دعوت کو اپوزیشن کے لیے یقینا قابل غور ہونا چاہیے۔ وزیر اطلاعات کے بقول پیپلز پارٹی نے ایک نشست کیلئے جس طرح نظام کو یرغمال بنایا ،اس کے بعد انتخابی اصلاحات کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹرشہبازگل کا کہنا ہے کہ شفاف انتخابات کیلئے اپوزیشن سے مل کر انتخابی اصلاحات کے خواہاں ہیں ،جبکہ وزیراعظم نے اس مقصد کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنے کی ہدایت
بھی کردی ہے،تاہم محض الیکٹرانک مشینیوں سے مسئلہ مکمل حل نہیں ہوگا، کیونکہ اس میں بھی خاصی خامیاں موجود ہیں ،انتخابی اصلاحات کا کام حکومت تنہا نہیں کر سکتی ، اس کے لیے قومی اتفاق رائے کے ساتھ الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کی مشاورت اور شرکت بھی لازمی ہے۔
تحریک انصاف حکومت انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کو بار ہا مشاورت کی دعوت دے چکی ہے ،مگر اپوزیشن انتخابی اصلاحاتی عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے حکومت کو گھر بھیجنے میں زیادہ دلچسبی رکھتے ہیں،اپوزیشن قیادت زبانی کلامی انتخابی اصلاحات کی بات تو کرتے ہیں ،مگر عملی طور پر مشاورت سے گریزاں ہیں،مریم نواز ایک طرف دھاندلی کا شور مچارہی ہیں تو دوسری طرف کہتی ہیں کہ کراچی الیکشن کے حوالے سے حکومت کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہی رویہ ہماری سیاست میں نفرتوں کو پروان چڑھاتا ہے،سیاسی منصب اور ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ انتخابات کا عمل اس قدر شفاف ہونا چاہئے کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے، اس کے بعد سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج ماننے میں لیت و لعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بصورت دیگر میں نہ مانوںکی روایت ختم ہوگی نہ ملکی و قومی اداروں پر اعتماد بڑھے گا اور نہ ہی جمہوری عمل مستحکم ہو سکے گا، اس لئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے مل بیٹھ کر انتخابی اصلاحاتی حل ڈھونڈنکالنے میں ہی سب کی بھلائی ہے۔